21 فروری کا دن ہمیشہ کی طرحآئے گا اور گزر جائے گا۔ شاید کوئی نام نہاد عالمی دن بھی منایا جاتا ہو اس تاریخکو مگر میںآج آپ کو اس دن سے ایک اور ہستی کے حوالے سے روشناس کرانے کی کوشش کروں گا۔
آئیے ذرا تاریخ میںچلتے ہیں۔ یہ آج سے کوئی چار سو سال پہلے کی بات ہے۔ گورے اپنی ریاستوںسے نکل کر پوری دنیا میںبحری راستوںسے پھیل رہے تھے۔ یورپ کے کئی ملکوںکے لوگ افریقہ بھی پہنچ چکے تھے جہاںانھوںنے اپنی نو آبادیاںقائم کرلی تھی۔وہ کالوںپر جانوروںکی طرح ظلم کرتے اور انھیںجانوروںکی طرحہی رکھتے۔پھر کولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا۔ گورے جوق در جوق اس نئے دیس میں ہجرت کرنے لگے۔متمول گورے اپنے ساتھ اپنے غلام بھی وہاں لے گئے۔ یہ کالے جنھیںافریقہ میںبھی بے دردی سے انکے حقوق سے محروم رکھا گیا اب انھیںنئی سرزمین پر ان کی مرضی کے خلاف لے جایا جارہا تھا۔انھیںبھیڑ بکریوںکی طرحجہازوںمیںٹھونس دیا جاتا۔ نامناسب خوراک،رہائش ناقص جس کے نتیجہ میں راستے میں کئی مرنے لگے۔ گورے وحشی ایسے لوگوں کو بڑے آرام سےسمندر میں ڈال دیتےجنھیںوہ شارک مچھلیاں بسماللہ کر کے کھالیتیںجو ان جہازوں کا تعاقب کرکے سیکھ چکی تھیں کہ کھانایہیںسے ملتاہے۔ان سمندروںکا پیٹبھرنےکے بعد یہ مظلوم جو آدھے سے بھی کم رہ جاتے کو نئی اور اجنبی سر زمین پر لاکھڑا کیا جاتااور ان کی زندگی پہلے سے بھی بدتر کر دی جاتی۔ ان سے بدترین مشقت لیجاتی اور نتیجے میں صرف جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے چند لقمے خوراک کے۔یہ مظلوم لوگ جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتےصحابی بلال رض کی نسل سے تھے،موٹے ہونٹوںاور بھدے پیروںاور کالے رنگ کے یہ لوگ جن کے دل گورے تھے جن میںمیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور ان کے نام لیوا بھی موجود تھے جنھیںان کتوںنے اسلیے قید کر لیا تھا کہ وہ صورت شکل میں کالے ہیں۔یہ لوگ جن میں بلا تخصیصمسلم و غیر مسلم صرف کالے موجود تھے ان کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ اپنا آپ تک بھولتے گئے۔ انھیںیہ یاد تک نہ رہا کہ ان کی مادری زبانیںکیا تھیں۔وہ کس قبیلے یا قوم سے متعلق تھے بس انھیںیہ یاد تھاکہ گورا صاحب انھیںافریقہ سے لایا تھا ان سے غلامی کروانے کے لیے۔
اب آئیے بیسویںصدی کے شروع اور انیسویںصدی کے اواخر میں جب امریکہ میں آخر ان مظلوموںکی خدا نے سن لی اور غلامی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ مگر پھر بھی کوئی ان کی قومی شناخت نہ لوٹا سکا انھیں نفرت اور حقارت سے گورے نے Nigerاور Negroکہنا شروع کر دیا۔اس معاشی اور معاشرتی استحصال کے بعد ان کے اندر ایک طرف کالوںکے اندر اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت اس حد تک گر گئی کہ صرف سوچا جا سکتا ہے۔ معاشرے کی تمام برائیاںان کے اندر موجود تھیں،غنڈے،موالی،نشے باز یہ لوگ جنھیںاپنے دین دنیا کی کوئی خبر نہ تھی،اگر کسی چیز کی خبر تھی تو وہ یہ کہ اگر ان کے بالوںکے کنڈل ختم ہوجائیںاور رنگ کسی طرحتھوڑا سفید ہوجائے تو ان کا سٹیٹس معاشرے میںبلند ہو جائے گا۔
اس کاباپ پہلے طبقےسے متعلق تھا۔مارکس گاروی کا پیروکار یہ شخص کالوںمیںاس بات کہ تبلیغ کرتا کہ انھیںایک دن اپنے دیس افریقہ میںواپس جانا ہے۔اسی سلسلہ میں ایک رات اس کے گھر پر حملہ ہوا اور وہ مارا گیا۔اس کے بعد وہ اور اس کے دیگر سات بہن بھائی کچھ عرصہ اپنی ماںکے ساتھ پلے۔ اسکی ماں ویسٹ انڈین دوغلی تھی اور وہ کہتا ہے کہ میری ماں کو ساری عمر اس خون سے نفرت رہی جو کسی گورے نے اس کی ماںکے ذریعے رگوںمیںانڈیل دیا تھا۔ اس کا نمبر پانچواںتھا۔باپ کے مرنے کے بعد ان کی ماں نے ان کی پرورش کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اخراجات حد سے باہر نکلنے لگے۔انھوںنے قرض لے کر گزاراہ کیا۔لیکن آہستہ آہستہ معاملات حد سے باہر نکلنے لگے اور ریاست کی فلاح سے متعلق ادارے کے لوگ ان کے گھر آنےجانے لگے انھوں نے نفسیاتی تشدد کر کر کے ان کی ماںکو بالآخر پاگل کر دیا۔ اب بچوںکے مختلف مخیر لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اسے بھی جو اپنے سرخ بالوںجو اسے ماںکی طرف سےملے تھے کی وجہ سے ریڈ پکارا جاتا تھا کو ایک مخیًر گھرانے میں دے دیا گیا۔اس کا نام میلکم لٹل تھا مگر اکثر اسے ریڈ کہہ کر بلایا جاتا۔ وہاںاس نے آٹھ درجوںتک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سب چھوڑ چھاڑ دیا۔
عام کالوںکی طرحوہ بھی اس کریز میںمبتلا ہوگیا کہ گوروںکی طرحاس کی بھی معاشرے میںعزت ہو۔ اس نے بوٹ پالش کرنے کی نوکری کی کلب میں۔اپنے بالوںکو کانک(کنڈل ختم کروانا)کروایا، کالے اس کے ہلکے سیاہ رنگ کو دیکھ کر رشک کرتے سرخ سے بال اس کی شان ہی اور بڑھا دیتے۔ اس زمانے میں میلکم نے اپنے آپ کو سنوارنے کے لیے قرضہ تک اٹھایا۔ وہ کلب کی تقریبات میں شریک ہونے کے لیے ادھار پر سوٹ خریدتا۔
