شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

ایم کیوایم کیا؟کیوں؟کیسے؟

میں‌نے یہ تحریر کیوں‌لکھی: ایم کیو ایم سے مجھےکوئی ذاتی بیر نہیں‌مگر پچھلے کچھ عرصے سے یہ نام کچھ اس طرح‌میرے سامنے آیا ہے کہ مجھے مجبورًا اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت۔ میرے شہر فیصل آباد میں‌ایم کیوایم کے دفتر کے قیام کی خبر۔ پھر زلزلے کی حوالے سے ایم کوایم کی سرگرمیاں‌ اور اس کے بعد اردو ویب آرگ پر ایم کیوایم کےبارے میں‌بحث۔ اس بحث کی وجہ سے میں‌مجبور ہوا کہ ایم کیوایم کے بارے میں‌جانوں‌اور اس کے بارے میں‌کچھ لکھوں‌، میرے جیسے کئی ہونگے جو اس کے بارے میں‌نہیں‌جانتے ہونگےاورجاننے کے خواہش مند ہونگے اسی لیے میں‌یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اس کو لکھنے کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں‌ایک تو الطاف حسین جو ایم کیوایم کاقائد بھی ہے کی آپ بیتی “سفر زندگی “ (جنگ پبلشرز)اور دوسری کتاب “ایم‌کیو ایم“از منیر احمد ہے(نگارشات لاہور) ۔مَیں‌کوشش کروں‌گا کہ اس تحریر میں‌جذبات سے بالاتر ہوکر صرف حقائق بیان‌ کرنے کی کوشش کروں‌۔ ایم کیو ایم کے قیام کی وجوہات: الطاف حسین 17 ستمبر 1953میں کراچی میں‌پیداہوا۔ 1969 میں‌بوائز سکینڈری سکول جیل روڈ سے میٹرک کرنے کے بعد سٹی کالج سے انٹر سائنس کے ساتھ کیا۔ اس کے بعد 1972 میں‌اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کی۔اسی دوران کچھ ایسے واقعات و حالات پیش آئے جس سے آئندہ ایم کیوایم کے قیام کے حالات پیدا ہوئے۔ 1970میں ‌نیشنل کیڈٹ سروس کے تحت الطاف حسین نے بھی فوجی تربیت حاصل کی۔ خود الطاف حسین کا بیان ہے کہ وطن کی حفاظت کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ جی کرتا اڑکر سرحدوں‌پر پہنچ جائیں۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنھوں‌نے الطاف کا دل فوج سے کھٹا کر دیا حالانکہ اس کی بچپن سے خواہش تھی کہ فوج میں‌بھرتی ہوکر وطن کی خدمت کرے۔ دوران تربیت امتیازات کا ایسا ایسا مظاہرہ ہوا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید کراچی والے اچھوت ہیں۔ انھیں‌کمزور اور شہری ہونے کے طعنے دیے جاتے دوران تربیت اور مشقوں‌میں‌بھی انھیں‌ایسا کام دیا جاتا جو نسبتًامشکل ہوتا۔ اس سب سے گھبرا کر اور اکتا کر اطاف حسین نے فوج چھوڑ دی۔ بی ایس سی کے بعد بی فارمیسی میں داخلہ لیا۔ یہ کیسے ملا یہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ ان کا نتیجہ دیر سے آیا اور یونیورسٹی نے داخلے دینے سے انکار کردیا۔ آخر نوماہ کے طویل احتجاج کے بعد داخلہ ملا۔ بی فارمیسی میں‌ داخلے کے بعد جب الطاف حسین یونیورسٹی(جامعہ کراچی) میں‌داخل ہوا تو اس کی وطن پرستانہ سوچ پر ایک اور ضرب اس وقت پڑی جب اس نے جگہ جگہ پنجابی سٹوڈنٹ فیڈریشن،پختون سٹوڈنٹ‌فیڈریشن،گلگتی سٹوڈنٹ فیڈریشن،بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور اسی طرح‌کے دوسرے قوم پرستانہ ناموں‌پر مشتمل طلبہ یونینوں‌ کے بینر دیکھے۔ الطاف حسین کو یہ پتا چلا کہ بڑی یونینیں‌جیسے جمعیت اور پروگریسوسٹوڈنٹ وغیرہ ان علاقائی ناموں پر مشتمل تنظیموں‌سے دوران انتخابات اتحاد کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سب اور پھر مہاجر طلبہ سے امتیازات دیکھ کر الطاف حسین نے اے پی ای ایس او قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ الطاف حسین نے تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بطور کارکن کام کیا۔ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی میں اہم عہدے پر رہا۔ مگر یہاں بھی تلخ تجربات ہوئے سازش کے ذریعے عہدے سے سبکدوش کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں الطاف حسین کے ذہن میں مہاجر قومیت کا تصور مزید مضبوط ہوا۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کا قیام 11جون 1978 کو عمل میں‌آیا۔ اس سے پہلے دوسال تک صرف خفیہ میٹینگز ہوئیں‌تھیں۔‌‌‌قیام کے وقت الیکشن کے ذریعے الطاف حسین کو چئیرمین اورعظیم طارق (بعد میں ایم کیوایم کا چئیر مین بھی بنا پھر کراچی کے فسادات میں ‌قتل ہوا) کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اے پی ایم ایس او اصل میں‌طبل جنگ تھا۔ اس نے آگے ایم کیوایم کے قیام کی راہیں‌ہموار کیں۔ اے پی ایم ایس او کے قیام کے بعد الطاف حسین کو جن مشکلات اور صدموں‌سے گزرنا پڑا انھوں نے آگے چل کر ایم کیوایم کے قیام کی راہ ہموار کی۔جعیت جو جماعت اسلام کی ذیلی تنظیم ہے سے الطاف حسین کے اختلافات اسی دور میں شروع ہوئے آج بھی جماعت اسلامی اور ایم کیوایم میں‌ایسا بیر موجود ہے جس کی مثالیں‌دی جاسکتی ہیں۔ الطاف حسین نے اپنی تحریک کے فروغ کے لیے بہت جدوجہد کی۔ سائیکل پر کام کیا۔ چندہ جمع کرکے تنظیم کے اخراجات پورے کیے۔ ٹیویشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اور تنظیمی اخراجات میں‌چندہ دیا۔ اس دوران اتنی تکالیف برداشت کرنا پڑیں‌کہ تنطیم کے اراکین جو قیام کے وقت ڈیڑھ سو تھے پینتیس چالیس رہ گئے۔الطاف حسین کو اسی دوران سرمایہ داروں نے چندہ کے سلسلے میں‌بہت مایوس کیا حالانکہ وہ سب بھی مہاجر تھے۔ تنظیم پر سب سے زیادہ سختیاں‌جمعیت نے کیں‌۔ تھنڈر سکواڈ سے اراکین کو ہراساں‌کیا گیا۔ جھگڑے ہوئے ہر حد پارکر دی گئی۔ پہلے الیکشن میں‌تنظیم کو خاص کامیابی نہ ملی ۔ دوسرے الیکشن میں نو سو ووٹ، تین کونسلر اور ایک فیکلٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا۔ اس دوران داخلہ مہم میں‌طلبہ نے تنظیم پر اپنے اعتماد کا بے پناہ اظہار کیا۔ اسی دوران مہاجرسٹوڈنٹ فیڈریشن کا شوشہ بھی چھوڑا گیا جو کامیاب نہ ہوا۔ داخلہ مہم میں ‌جمعیت نے کھلی چھیڑ چھاڑ کی حتٰی کہ الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی ایف آئی آر بھی درج نہ کروائی جاسکی۔ ایم کیوایم کا قیام: اے پی ایم ایس او کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ارباب اختیار اور دوسری حریف تنظیموں‌نے ایسے اقدامات کیے کہ اسے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ جامعہ کراچی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں‌تنظیم کے اراکین پر بے پناہ سختی کی گئی۔ تنظیم کے تعلیمی اداروں‌سے اخراج کے بعد الطاف حسین اور ساتھیوں‌کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اب انھوں نے اپنی تنظیم کو گلی کوچوں کی سطح پر منظم کرنے کا کام شروع کردیا۔عوامی سطح‌پر اے پی ایم ایس او کے منشور کی مقبولیت کے بعد 18 ماچ 1984 میں‌ ایم کیو ایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں‌آیا۔ اپنے قیام کے دوسال تک اس پارٹی نے خاموشی سے کام کیا۔ الطاف حسین اور ساتھیوں نے جماعت کی تنظیم سازی ،آئین،اس کا علاقائی ڈھانچہ تیار کرنے میں‌یہ دو سال گزارے۔ تنظیم نے اپنے اخراجات چلانے کے لیے آزمودہ طریقہ کار یعنی چندے کا سہارہ لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں‌ایم کیو ایم شاید واحد جماعت ہے جو عوامی چندے پر چلی اور چلتی ہے۔ 1986 میں‌کراچی میں‌سیاسی سرگرمیوں‌کا آغاز ہوا تو ایم کیو ایم کے کارکنان نے بھی نشتر پارک کراچی میں جلسہ کرنے کی خواہش کی۔ یہاں‌سے ایم کیوایم نے اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا اور معاصرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ لاکھوں‌افراد کے اس اجتماع نے کراچی کے عوام میں‌جماعت کی مقبولیت ثابت کردی۔جلسے کے انتظامات کے سلسلے میں رقم چندے سے جمع کی گئی تھی۔ اس کے بعد حیدر آباد کے کارکنان نے بھی اسی قسم کاجلسہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہاں‌تک تو شاید سب ٹھیک تھا۔ مگر یہ وہ نقطہ ہے جہاں‌سے ایم کیو ایم کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1986 کو جماعت کے لوگوں‌ کے حیدر آباد جلسے میں‌جاتے ہوئے سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بقول الطاف حسین یہ ڈرگ مافیا کی ایجنسیوں‌کے اشارے پر کاروائی تھی تاکہ مہاجروں اور پختونوں‌کو لڑایا جاسکے۔ یاد رہے اس علاقے میں‌ پختونوں‌کی اکثریت آباد ہے۔(بعد میں اسی طرح کے اور کئی واقعات ہوئے جن میں‌پنجابیوں‌،سندھیوں‌ اور دوسری قوموں‌کو ایم کیوایم کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین ان سب کو ایم کیوایم کے خلاف سازش سے تعبیر کرتاہے۔ حقیقت تو خدا جانتا ہے تاہم ان واقعات اور پریس کی مہربانیوں‌سے ایم کیوایم کے خلاف پنجاب اور سرحد میں‌بالخصوص اور پورے ملک میں‌بالعموم نفرت پھیلی۔) کئی لوگ مارے گئے کئی زخمی ہوئے مگر حیدر آبادکا جلسہ ناکام نہ کرایا جاسکا۔ اس روز واپسی پر گھگھر پھاٹک کے قریب الطاف حسین کو گرفتار کر لیا گیا جب وہ مقتولین سہراب گوٹھ کے جنازے میں شرکت کرنے کراچی جارہا تھا۔ 14 اور 15 دسمبر1986 کا دن شایداہل کراچی کبھی نہ بھلا سکیں‌جب علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں‌بدترین قتل عام کیا گیا۔مخالف رائے دستیاب نہیں مگر الطاف حسین کے بقول مساجد کے سپیکروں‌سے دہشت گردوں کو گائیڈ کیا جاتا رہا۔ بچے بوڑھے اور جوان کی تخصیص کے بغیر قتل عام کیا گیا۔یہ سب ڈرگ مافیا کے ذریعے کیا گیا۔ حتٰی کہ ایک جگہ ایک خاتون کے جنازے پر بھی حملہ ہوا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ایم کیوایم نے بلدیاتی انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔جو کراچی اور حیدرآبادکے لوگوں کی الطاف حسین سے والہانہ محبت کا ثبوت تھا۔اس کے بعد ایم کیو ایم کے کونسلروں کو کام سے روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جو کہ ہماری سیاست کی ریت بھی ہے۔ جب روشنیوں‌کا شہر کراچی جلا: ایم کیو ایم کی مقبولیت روکنے کے لیے ہر دور حکومت میں‌کام ہوا۔ بے نظیر کے دور حکومت میں‌خصوصًا ایم کیوایم پر بے پناہ ظلم و ستم کیا گیا1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر کی حکومت بنی اس حکومت میں ایم کیوایم بھی معاہدہ کراچی کے تحت شامل تھی۔(ایم کیو ایم کے سیاسی معاہدے آگے ایک اور سرخی کے ذیل میں‌تفصیلًا بیان کیے جائیں گے)۔ بے نظیر نے ہمیشہ ایم کیو ایم کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور بہانے بہانے سے ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کیا۔ بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں جب حکومت کے مظالم حدسے بڑھ گئے تو الطاف حسین نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ مگر حکومتی یقین دہانیوں‌کے باعث ختم کردی۔ مگر پھر بھی مطالبات تسلیم نہ کیے گئے۔ بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس سے پہلے ہی الطاف حسین اس کے رویےسے مایوس ہوکر نواز شریف سے معاہدہ کرچکا تھا۔نواز شریف کے دور حکومت میں‌1990 سے1992 تک ایم کیوایم اقتدار میں شامل رہی۔ جون 1992 میں‌نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیوایم کے خلاف خوفناک آپریشن شروع ہوا۔فوج کے جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف پوری طاقت استعمال کی نواز شریف کے بقول اس بات سے اسے لاعلم رکھا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہے۔ اسی آپریشن اورماضی کی زیادتیوں‌سے مجبورہو کر ایم کیو ایم نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اگرچہ الطاف حسین تنظیم کے کسی عسکری ونگ کی موجودگی سے ہمیشہ انکاری رہا ہے تاہم یہ عسکری ونگ کی موجودگی بعیداز حقیقت نہیں‌۔ اس سے پہلے نواز شریف بطور وزیر اعظم الطاف حسین سے مل کر ایم کیو ایم کے جرائم جن میں‌غنڈہ ٹیکس اور ماردھاڑ ،عقوبت خانے وغیرہ شامل تھے کی نشاندہی کرچکا تھا۔ الطاف حسین کے علم میں‌کچھ جرائم تھے بھی تاہم اس کے چہرے کا رنگ ایک بار ضرور بدلا تھا۔اسی دور میں‌ایم کیو ایم سے کچھ لوگوں‌کو اس الزام کے تحت الگ کیا گیا کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں‌میں‌ملوث‌ہیں۔اسی دوران راء کے دہشت گرد ایم کیوایم میں گھس آئے اور انھوں‌نے تنظیم کے لیڈروں‌کی قربت حاصل کرلی۔ حتٰی کہ بعض لیڈر بھی ان کی موجودگی جدوجہد اور تنظیم کے لیے ضروری قراردینے لگے۔ فوج اگرچہ پہلے ایم کیو ایم کی حامی تھی ضیاءالحق کے دور میں ایم کیوایم کی پرورش اینٹی پیپلز پارٹی کے طور پر کی گئی تاہم بعد میں‌کچھ وجوہات کی بنا پر فوج اس کے خلاف ہوگئی ۔ انھی وجوہات میں‌ کراچی سیکٹر کے ایک میجر کلیم کا ایم کیوایم کے کارکنوں‌کے ہاتھوں‌اغواء بھی بتایا جاتاہے۔ان باتوں سے تنگ آکر جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔ فوج کے آپریشن اور ایم کیو ایم میں‌جرائم پیشہ لوگوں‌کی شمولیت کا اگر کسی کو کچھ نقصان ہوا تو وہ کراچی کے معصوم عوام تھے۔ان پر زندگی دوبھر کردی گئی۔ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے دوسری طرف دہشت گرد چکی کے دوپاٹوں میں‌عوام گندم کی طرح‌پس کر رہ گئی۔ فوج اور ایجنسیوںنے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی جاسوسی شروع کردی۔ اسی دوران جناح‌پورکی سازش منظر عام پر آئی جو بقول حکومت علیحدہ ملک بنانے کی سازش تھی اور الطاف حسین اسے ایجنسیوں کی چال قرار دیتا ہے۔اس دوران الطاف حسین علاج کی غرض‌سے لندن جاچکا تھا جس کےبعد وہ وہیں‌کا ہوکر رہ گیا۔ فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے برملا اس بات کہ اظہار کیا کہ اگر مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں‌ہو سکتی ہیں‌تو ایم کیو ایم میں‌کیوں‌نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ایم کیوایم حقیقی کے نام سے عامر اور آفاق جنھیں‌الطاف حسین نے پارٹی سے جرائم پیشہ سرگرمیوں کی بناء بر نکال دیا تھا(بقول ایم کیو ایم ذرائع) ایک پارٹی کھڑی کر لی۔ اس کے بعد آگ اور خون کا جو کھیل شروع ہوا اس سے سب ہی واقف ہیں۔ یوں‌حالات پیدا ہوگئے جیسے ایم کیو ایم (جسے حکومتی ادارے الطاف گروپ کہتے تھے) اور حقیقی کے مابین گینگ وار شروع ہوگئی ہو۔ نواز شریف کے دور میں‌تو کچھ بچت رہی۔تاہم بے نظیر نے اس کا خوب استعمال کیا۔ اسی دوران آصف نواز کا انتقال ہو گیا اور نئے فوجی سربراہ جنرل وحید نے فوج کو واپس بلانے کا عندیہ دیا۔ اسے ایم کیوایم سے کوئی دلچسپی نہیں‌ تھی مزید جنرل وحید کو احساس تھا کہ فوج کے وقار کو آپریشن نے نقصان پہنچایا ہے۔ نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور غلام اسحاق خان کے دور صدارت کا خاتمہ ایم کیو ایم کے لیے بدترین سانحے لے کر آیا۔ بے نظیر نے 1993حکومتیں‌اور اتحاد قائم کرنے کےبعد جو کام کیا وہ ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن تھا۔ اس بار اسے جنرل(ر)نصیر اللہ بابر کا بطور وزیر داخلہ تعاون حاصل تھا۔ پیپلز پارٹی کا صدر ہونے کی وجہ سے فاروق لغاری نے بھی غفلت برتی جس کا خمیازہ غریب عوام نے بھگتا۔ ایم کیوایم اور حقیقی کے مابین ہونے والی گینگ وار میں‌ نہ صرف ان کے کارکن مارے جاتے رہے بلکہ عوام بھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہر حربہ اختیار کیا جو کوئی مہذب ذہن سوچ بھی نہیں سکتا۔عامر اور آفاق اس دوران سرکاری سرپرستی حاصل کرنے میں‌کامیاب ہوچکے تھے۔ فوج اوررینجرز کے ٹرکوں‌پر بیٹھ کر یہ لوگ ایم کیو ایم کے دفاتر پر حملہ آور ہوتے اور ان پر قبضہ کر لیتے۔ کارکنوں‌کو مارتے اور سامان لوٹتے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا بیان ہے کہ اس دوران کروڑوں‌روپے کا سامان بھی ایم کیو ایم کے دفاتر سے لوٹا گیا۔ بے گناہ بچیوں‌کی عزتوں‌سے کھیلا گیا انھیں‌اغوا کیا گیا۔ ہر وہ ناجائز حربہ اختیار کیاگیا جو سوچا جاسکتاہے۔ اس دوران کراچی کے عوام تنگ آچکے تھے۔ آئے دن کے محاصرے،فائرنگ اور حملے۔ کراچی کے کچھ ضلعے خصوصًا وسطی،غربی کا پچاس فیصد اور شرقی کا قریبًا پینتیس فیصد علاقہ دہشت گردوں‌کی لپیٹ میں‌تھا۔ ملیر کے کچھ علاقے بھی اس میں‌شامل ہیں۔ یوں‌لگتا تھا جیسے ایم کیوایم والوں‌کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو ان دونوں دھڑوں‌‌کے کارکنوں‌کو نشانہ بنا رہا ہے۔ الطاف حسین نے ہمیشہ اسے ڈرگ مافیا اورایجنسیوں‌کی کارستانی قرار دیا۔ تاہم یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس میں‌بیرونی ہاتھ ضرور ملوث تھا جس نے بہتی گنگا میں‌ہاتھ دھونا اپنا فرض‌سمجھا۔ جنرل نصیر اللہ بابر نے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں‌ایم کیوایم کو علیحدگی پسند تنظیم قرار دیا۔ اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے امداد ملتی ہے۔ اس نے یہ دعوٰ ی بھی کیا تھا کہ ایجنسیوں‌نے اس بات کا سراغ لگایا ہے کہ بھارت ان کے پچاس پچاس لوگوں‌کے ٹولوں‌کے دریائے گومتی کے کنارے ٹریننگ دیتا ہے۔ بات کوئی بھی ہو اس کا نتیجہ عوام کے حق میں‌برا نکلا۔ بے پناہ قتل و غارت گری آئے دن فائرنگ کے واقعات جیسے معمول بن گئے تھے۔ ایدھی کے مطابق ان دنوں میں‌حیدر آباد اور کراچی سے چار سو مسخ‌شدہ لاشیں‌برآمد ہوئیں۔ بوریوں‌میں‌بند لاشیں‌ملنا معمول کی بات تھی۔ بقول وزیر داخلہ انھی دنوں‌کھجی گراونڈ‌کو آزاد کروایا گیا۔ گلبہار اور گولی مار کے علاقے میں‌تنگ مکانات اور گلیوں‌کے پیچھے یہ گراؤنڈ دھشت گردوں‌کا گڑھ بن چکی تھی۔ پولوں‌سے زنجیریں‌باندھ کر اور سڑکوں‌میں‌گڑھے ڈال کر کاروں‌اور گاڑیوں‌کی آمدو رفت کو روکا گیا تھا۔ ہر وقت اس جگہ 60سے70دہشت گرد موجود رہتے تھے۔پولیس اور رینجرز نے کاروائی کرکے اس علاقے کودہشت گردوں‌سے پاک کیا ۔ بعد میں‌بی بی سی کے نامہ نگار کو کچھ مقامیوں‌نے بتایا کہ وہ اکثر لوگوں‌کے چیخنے کی آوازیں‌یہاں‌سے سنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس جگہ لوگوں‌پر نشانہ بازی کی مشق کیجاتی تھی کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں‌یہ “قائد“ کے غدار لوگ ہوتے تھے۔ بعد میں‌عقوبت خانے اور اسلحہ وغیرہ میڈیا کو دکھایا گیا۔ ٹی وی پر گرفتار دہشت گردوں کو دکھایا جاتا اسی دوران عظیم طارق چئیرمیںن ایم کیوایم کے قتل کی منصوبہ بندی کا بھی انکشاف ہوا۔ اکتوبر 1993 سے لے کر نومبر 1994 تک فوج کی موجودگی میں‌مارے جانے والے لوگوں‌کی تعداد 701 اور زخمی ہونے والوں‌کی تعداد 1056 ہے۔ اس میں‌غالب تعداد عام شہریوں‌کی ہے تاہم آرمی اور دیگر اداروں اور دوسری جماعتوں‌ کے لوگ بھی شامل تھے۔ فوج کے جانے کے بعد 30 نومبر 1994 سے لے کر 30ستمبر 1995 تک ہلاک ہونے والوں‌کی تعداد پہلے سے دوگنی سے بھی زیادہ 1759 اور زخمی ہونے والے چارگنا4128 تھے۔ اس میں‌غالب تعداد(1103و2500) ایم کیوایم کے لوگوں‌کی ہے جو ہلاک اور زخمی ہوئے اس طرح بے نظیر حکومت کی بدنیتی اور ظلم سامنے آجاتا ہے۔ الطاف حسین کے سیاستدانوں سے معاہدے: الطاف حسین کو ہمیشہ سیاستدانوں‌نے دھوکا دیا۔ سیاست کے میدان میں‌اناڑی ہونے کی وجہ سے سب نے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنا الوسیدھا کیا اور چل دیے۔الطاف حسین ایک طاقتور آدمی تھا بے شک ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سیاستدان اس سے ملاقات کرنے کے لیے وقت مانگا کرتے تھے۔مگر وہ اپنی سیاسی طاقت کو صحیح‌طرح‌استعمال نہیں‌کر سکا۔ ایم کیوایم کا پہلا معاہدہ بے نظیر سے ہوا۔ 1988 کے انتخابات کے بعد مسلسل بارہ روز کے مذاکرات کے بعد یہ 59 شقوں پر مشتمل معاہدہ طے پایا۔ جس پر عمل کبھی بھی نہ ہوسکا۔ اس معاہدے میں‌بھی بقول ایک سیاستدان ایم کیو ایم کی ناتجربہ کاری کے باعث ان کا بنیادی مطالبہ یعنی مہاجر قومیت کو تسلیم کرنا بھی معاہدے سے متفقہ طور پر نکال دیا گیا۔ ان 59 مطالبات یا شقوں‌میں‌تمام کی تمام فروعی توعیت کی تھیں‌جو 6یا7 بنیادی نوعیت کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد پوری ہوجاتیں‌۔ تاہم بے نظیر نے اس کا بھی فائدہ اٹھایا اور ہر بار جب ایم کیو ایم نے احتجاج کی دھمکی دی بے نظیر نے اس معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان کرکے اپنا مطلب نکال لیا۔ بے نظیر سے مایوسی کے بعد اسلام جمہوری اتحاد سے الطاف حسین کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کو کچھ عرصہ خفیہ رکھنے کے بعد منظر عام پر لایا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم کیوایم نواز شریف کے ساتھ حکومت میں‌شامل بھی ہوئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ الطاف حسین کا معاہدہ بے نظیر کے دور حکومت میں‌ہی ہوگیا تھا۔ کیونکہ الطاف حسین بے نظیر سے مایوس ہوچکا تھا۔ نواز شریف نے ایم کیوایم کے بل بوتے پر کراچی اور حیدر آباد میں‌بڑے بڑے جلسے کیے۔ انتخابی ایڈجسٹمنٹ میں‌ کچھ گڑبڑ اس وقت ہوئی جب جماعت اسلامی نے کراچی میں‌اپنی نشستین‌ہارے بغیر چھوڑنے سے انکار کردیا۔ نواز شریف نے ایم کیو ایم سے ہر ممکن تعاون کیا حتٰی کہ جب اس کے سامنے ایم کیوایم کے جرائم کے ثبوت اور عقوبت خانوں‌کے بارے میں‌رپورٹین رکھی گئیں‌تو بطور وزیر اعظم الطاف حسین نے ملاقات کرکے اس بارے میں‌مطلع کیا۔ الطاف حسین نے تعاون کا یقین دلایا اور اس نے ایسا کیابھی تنظیم سے کئی ایسے عناصر کو نکالا بھی گیا۔ مگر شاید دیر ہوچکی تھی۔ فوج اور اسٹیبلیشمنٹ ایم کیوایم کے خلاف ہوچکی تھی۔ بعد میں‌نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد حالات مزید ابتر ہوگئے کراچی میں‌خون کی ہولی کھیلی گئی جس کے شریک تمام لوگ کچھ نہ کچھ قصور وار تھے ایم کیو ایم کے1993 کے انتخابات میں‌چند نشستوں پر امید وار کھڑے کرنے کی اجازت ملی تھی(فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے) جس کے بعد انھوں‌نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں‌ شرکت سے اس لیے نہ روکا گیا کیونکہ مقتدر قوتوں‌کو احساس ہوچکا تھا۔جیتنے والے امید وار لاکھوں‌کے حلقے سے چند ہزار ووٹ لے کر جیتے تھے جو لوگوں‌کی ایم کیو ایم سے محبت کا ثبوت تھا چناچہ ایم کیو ایم نے 24 گھنٹے کے نوٹس پر تیاری کر کے سندھ اسمبلی کے لیے شہری علاقوں سے میدان مار لیا۔ ایم کیو ایم بطور پارٹی: ایم کیو ایم کی تنظیم سازی میں‌مرکز کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اصل میں‌یہ تمام پارٹی الطاف حسین کے گرد گھومتی ہے۔پارٹی کے کارکنوں‌کے ذہنوں‌میں‌قائد کی محبت اور اطاعت راسخ ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان میں‌اگر کوئی تنظیم اس قدر منظم ہے تو وہ ایم کیوایم ہی ہے۔ ایم کیوایم کے حلف نامے میں‌واضح طور پر اللہ اور ماں‌کی قسم کھا کر پارٹی اور الطاف حسین سے وفاداری کا عہد کیا گیاہے۔ جس سے واضع ہوجاتاہے کہ الطاف حسین ایم کیوایم کے لیے کیا ہے۔کسی بھی قسم کی اطلاع جو پارٹی کے مفاد میں‌ ہو یا اس کے خلاف کوئی سازش فوری طور پر اس کی اطلاع مرکز یا قائد کو پہنچانے کی ہدایت ہے۔ الطاف حسین کے اس قدر اثر کی ہی وجہ سے شاید ایم کیوایم کے کارکن قائد کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں‌ کرتے۔ ایم کیو ایم کی ایک اور خاص بات اور جس پر انھیں سب سے زیادہ فخر بھی ہے ان کی مڈل کلاس قیادت ہے۔ یہ بات بالکل قابل تعریف ہے کہ ایم کیوایم کی قیادت مڈل کلاس سے اٹھی اور مقبولیت حاصل کی۔ اب کا حال تو خدا جانتا ہے کیونکہ تازہ ترین دستیاب مواد بھی دس سال پرانا ہے اب شاید کچھ اور صورت حال ہو۔ ایم کیو ایم کا منشور: بنیادی طور پر ایم کیوایم مہاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں‌آئی۔الطاف حسین اور اس جیسے کئی دوسرے بانیانِ پارٹی جو معاشرے کے ڈسے ہوئے تھے نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ٹھانی ۔ اسی لیے اس کا منشور بھی مہاجر قومیت کو درپیش مسائل اور اکثر سندھ کی طرف سے مطالبات پر مشتمل ہے۔ مقامی غیر مقامی کی ایک مخصوص تعریف،کراچی کی ترقی کے لیے مطالبات،سندھ اور مرکز میں‌مہاجروں کی نمائندگی کے لیے حلقہ بندیاں‌اور دوسرے اقدامات،اندورن سندھ کے تعلیمی اداروں‌میں‌مہاجر طلبہ کا داخلہ،سرکاری ملازمتوں میں‌مہاجروں اور شہری سندھ کا کوٹہ،فوج میں سندھ کے لوگوں کی بھرتی کے لیے الگ معیارات،تعلیم کا بجٹ میں زیادہ حصہ اور اہم عہدوں‌پر مہاجروں‌کے تقرر بارے مطالبات اس کے منشور کا حصہ ہیں‌۔ ایم کیو ایم اب مہاجر قومی موومنٹ‌کی بجائے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نام کی تبدیلی اور ملکی سطح‌پر سیاست میں‌آنے کا فیصلہ 14 اگست 1992 میں‌ہونا تھا مگر جنرل آصف نواز کے آپریشن کی وجہ سے (شاید) موخرکردیاگیا۔(اس سلسلے میں زیادہ تفصیل ان کتابوں‌میں‌موجود نہیں‌کیونکہ یہ 1995 تک کے حالات کا حاطہ کرتی ہیں)ایم کیو ایم کے کچھ مطالبات جو میرے علم کے مطابق پورے کیے جاچکے ہیں۔ فوج میں‌سندھ کے لوگوں‌کے لیے قدکا معیار کم کر دیا گیا ہے چونکہ سندھی عام طور پر پست قامت ہوتے ہیں۔ سندھ میں‌اس وقت ڈاکٹر عشرت العباد گورنر ہے جو مہاجر اور ایم کیوایم والوں میں‌سے ہے۔‌ تعلیم کے اخراجات ہر سال بجٹ میں‌بتدریج بڑھائے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم اچھی یا بری: ایم کیو ایم پاکستان کی تاریخ‌کی انتہائی متنازعہ جماعت ہے ۔اس کے حامی حد سے زیادہ حامی اور مخالف بھی حد سے گزر جانے والے ہیں‌۔ الطاف حسین کے بقول ایم کیوایم کے بارے میں‌رائے عامہ بگاڑنے میں‌ایجنسیوں‌اور فوج کا ہاتھ رہا ہے۔ شاید یہ بات ٹھیک بھی ہو۔ تاہم ایم کیوایم سے خود بھی غلطیاں‌ہوئی ہیں۔دوسرے ایم کیو ایم نے کا پیغام عام آدمی تک صحیح‌طرح‌سے پہنچ نہیں‌سکا یعنی ایم کیوایم کا پروپیگنڈا یونٹ خاصا کمزور ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کی بات اور ہے تاہم اگر ایم کیوایم نے ملکی سطح پر مقام پیدا کرنا ہے تو پورے ملک کو اس بارے آگاہی ہونی چاہیے۔ اردو ویب آرگ پر دوران بحث ایم کیو ایم کے کارکن کی طرف سے بدزبانی نے مجھے مہمیز کیا کے اس بارے جانوں‌گو میرا جذبہ بھی منفی تھا کہ اس کی برائیوں‌بارے جانوں‌تاہم عام آدمی جب اس حد سے زیادہ تنگ نظری کو دیکھے گا تو وہ اس بارے کچھ اچھی رائے قائم نہیں‌کرے گا اور صاف سی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے نام سے ہی دور بھاگے گا۔ ایم کیو ایم اب متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ اسے اپنے منشور میں‌وہ مسائل بھی شامل کرنے چاہیں‌ جو پاکستان کے دوسرے علاقوں‌کےعوام کو درپیش ہیں۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کا یہ نعرہ کہ وہ وڈیروں جاگیر داروں کے مخالف ہیں غریب کے لیے کشش کا باعث ہے مگر بات عمل کی ہے۔ ایم کیو ایم غریب قیادت کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر مشرف حکومت میں وزارتیں‌لے کر سکون سے بیٹھی ہے اور غریب ختم ہورہے ہیں‌۔ صرف کالا باغ اور بلوچستان کے مسائل پر ہمیں‌پتا چلا کہ ایم کیوایم بھی ہے ورنہ ان لوگوں‌نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ شاید اب ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ بات کہاں‌سے چلی اور کہاں‌پہنچی۔ خلاصہ یہ کہ ایم کیوایم کی تاریخ‌آپکے سامنے ہے۔ میں نے حتٰی لامکان حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے ماضی اور حال کو دیکھ کر آپ بہتر فیصلہ کر سکیں‌گے کہ کیا صحیح‌اور کیا غلط ہے۔ اللہ ہمیں‌صرف اور صرف پاکستان کو سامنے رکھ کر سوچنے اورعمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔‌‌

2 comments:

1/29/2006 01:49:00 PM خاور کھوکھر said...

بهت اچها تبصره هے ـ
اس سے اچها غير جانب دار تبصره شائد ممكن نه هو ـ

1/31/2006 12:40:00 PM Shakir said...

پسندیدگی کا شکریہ

Post a Comment