اک دن میں نے اس سے پوچھا
کیوں اجڑے اجڑے رہتے ہو
کیوں بکھرے بکھرے رہتے ہو
دل کا یہ غم
کسی سے کیوں نہیں کہتے ہو
تب وہ دھیرے سے بولا
کیا کیا سنو گے
کیا کیا سناؤں
چلتے چلتے یونہی اک دن
اک شخص ملا تھا
روٹھا روٹھا رویا رویا
اس دنیا سے
زندگی سے اسے گِلا تھا
اسے صرف غم ملا تھا
کانچ سا وہ شخص
اسے ٹکڑاٹکڑا میں نے جوڑا
زندگی سے اس کا ناتہ جوڑا
اسے پھر سے جینا سکھایا
پھر جانے کیسے یہ سب ہوا
پھولوں سا وہ شخص
آنکھوں میں اتر گیا
دل میں گھر کر گیا
پھر چپکے چپکے دھیرے دھیرے
سیپ کی طرح غم کے موتی اگل کر
وہ بندہوتا گیا
مجھ سے دور ہوتا گیا
دکھ میں بگھوتا گیا
میری محبت، میرا پیار سب بھول گیا
جیسے اجنبی ہوگیا
اور
پھراک دن چپکے سے میرے آشیاںسےاڑگیا
اتنا کہہ کر وہ مجھ سے بولا
شاکر یہ غم بھی عجب ہوتا ہے ناں
نفس کو نفس کا محتاج کردیتا ہے
اک دوجے کا گدا کر دیتاہے
اس کا ستم بھی عجب ہوتا ہے
جاتے جاتے بھی باز نہیں آتا
بے وفا کر دیتا ہے
سنومری اک بات مانو
کبھیکسیکےغمخواربنوتو
اتنے قریب نہ جانا
کہ اسکے غم سے دامن جلا بیٹھو
کوئی روگ لگا بیٹھو
اس کے غم کا سمندر پاٹتےپاٹتے
اپنی متاع لُٹا بیٹھو
1 comments:
خوب
Post a Comment