اس کی عمر یہی کوئی پندرہ سال کے قریب ہوگی جب کسی لڑکی سے اس کے تعلقات بنے۔دوستوںکے مشورے اور حالات کا رخ دیکھ کر وہ نیویارک چلا آیا۔ اس دوران وہ دوسرے ایک دو شہروںمیںبھی کام کرچکاتھا۔ کام یہ ہی کہ کلبوںمیںگوروںکے جوتے پالش کردینے یا بیرا گیری۔نیویارک آکر اس نے ہارلم کے علاقے کو رہائش اور کام کے لیے چنا جو ان دنوںکالوںکا مرکز بن رہا تھا اور جہاںسے یہودی علاقہ چھوڑ چھاڑکے نکل رہ تھے۔ یہاںکے کئی کلبوںمیںاس نے کام کیا،آہستہ آہستہ وہ نشے کی طرف آیا اور ماری جوآنا اور اس قسم سے بھرے سگریٹ جنھیں ریفرز کہتے بیچنے لگا۔اس نے طوائفوں کے دلال تک کا کام کیا۔گورے جو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کالی طوائفیںمانگتے اور گوری عورتیںجو کالنے مردوںکی طلب گار ہوتیں۔آہستہ آہستہ وہ ہسٹلنگHustlingکی طرف متوجہ ہوا اور بیس سے بھی کم عمر میںیہ کام کرنے لگا۔بٹوہ چھین لینا،نقلی چیزیں اصلی کہہ کے بیچ دینا،نشہ بیچنا،چوری کرنا،نقب زنی کرنا غرضاس نے ہر غلط کام کیا۔ آخری زمانے میں اس نے اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا جس میںاس کا ایک دوست،ایک گوری لڑکی جو اس کی داشتہ بھی تھی اور اس کی بہن شامل تھے۔ لڑکیاں مکان میںجاسوسی کے لیےجاتیںاور یہ رات کو نقب زنی کرتے۔اس دور میںاس نے بے تحاشا نشہ استعمال کیا خود بتاتا ہے کہ وہ کام کے وقت غیر معمولی طور پر چست رہنے کے لیے بے تحاشا نشہ استعمال کرتا تھا۔ اسی دوران ایک دفعہ اس کی واقفیت گوری لڑکیوںکے ساتھ کھل گئی اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اس کے اپارٹمنٹکی تلاشی کے بعد نقب زنی کے شواہد بھی ملے جس ک بعد اسے دس سال کی سزا ہوگئی۔اس کی سزا صرف دوسال بنتی تھی مگر وہ خود بتاتاہے کہ اس کا اصل جرم گوری لڑکیوںسے دوستی تھا جس کی اسےیہ سزا ملی۔
ان دس سالوں اس کی زندگی کو بدل دینے میں اہم کرداد ادا کیا۔ اپنے بہن بھائیوںاور دوستوںکے کہنے پر اس نے جیل میں اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش شروع کردی۔ اسے ایک اصلاحی جیل میںمنتقل کروا دیا گیا جہاںکتب خانے کی سہولت بھی موجود تھی۔وہاں اس نے انگریزی سیکھی،وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا ذخیرہ الفاظ چند الفاظ تھے جوغنڈہ گردی میںمستعمل عام اصطلاحات تھیں۔اس نے لغت کو یاد کیا اپنی انگریزی بہتر کی اس کے بعد کتب خانہ جو کوئی اس جیل کو وصیت میںعطیہ کر گیا تھا سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر گوروں کے مظالم واضح ہونے لگے۔اس دوران اس نے اپنے اندر مباحثے کی صلاحیت پیدا کی۔ جیل میں بحث مباحثے ہوتے اور میلکم ان میں حصہ لیتا اس چیز نہ آئندہ زندگی میںاس کی بڑی مدد کی۔پھر اس کا بھائی اس سے ایک دن ملا اور اسے ایلیا محمد(Elijah Muhammad) کے بارے میںبتایا جس کی تعلیمات کا وہ پیرو ہوگیا تھا۔اس نے میلکم کو بھی قوم اسلام(The Nation of Islam) میںشمولیت کی دعوت دی۔ میلکم بتاتا ہے کہ میںحیران رہ گیا کہ میرا بھائی صاف ستھرےلباس میںملبوس تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ میںجھوٹنہیںبولتا اور شراب نہیں پیتاسور بھی نہیںکھاتا کیونکہ مسلمان یہ سب نہیںکرتے۔اس کے بعد میلکم نے جیل سے ایلیا محمد سے خط و کتابت شروع کردی۔ اس خط و کتابت کے ذریعے اسے اسلام کی تعلیمات کا پتہ چلا اورجب1952 کے موسم بہارمیں وہ جیل سے باہر آیا تو سب سے پہلا کام جواس نے کیا وہ ایلیا محمد کی تعلیمات قبول کرنے کا اعلان تھا۔
ایلیا محمد ایک شخصڈبلیو ڈی فارڈکو خدا کہتا تھا جس نےاسے اپنا نبی مقرر کیا تھا۔ اس نے ایک تنظیم قوم اسلام کے نام سے قائم کی اور اپنے عقائد کالوں میں پھیلانے شروع کردیے مگر جب میلکم اس میںشامل ہوا تو یہ سب اتنا نہیں پھیلا تھا۔ وہ گوروں کا دشمن تھا انھیں سفید شیطان کہہ کر پکارتا اس سلسلے میں اس نے ایک دیو مالائی قصہ بھی گھڑ رکھا تھا جس کے مطابق اصل انسان کالے تھے مگر ان میں ملاوٹ کرکے گوری نسل پیدا کی گئی۔ایلیا محمد کی تعلیمات چند گمراہ کن عقائد کے علاوہ تمام کی تمام اسلامی تھیں مگر اس نے تحریف ضرور کر دی تھی۔ایلیا محمد نے کئی اسلامی ممالک کو دورے بھی کیے جن میںایوب دورمیںپاکستان بھی آیا۔ وہ 1975 میںمرا۔
تو بات میلکم لٹل کی ہورہی تھی۔ میلکم نے تنظیم میںشمولیت کے بعد اس میںایک نئی روحپھونک دی۔ یہاںآکر اسے پتا چلا کہ زندگی کیا ہے۔ ایک صاف ستھری اور بامقصد زندگی، تنظیم کے نظم و ضبط کو بیان کرتے وہ کہتا ہے کہ مسلمان جی جان سے ایلیامحمد کی تعلیمات کی پیروی کرتے تھے،ثمر اسلام(The Fruit Of Islam) کے نام سے تنظیم کا ایک شعبہ قائم تھا جو نظم و ضبط کا ذمہ دار تھا۔ میلکم جو کبھی گورے رنگ کا دیوانہ تھا اب گوروں سے نفرت کرنے لگا۔ بنیادی طور پر وہ ایک غیر معمولی انسان تھا،ایک پیچھے نہ ہٹنے والا شخص،ایلیا محمد نے اس کی تربیت کی اور میلکم اس کی تعلیمات کو پھیلانے لگا۔ وہ عام کالے کی نفسیات سے واقف تھا اس لیے انھیں باآسانی قائل کر لیتا کہ فلاحصرف ایلیا محمد کی تعلیمات میںہی ہے۔ اس کی عمر اس زمانے میں تیس برس کے قریب تھی۔میلکم جسے اب تنظیم کی طرف سے ایکس کاخطاب مل گیا تھااتنی محنت کی کہ چند معبدوں سے اس نے تنظیم کےمعابد کی تعداد ساتھ ستر کردی۔ ایلیا محمد نے اسے اپنا وزیر بنا دیا۔ میلکم ایکس اس زمانے کے بار ےمیںبتاتا ہے کہ اسے آرام کرنے کا بھی ہوش نہ تھا وہ یہ کام بھی جہاز یا ٹرین میں کرتا۔
1956 میںاسے تنظیم کی طرف سے ایک شیور لیٹ ملی اس کی لگن کا اندزہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے پانچ ماہ کے عرصے میں اس پر تیس ہزار میل کا سفر کیا۔ایلیا محمد کی قوم اسلام کو اس نے پورے امریکہ میںپھیلانے کا عزم کیااور اس کے لیے کام بھی کیا۔ اسی دوران نیویارک میں ایک جھگڑے کی وجہ سے یہ تنظیم پریس کی نگاہ میںآگئی جس کے بعد قوم اسلام کو پریس میں بھی جگہ ملنے لگی۔اس کے بعد میلکم ایکس ناراضمیلکم ایکس کے نام سے مشہور ہوگیا کیونکہ وہ ہر مباحثے اور تقریر میں گوروں کو برملابرا بھلا کہتا اور کالوںکی موجودہ حالت کا ذمہ دار انھیںٹھہراتا۔
اسی طرحقریبًا بارہ سال کام کرنے کے بعد ایک دن اس کی ساری خدمات کو نظر انداز کرکے اسے بودا سابہانہ کرکے تنظیم سے علیحدہ کر دیاگیا۔ایلیا محمد اس کی مقبولیت سے خائف تھا اس کے حاسدوںنےا س نے فائدہ اٹھایا اور تنظیم سے الگ کردیا گیا۔(ایلیا محمد پر ایک اپنی سیکرٹریوں سے ناجائز تعلقات کا الزام اس دوران لگ چکا تھا جسے امریکی پریس نے بہت اچھالا) اس دوران میلکم ایکس شادی بھی کرچکا تھا بیٹی ایکس ایک نرس تھی جس کےبطن سے اس کی چار بیٹیاںپیدا ہوئیں۔
پھر اسی دوران وہ تاریخی لمحہ آیا جب ایک کالے نے گورے کو باکسنگ کے میدان میں شکست دی اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ کیسئیس کلے سے محمد علی کلے بننے والا یہ شخص جب مقابلہ کررہا تھا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے میلکم ایکس وہاںموجود تھا۔اگرچہ میلکم ایکس قوم اسلام سے الگ ہوگیا تھا مگر محمد علی کلے اس تنظیم سے منسلک رہا بعد میںمیلکم ایکس نے خود ہی اس سے ملنا کم کردیا تھا(بہت کم لوگ شاید یہ جانتے ہوںکہ محمد علی کلے نے جب اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اس سے مراد ایلیا محمد کی قوم اسلام کا تحریف شدہ اسلام تھا)۔
میلکم ایکس کو اس دوران پتا چلا کہ اس کے قتل کی سازشیںہورہی ہیں۔ اس کے بہی خواہوں نے اسے خبردار کیا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ پھر اس کی ملاقات ڈاکٹر یوسف شورال سے ہوئی۔ جنھوں نے اسے صحیحاسلام سے روشناس کرایا۔اس کے بعد میلکم ایکس نے حج کا ارادہ کیا اور براستہ قاہرہ جدہ کو روانہ ہوا۔وہاںاس کی ملاقات ڈاکٹر محمد شورابی سے ہوئی جنھوںنے اس کے تصور اسلام کی مزید تطہیر کی۔آخر اس نے جدہ کا قصد کی مگر اسے نومسلم اور امریکی ہونے کی وجہ سے روک لیا گیا۔ مسافر خانے میں اسے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا گیا وہ بتاتا ہےکہ جھکنا اور گھٹنےموڑ کر بیٹھنا اس کے لیے عذاب سے کم نہیں تھا اس دوران اس کا ٹخنہ بھی سوج گیا۔آخر ڈاکٹر عمر اعظم کو فون کرکے اس نے اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔جس کے بعد اسے سرکاری مہمان کا درجہ مل گیا۔ اس نے مطواف کی نگرانی میں حج ادا کیا۔ اس دوران اس کے گوارا مخالف جزبات پر مثبت اثر پڑا اور اسلام کی عالمی اخوت کا تصور مضبوط ہوا۔دوران حج اس نے امریکہ خطوط لکھے جنھیںپریس نے بھی کوریج دی۔اس کے خطوط سے اس کے رجحانات کی تبدیلی کا واضحپتا چلتاہے۔اس دوران قوم اسلام نے اس پر کئی مقدمات قائم کردیے تھے جو ان کی بدنیتی کی ثبوت تھے۔
حج کے دوران اس کی ملاقات شہزادہ فیصل سے بھی ہوئی ۔اس کے بعد اس نے کئی افریقی اور مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ جہاںکالوں کو درپیش مسائل کے بارے میںتبادلہ خیال کیا گیا۔ آخر میکلم ایکس واپس امریکہ پہنچ گیا۔وہاں جانے کے بعد اس نے اسلام کے صحیح تصور کو پھیلانا شروع کردیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند یہ آئی اور یہ گوہر نایاب نہ جانے کتنے دلوں کو روتا چھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پرواہ نہیںکروںگا۔ 21 فروری 1965 کا دن تھا نیویارک میں دی آڈیو بون بال روم اس کی تنظیم نے کرائے پر حاصل کررکھا تھا جہاں اس کا لیکچر تھا۔ جب وہ خطاب کرنے آیا تو ایک طرف سے آواز آئی “میری جیب سے ہاتھ نکالو“ لوگوں کی توجہ اس طرف ہونے کی دیر تھی کہ اگلی قطار سے تین آدمیوں نے جو ریوالور اور شاٹ گن سے لیس تھے اس پر بے دریغ فائرنگ کردی۔ میلکم ایکس موقع پر ہی شہید ہوگیا۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میںجگہ دے عجب آزاد مرد تھا۔ساری عمر بے چین رہا جب برا تھا تب بھی اورجب اچھا تھا تب بھی۔ مرتے وقت اس کی عمر صرف چالیس سال سے کچھ عرصہ کم تھی۔اس کا جنازہ شیخ الحاج ہشام جابر نے پڑھایا اس کی قبر پرستاروں نےگورے گورکنوںکے کھودنے نہیں دی اور اپنے ہاتھوں نے ساراکام کیا۔اس کی قبرپرجو قطبہ لگایا گیا اس پر لکھا تھا
“الحاج ملک الشہباز 29 مئی 1925تا 21 فروری 1965“
ایلیا محمد کے بعد نیشن آف اسلام کی تخت نشینی اس کے بیٹے والس محمد نے سنبھالی۔ یہ شخص اسلام کے بارے میں سنجیدہ نکتہ نظر رکھتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنی تنظیم کا نام ورلڈ کمیونٹی آف اسلام ان دا ویسٹ رکھا پھر بدل کر دی امریکن مسلم کردیا جس میں امریکی گورے مسلمانوں کو بھی داخلے کی اجازت تھی۔ والس محمد نے اسلام قبول کرلیا تھا جس کیوجہ سے ایلیا محمد کے کچھ پیروکار اس سےالگ ہوگئے لوئیس فرخان اس تنظیم کا سربراہ بنا۔اس شخص پر نسل پرستانہ ذہنیت کا الزام لگا اور میلکم ایکس کے قتل کے سلسلے میںمقدمہ بھی چلا۔اس نے کئی سال ایلیا محمد کے نظریات پھیلائے۔16 اکتوبر 1995 کو اس نے واشنگٹن میںملین مارچ کا انعقاد کیا جسے دنیا میںکافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ورلڈ فرینڈ شپ ٹور میں اس نے 20 کے قریب اسلامی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میںایران ،لیبیا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ کرنل معمر قذافی نے اسے 5۔2 لاکھ پونڈ کا انعام بھی دیا۔ بنگلہ دیش میں اس کا استقبال مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری مولانا شفیق لاسلام نے کیا جس سے مسلمانوںکی اس تنظیم کے عقائد سے بے خبری واضح ہوتی ہے۔ پاکستان میںالبتہ راجہ ظفرالحق نے اس کے دورے کی اطلاع پاکر اس بارے میںپتا لگنے پر اسے بروقت منسوخکردیا۔فروری 2002 میں لوئیس فرخان اور والس محمد میںاتحا د ہوگیا اور لوئیس فرخان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان کا اعلان کرتے ہوئے اہلسنت کا مسلک اختیار کیا۔
امریکہ میںاسلام کے پھلینے کی جدوجہد کا ایک محتصر سا احوال تھا آج ہمیںمیلکم ایکس الحاج ملک الشہباز کا جذبہ درکار ہے اگر ہم نے اسلام کی اشاعت کرنا ہے ورنہ
“مل گئے کعبے کو پاسباں صنم خانے سے“ کے مصداق اللہ تو اپنے دین کی اشاعت کے لیے ذرائع پیدا کر ہی دیاکرتاہے۔اللہ آپس کے اختلافات ختم کرکے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
(آج مورخہ 21 فروری 2006 خاکسار کی سالگرہ بھی ہے آج عمر عزیز کے21 سال گزر گئے۔ یہ ایک اور وجہ تھی کہ میںنے یہ تحریر آج کے دن لکھی۔)
Monday, February 20, 2006
5
Thursday, February 09, 2006
2
جذبات
آج کام کم تھا تو اس نے وقت گزاري کےليے اخبار اٹھا لي ورنہ يہ اخبار ورکشاپ پر آنے والے گاہکوں کا دل بہلانے کا سامان ہي بنتي تھي اس کي نظر جب پہلے صفحے پر لگي سرخي ڈنمارک کے اخبار ميں رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے توہين آميز خاکوں کي اشاعت سعودي حکومت نے احتجاجًا سفير واپس بلا ليا پر پڑي تواس نے دل ہي دل ميں ان کو گالياں نکالتے ہوئے اس لمحے پر لعنت بھيجي جب وہ اخبار پڑھنے بيٹھا تھا اور دوبارہ دل ہي دل ميں استغفار کرتے ہوئے ايک کار کي طرف چل پڑابات اگر يہيں تک رہتي تو ٹھيک تھي مگر چند دنوں بعد جب پھر يہ سننے ميں آيا کہ کچھ اور يورپي اخبارات نےبھي يہ مذموم حرکت کي ہے اور اسے ڈنمارک کے اخبار کے ساتھ يکجہتي قرار ديا ہے تو اس کا خون کھول اٹھاحب رسول صلي اللہ عليہ وسلم بھي عجيب چيز ہے ميٹھي ميٹھي نرم نرم ہلکي آنچ جيسي محبت جس ميں دل سلگتے ہيں تو آنکھوں کو قرار آتا ہے ايسي ہستي جس کا خيال آتے ہي دل ميں بے پناہ رحمت کا تصور آجاتاہے رحمتہ اللعلمين صلي اللہ عليہ وسلم کا نام زبان پر آتے ہي دل ميں ٹھنڈ سي پڑجاتي ہے مگر بنانے والے نے يہ عجيب بات ان صلي اللہ عليہ وسلم کے عاشقوں ميں رکھ دي ہے کہ جب بھي ان صلي اللہ عليہ وسلم کي شان ميں کسي نے نازيبا الفاظ استعمال کيےمحبت کا رنگ بدل گياجيسے سمندر ميں اچانک سکون سے طغياني آجائے،جيسے شمع بھڑکتے ہوئے الاؤ ميں بدل جائے جيسے دھيمے دھيمے جلتے کوئلوں پر کوئي تيل سے بھري بوتل انڈيل دے يوں عشاقان رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے اندر آگ سي لگ جاتي ہے پھر بڑے بڑوں کو اپنا ہوش نہيں رہتا تاريخ شاہد ہے جب بھي ايسا کوئي واقع پيش آيا کسي عام سے مسلمان نے گستاخِ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو جان تک سے ختم کرديا۔غازي علم دين شہيد عام سا کسان تھا جب اس نے يہ سنا کے اس کے آقاومولا صلي اللہ عليہ وسلم پر کسي نے الزام تراشي کي ہےتو اس نے وہ کارنامہ سرانجام ديا آج دنيا اسے غازي علم دين شہيدرحمتہ اللہ عليہ کے نام سے جانتي ہےاس کے ساتھ بھي ايسے ہي ہوا پہلي بار جب توہين رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں پڑھا تو کہيں سے خون نے جوش مارا تھا مگر عام دنيا دار کي طرح اس نے اس بات کو کوئي خاص اہميت نہ دي چونکہ واقع پرانا ہوچکا تھا دوسري بار جب اخبار ميں يہ خبر چھپي تو اس کے اندر جيسے بھانبڑ جل اٹھے تھے جي کرتا تھا سب کچھ تہس نہس کردے خون کي گرمي کنپٹي پر محسوس ہورہي تھي اسي حالت ميں وہ بابے علیے کے پاس دوکان بند کرکے چلا آيا بابا اس کے چہرے سے ہي سمجھ چکا تھا کہ کوئي خاص بات ہے قريب آکر اس نے اخبار بابے کي چارپائي پر پھينکي اور موڑھے پر بے دم سا ہوکر گرگيا بابے نے ملائمت سے پوچھا: "کيا ہوا رشيد کيوں اتنے بھرے ہوئے ہو"بابے کے اتنے پوچھنے پر وہ جيسے پھٹ پڑا"بابا بھروں نا تواور کيا کروں کدھر گئي ہے ہماري غيرت وہ کتيا کے جنے اب اتنے شير ہوگئے ہيں کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي توہين کرنے سے باز نہيں آرہےبابا ہماري غيرت کہاں مر گئ ہے"آخر ميں اس کي آواز جيسے تھک سي گئي تھي "ميں جانتا ہوں پتر جو کچھ ہورہا ہے صبح ہي مجھے مجو سبزي والے کا لڑکا خبريں سنا کر گياہے پتر يہ ہماري بدقسمتي ہے کہ ہميں فاسق فاجر حکمران ملے ہيں جو ايسے معاملے ميں چوں چاں کرنے کي بھي صلاحيت نہيں رکھتے" بابے نے جيسے ٹھنڈا سانس بھر کے کہا بابا باقيوں کي تو آنکھيں اور کان ہيں کيا انڈيا کي فلموں اور بليو پرنٹوں نے ان کے دلوں پر بھي مہر لگا دي ہے.جو عام لوگ بھي غيرت سے عاري ہوگئے ہيں يہ کيوں نہيں اٹھتے" "پتر ان کي غيرت ابھي نہيں مري غيرت زندہ ہےياد رکھ پتر مسلمان کي غيرت کبھي نہيں مرتي صرف سو جاتي ہے مگر جب مسلمان کي غيرت جاگتي ہےتو پھر ايسا عذاب بن جاتي ہے جس سے کفار کے گھر تک جل جاتے ہيں اس ليے يہ لوگ ايسے حربے استعمال کررہے ہيں کہ مسلمانوں کي غيرت سوئي رہے ابھي تو کسي کو پتا نہيں لگا ايک آدھ دن ٹھہر جا پھر تجھے اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ غيرت زندہ ہے يا مرگئي" بابے کے لہجے ميں زمانے بول رہےتھے پھر واقعي جيسے جيسے اس قبيح حرکت کا پتا لوگوں کو چلتا گيا ہر طرف احتجاج شروع ہوگيا پرچم نظر آتش کرنا پتلے نظر آتش کرنا اور ان ملکوں کے خلاف نعرے بازياں ہر اخبار انھي خبروں سے بھرا ہواتھامسلم دنيا کے حکمرانوں کو بھي جيسے ہوش آگيا تھا انھوں نے بھي اس کے خلاف بيانات دينے شروع کرديے تھےسفيروں کو بلا کر احتجاج کيا جارہا تھا رشيد اگلے دن بابے علیے کے پاس آيا تو اس کے چہرے پر تھوڑي سي خوشي چمک رہي تھي" بابا تو ٹھيک کہتا ہےابھي ہماري غيرت نہيں مري" پھر اس نے اخبار بابے کے آگے کرديے يہ ديکھ ہر جگہ احتجاج ہورہا ہے اور بابا اس کے لہجے ميں موجود حددرجہ اطمينان پر مسکرا ديا جيسے بڑے بچوں پر مسکرادياکرتے ہيں" پتر غيرت مري نہيں مگر غيرت سو گئي ہے اگر يہ سب کچھ آج سے بيس تيس سال پہلے ہوا ہوتا تو اب يہ حال نہ ہوتا يہ ديکھو اس شہر ميں بھلا کسي کو پتا چلا کو کوئي جلوس نکلا ہے ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے تحفظ کے ليےجہاں نکلا بھي ہے وہاں لاکھوں کي آبادي سے سينکڑوں اور ہزاروں ميں نکلا ہے پتر يہ ثبوت ہے اس بات کا کہ غيرت سوگئي ہے" بابے نے دورکہيں نظريں جمائے کہا اور رشيد يہ سب سن کر پھر مرجھا سا گيا"بابا کہتا تو تُوٹھيک ہے اب مجھے ہي لے لے ميں دوکان پر بيٹھا ہي ان کو گالياں نکالتا رہا ہوں مگر ميرا حوصلہ نہيں پڑ اکہ اپنے يار دوستوں کو کوئي چھوٹا موٹا جلوس نکالنے پر رضامند کرتا"رشيد کے لہجے ميں تاسف تھا بابا پھر جيسے مسکرايا"پتر قصور تيرا بھي نہيں دوکان بند رکھے گا تو کھائے گا کيسےا ور ايسے کام کرتے ہوئے تو اپنا ہوش نہيں رہتا کاروبار کہاں ہوگا پتر يہ صديوں کي سوچ ہے جس کا نتيجہ تم آج ديکھ رہے ہو ان لوگوں نے آج سےصديوں پہلے يہ منصوبے بنائے تھے کہ مسلمانوں کو ايسے کاموں ميں الجھا دو کہ انھيں فرصت ہي نہ ملےمسلمان کيا کہيں بھي ديکھ لے ہر جگہ ہر کسي کواپني پڑي ہے اپنے کھانے کمانے کي اور اس کے بعد اپني ذات کي تفريح کي اوردنيا داري کي اس کے بعد بھلا وقت بچتا ہےکہ وہ کسي اور طرف ديکھے سارا سارا دن گدھوں کي طرح کام کاج کرنے کے بعد دو وقت کي روٹي ملتي ہے اس کے بعد بندے کا ذہن ہي اس قابل نہيں رہتا کہ کسي اور طرف دھيان دے يا سوچے پتر وہ بڑے چاتر تھے جنھوں نے يہ سب سوچا تھا اور يہ اس سے بھي بڑے چاتر ہيں جوا اس پر عمل کر رہےہيں" " بابا وہ چاتر ہيں تو ہم بھي کسي سے کم نہيں يہ ديکھ"اس نے ايک تصوير بابے کے سامنے کي"تہران ميں جيالوں نے ڈنمارک کا سفارت خانہ جلا ديا" رشيد کے لہجے ميں بيک وقت فخر اور افسوس شامل تھا"کاش يہ ہم نے بھي کيا ہوتامگر يہاں تو صرف ريلياں نکال رہے ہيں اور بس۔۔۔ اور يہ بھي ديکھ مسلمان تاجروں نے يورپي مصنوعات کے بائيکاٹ کا اعلان کرديا ہے" رشيد نے ايک اور سرخي بابے کي آنکھوں کے آگے نچائي "ميرے بھولے پتراس پر کل بات کريں گے آج مجھے کہيں جانا ہے کل تيرے سارے سوالوں کا جواب دے دوں گا" بابے علیے نے کہا اور اٹھ کر اپنا تہبند صحيح کرنے لگااگلے دن رشيد دوکان سے کام کرنے کے بعد فارغ ہوکر حسبِ وعدہ ہاتھ ميں اخبار ليےبابے علیے کے پاس پہنچ گيا دعا سلام کے بعد اس نے بڑے پرجوش لہجے ميں اسے احتجاج کے پوري دنيا ميں پھيلتے اور تہران ميں ايک اور سفارت خانے پر حملے کے بارے ميں بتايا بابا علیا بڑے دھيان سے اسے سن رہا تھا جب بات ختم کر چکا تو بولا"پتر يہ بھي تو بتا نا کہ ڈنمارک کي حکومت نے معافي کے بعد معاملہ ختم کرديا ہے اپني طرف سے مسلمانوں کے بڑوں نےانھيں پرامن رہنے کي اپيليں کرنا شروع کر دي ہيں اور کہنے والے اسے بھي انتہا پسندي کي ايک شکل قرار دے رہے ہيں" او پتر سفارت خانے اور پرچم جلانے سے کچھ نہيں ہوگا اب وہ جو چاہتے تھے انھيں حاصل ہوگيا ہے اصل بات يہ ہے کہ وہ ديکھنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں ميں ابھي کتني غيرت باقي ہے سوانھوں نے ديکھ ليا اور اس کو بھي نشےکا ٹيکہ لگانےکا بندوبست کريں گے پتر دو ہي باتيں ہوسکتي ہيں يا تو انھوں نے صرف نتيجہ ديکھنے کے ليے مسلمانوں کو چھيڑا ہےيا پھر کوئي ايسا واقعہ رونا ہونے والا ہے جس کي طرف سے وہ مسلمانوں کي توجہ بٹانا چاہتے ہيں" رشيد نے جلدي سے کہا"پر بابا يہ بھي تو ديکھ کے اب وہ ايسي حرکت دوبارہ نہيں کريں گے انھيں پتا چل گيا ہے کہ ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم پر جان قربان کر دينے والے موجود ہيں ابھي "پتر پرچم جلا دينے سے يا پاؤں تلے روندنے سے انھيں کچھ نہيں ہوگاتجارتي تعلقات منقطع کرو گے تو بھي اپنا ہي نقصان کروگے تمہاري آدھي سے زيادہ برآمدات انھي ممالک کو ہوتي ہيں ان کے بغير کيا کروگے تمہارے لوگ بھوکے مريں گے يہ بھوک بڑي ظالم شےءہے پتر اس ميں تو رب بھي بھول جاتا ہے بس يہ ياد رہتا ہےکہ ايک پاپي پيٹ لگا ہوا ہےجسے بھرنا ہے پتر وہ زمانے گئے جب آسمان سے من و سلوٰي اترا کرتا تھا اب تو کرتوت ہي ايسے نہيں کچھ کام کي چيز ہوگي تو آسمان والا بھي کرم کرے گا ناہم لوگ تو کوڑا کرکٹ ہيں پتر جو اسلام کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہيںاگر ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے تو عقل سے کام لينا ہوگا پتر“ "کيسي عقل بابا؟“ "رشيد جو بابے کي باتيں سن کر سوچ ميں پڑا ہوا تھا چونک کر بولا "پتر جذباتي ہونے سے بات نہيں بنے گي اللہ کہتا ہے نا کہ وہ مکر کرہے رہے تھے اور اللہ بھي اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے تو پتر ان کے ساتھ مکر کرنا پڑے گا يہ ہنگامے سب سرد ہوجائيں گے بڑي حد يہ ايک مہينہ اور چل جائيں گےمعافي تلافي ہوگي اور بات ختم ہو جائے گي پر بات يہ ہے کہ بات ختم نہيں ہوني چاہيے مکر کرنےوالے لوگ ہيں پتريہ کافر ہندو. يہ بات کو دل ميں چھپا ليتے ہيں پتر کِينےکو اپنے دل ميں رکھتے ہيں ہماري طرح نہيں کہ کچي پنسل مٹانے والي ربڑ کي طرح اسے سرے سے صاف کر ديا نہيں پتر يہ اس کو دل ميں رکھتے ہيں اور جب موقع ملتا ہے بھرپور وار کرتے ہيں ان سے اسي بات کو ہم نےاپنانا ہے پتر اس بات کو بھولنا نہيں دل ميں ان کا کھاتہ کھول کر ان کي طرف ادھار ميں يہ حساب درج کرلينا ہے، بول کيا يہ بات ايسي ہے کہ اسے بھول جائيں يا معافي تلافي سے سب ٹھيک ہوجائے؟؟"بات کرتے کرتے يکدم بانے علیے نے سواليہ انداز ميں رشيد کي طرف ديکھا "نہيں بابا نہں ہم کيسے بھول سکتے ہيں ہم يہ کتيا کے جنے ہمارے آخري سہارے ہمارے آقا ومولاصلي اللہ عليہ وسلم کي عزت پر حرف اٹھائيں اور ہم صرف ان کي معافي لے کر شانت ہوکر بيٹھ جائيں يہ کيسے ہوسکتاہے ہم بھلا ايسا ہونے دينگے"رشيد جيسے جوش بھرے لہجے ميں بولا "يہ ہي بات ہے پتر پر اسي ليے تو کہہ رہا ہوں کہ مکر سے کام لينا ہے ان کا حساب دل ميں لکھتے جاؤ ان کي جانب ايک ادھار کھاتہ کھول کر يہ کبھي ہمارے دوست نہيں ہوسکتےمگر اوپر سے ان کے ساتھ دوستي نبھاؤ اپنے مفادات پورے کرو جب موقع ديکھو کہ اب يہ جوتے تلے ہيں انھيں گندي نالي کے کيڑے کي طرح مسل دو يہ ہي تمہاري سوچ ہوني چاہيے اب پتر ورنہ جذباتيت چند دنوں ميں ٹھنڈي پڑ جاتي ہے اسي جذباتيت کے ہاتھوں ہم مارکھاتےہيں اس ليے ٹھنڈے ہوکر ان کے بارے ميں سوچو اور ايسا وار کروکہ صديوں تک اپنے زخموں پر بلبلاتے رہيں"
Wednesday, February 08, 2006
1
بلا عنوان
کاکا گلی میںکھیل رہا تھا جب اس کی ماںحسبِ معمول اس کو صلواتیںسناتی ہوئی ہاتھ میں بڑا سا تھیلا پکڑے گلی کی نکڑ سے برآمد ہوئی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ کاکے کی ماں فاطمہ جسے محلے والے پھاتاںکہتے تھے اس وقت کہیںنہ کہیںسے آرہی ہوتی۔ حسب عادت وہ کاکے کو گلی میں کرکٹ کھیلتے دیکھ کر وہیں اس کے لتّے لینے شروع کر دیتی۔
کاکا بھی اب اس معمول کا عادی ہوگیا تھا۔ اس لیے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا بلکہ اب تو سنتا بھی نہیںتھا اپنے دھیان کھیلنے میںلگا رہتا۔
مگر یہ کیا! آج کچھ مختلف تھا۔ آج ماں کا موڈ پہلے جیسا نہیںتھا آج کچھ زیادہ ہی سنگینی تھی۔ کاکے نے اماںکے تیور دیکھتے ہوئے کھیل چھوڑا اور اس کے ہاتھ سے بڑا سا تھیلا لینا چاہا۔
پھاتاں اتنے میںتپ چکی تھی۔ اس نے دو تین زنانہ گالیاںدیتے ہوئے اس کے ایک دھموکا جڑا اور بولی“ ہاں ہاں اب تو پکڑے گا ہی جب روتی پیٹتی گھر پہنچ گئی ہوں کم بخت پورے سترہ کا ہوجائے گا اس سال مگر ذرا ہے جو اس مرن جوگے کو عقل ہو۔ اتنا خیال نہیں کہ ماںکا پتہ ہی کر لیتا کہاںچلی گئی ہے ۔ کہیںمر ہی تو نہیںگئی۔“ گھر کی دہلیز تک آتے آتے اس کی آواز بھرّا گئی تھی اور کاکا اب اسکے ہاتھ سے تھیلا جھپٹنے میںکامیاب ہوچکا تھا۔
دڑبے نما باورچی خانے میںجاکر اس میں سے کوئی کھانے کی چیز تلاشنے لگا۔ مگر اس میںیوٹیلیٹی گھی کے دو کلو کلوکے پیکٹ اور چینی کے دو دو کلو کے دو پیکٹوںکے سوا کچھ نہ تھا۔
اتنے میں باہر کا دروازہ بجا ۔ اب کے باہر ابا تھا۔ ابے کا نام تو فردوس جمال تھا مگر اس کے منحنی سے قد،تڑکےوالےچاولوں کے پیاز جیسے رنگ اور اسامہ بن لادن مارکہ داڑھی میںکچھ بھی فردوس اور جمال والا نہ تھا۔ اس لیے محلے والے اسے جمالا کہتے تھا۔ جمالا بڑے بازار میںچھابڑی لگاتا تھا۔ صبحچار بجے اٹھ کر منڈی کو نکلتا اور سبزی خرید کر لاتا۔ پھر ٹھیلے پر سجا کر بازار کو نکل جاتا اس کی واپسی اکثر شام کو ہوتی۔ سارے دن کا تھکا ہارا جمالا اس وقت نشہ ٹوٹے ہیروئنچی کی طرحدو گھڑی کمر سیدھی کرنے کی فکر میں رہتا۔
ایسے میں اگر گھر میںپھاتاںکسی بچے کو ڈانٹرہی ہوتی تو جمالا آؤ دیکھتا نہ تاؤ جوتا اتار کر اس کی چھترول شروع کردیتا۔ اس کے بعدکابک سی بیٹھک اس کا ٹھکانا ہوتی جس میںبچھی اکلوتی چارپائی پر جب وہ گرتا تو اگلے دن صبحمنڈی جانے کے وقت اٹھتا۔
پھاتاں اس دوران اپنے نصیب کو کوستی اور اپنے بچوںکو بھی جو ہر وقت اسے ستاتے تھے ۔
اس دن بھی یہی ہوا۔ پھاتاںکا غصہ ابھی تک نہیںاترا تھا۔ پانچ چھ گھنٹوںکی خجل خواری اور لائن میں ایک گھنٹہ کھڑے ہونے کے بعد بھی جب سٹور والے نے اسے دو پیکٹ چینی سے زیادہ دینے سے انکار کردیا بلکہ ساتھ دوسرا سودا بھی لے جانے کو کہا تو اس کا پارہ ساتویںآسمان پر پہنچ گیا۔ چینی تو وہ خیر لے ہی آئی مگر کاکے کو سامنے دیکھ کر سارا غصہ اس پر نکلا۔
“کم بخت مرتا بھی نہیں۔ لوگوںکی اولاد سو سکھ دیتی ہے اور یہ لوٹھے کا لوٹھا کالج سے آکرگھرمیں پڑا رہتا ہے۔ ماںگلی محلوںمیںخجل خوار ہوتی رہے اسکی بلاجانے۔ اسے تو اپنے کھیلنے سے غرضہے۔ حرام خور یہ مفت میںجو تو اور یہ تیرے ہوتے سوتے صبحاٹھ کر چاء پاپے کھا کر جاتے ہو تمہارا باپ آسمان سے توڑ کر نہیں لاتا پانچ گھنٹے ذلیل ہونے کے بعداس کم بخت سٹور والے نے چار کلو چینی دی ہے۔اور تم اسے تین دن میں ختم کر دوگے “
اب پھاتاںکا غصہ سٹور والے کی طرف منتقل ہوگیا اس کے بعد وہ حکومت کو صلواتیںسنانے لگی
“یہ ناس پیٹاجب سے آیا ہے ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ ارے پہلے پٹرول کیا کم مہنگا تھا اب کم بخت نے چینی کو آسمان پر چڑھا دیا ہے۔ یا اللہ ہم کہاںجائیں“ اب وہ آسمان والے سے شکوہ کناںتھی
“اللہ ہی تجھے لے تیری قبر میں کیڑے پڑیںغریبوںکے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننا چاہتا ہے۔ تجھے کیا کوئی مرتا ہے مرے تجھے تو وردی کی فکر ہے“ با آوازِبلند بددعا کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا بھی لگاتی جارہی تھی۔
خیر اسی دوران کاکے کا ابا جمالا اندر داخل ہوچکا تھا۔ اس نے جب پھاتاںکو بولتے اور کاکے کو سامنے سر جھکائے بیٹھے دیکھا تو اس کا ہاتھ سیدھا جوتے کی طرف گیا۔ پتر کی عمر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے پانچ سات چھتر لگائے اور بازاری گالیاں بکتا ہوا کابک نما بیٹھک میںجاکر لیٹکر دنیا سے بے خبر ہوگیا۔
کاکا مار کھا کر اور بدلے میںنِکی کو تین چار تھپڑ لگا کر گھر سے باہر جاچکا تھا اور پھاتاںاب حکمرانوں کی بجائے جمالے اور کاکے کے ساتھ ساتھ اپنے نصیب کو بھی کوس رہی تھی جس نے ایسا اجڈ شوہر اور بے ہدائیتی اولاد اسکے پلے باندھ دی تھی۔
کاکا گھر سے نکل کر سیدھا ارشد کی طرف چلا گیا۔ ارشد اپنے گھر کی نکڑ پر کھڑا آنے جانے والیوںکو تاڑنے میںمشغول تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرایا
“ہاں بھئی شہزادے کہاںسے آرہے ہو۔ بڑے تّتے لگ رہے ہو۔ خیر ہے“ ارشد نے مسکرانے کے ساتھ نظر بازی اور سلسلہ کلام کا آغاز بھی کیا۔
“کیا بتاؤںیار۔ وہ ہی روز روز کی چخ چخاماںڈانٹ رہی تھی ابے نے یہ دیکھ کر جوتی اٹھا لی اور مجھے مفت میں۔۔“
اتنا کہہ کر کاکا ناراض سے انداز میںارشد کی نظروںکے تعاقب میںدیکھنے لگا۔
ارشد اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکا تھا۔
“شہزادے بات کیا ہوئی تھی یہ بھی تو بتا نا“
“بات کیا ہونی تھی یار اماںیوٹیلیٹی سٹور سے خجل خوار ہو کر شام کو دو پیکٹ چینی لے کر آئی تھی۔ مجھے گلی میںدیکھ کر مجھ پر برسنے لگی پھر ابا بھی آگیا آگے کا حال تو جانتاہے“
“ تو شہزادے کچھ کام شام بھی کروا دیا کر نا ماںکے ساتھ۔ چاچی پھاتاں بھی تو غلط نہیں کہتی۔ اپنا حساب صاف رکھا کر پھر مجال ہے کوئی تجھے کچھ کہے“ ارشد نے یہ کہہ کر بظاہر ایک کبوتر اصلًا ایک کالج کی وردی میںملبوس دوشیزہ کو دیکھ کر سیٹی مارتے ہوئے بات مکمل کی۔
اس دوران کاکا اس کی بات پر سوچ میںپڑ چکا تھا۔ “بات تو تیری ٹھیک ہے۔ اپنا حساب صاف رکھوں۔ تھوڑا بہت کام کروا دیا کروںماں کے ساتھ تو یہ بک بک چخ چخ ختم ہو۔“
“اب آیا نا لائن پر شہزادے ۔ اچھا بھئی ہم تو چلے ۔ ہمارا ٹائم آگیا ہے ۔اب “اسٹیشن“ تک چھوڑنے جائیںگے اسے“
ارشد یہ کہہ کر ایک بھڑکیلے سے کپڑوںمیںملبوس لڑکی کے پیچھے چل پڑا اور کاکا واپس گھر کی طرف ۔ اس کے ذہن میںارشد کی بات بیٹھ گئی تھی۔
“ہے تو اول درجے کا حرامی مگر بات پتے کی کرگیا ہے“ کاکا سوچتا ہوا جارہا تھا۔
آخر گھر پہچنے تک اس نے اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ اب کی بار اماںکو کم از کم چینی لینے نہیں جانے دے گا۔
دن پر لگاتے اڑگئے پھاتاں پھر چینی کا رونا رو رہی تھی۔
“کم بختو پانی کی طرحچینی پیتے ہو۔ اس پپو کو دیکھو اللہ مارا چینی کا ڈبہ اور پانی کا گلاس پکڑے بیٹھا رہتا ہے۔ ایک گھونٹ پانی کا اور ایک گھونٹ چینی کا۔ ارے کم بخت چینی تیرا باپ لائے وہاںگھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر“
بکتی جھکتی تھیلا اٹھائے پھاتاںدروازے سے باہر نکل رہی تھی کہ کاکے نے اس کے ہاتھ سے تھیلا جھپٹلیا۔ لا ماںمیںچینی لاتا ہوں۔ پھاتاں نے پہلے تو اس کی شکل کی طرف ایک بار غیر یقینی نظروںسے دیکھا ،کچھ کہنے کا ارادہ کیا پھر خاموشی سے اس کے ہاتھ میں روپے پکڑا دیے اور بولی
“دو پیکٹ گھی کے ساتھ لے لینا خدا غارت کرے ساتھ دوسرے سودے کے بغیر چینی ہی نہیں دیتے اور ہاںچینی کے دو پیکٹ سے کم ہرگز نہ لیجیو۔ کم بختوںنے پانچ کلو سے کم کرکے دو کلو کردی ہے چینی۔ ان پر اللہ کی مار غریبوںکو ہی لوٹیںگے جب بھی لوٹیںگے۔“
کاکا تھیلا پکڑے بڑے خوشگوار موڈ میں نظر بازی کرتا یوٹیلیٹی سٹور پہنچ گیا۔ مگر اس کا سارا خوشگوار موڈ کمو بیش سو مرد وزن کو دو قطاریںبنائے دیکھ کر بھک سے اڑ گیا۔ ابھی چینی آئی نہیںتھی اور یہ حال تھا۔
تین گھنٹوںکے طویل انتظار کے بعد آخر چینی آئی اور ایک گھنٹہ قطار میںچیونٹی کی چال میںرینگنے کے بعد باری آئی۔ بڑی مشکلوںسے وہ سودا لے کر گھر آیا تو اسے دنیا گھومتی محسوس ہورہی تھی۔
اب اسے پتا چلا تھا کہ ماںکیوںچیختی چلاتی اور غصے میںبھری رہتی ہے۔ اس طرحذلیل ہو کر سودا لینے سے یہ حال ہی ہوسکتا تھا کسی کا۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کاکا پھر ارشد کی طرف رواںتھا۔ اس کے خیال میںشاید اس کی یوٹیلیٹی سٹور پر کوئی واقفیت نکل آتی تو اتنا ذلیل نہ ہونا پڑتا۔
ارشد حسب معمول نکڑ پر کھڑا لڑکیاںتاڑنے میںمشغول تھا۔ کاکے کو آتا دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر وہی یارباش مسکراہٹ چمکی۔
“کیوں بھئی شہزادے کیا آج پھر واٹلگی ہے“
“ہاںاستاد آج پھر واٹ لگی ہے۔ اَبّے ہاتھوںنہیں۔ چینی کے ہاتھوں۔“
پھر کاکے نے اسے سب کچھ بتادیا۔
ارشد یہ سب سن کر ہنس پڑا“شہزادے ایسے ہی ہو گااب۔ سنا ہے سال بھر رہے گا ایسے ہی۔شہزادے ذرا ہمت کر اب یہ تو کرنا ہی ہوگا۔“
“یار ارشد کوئی واقفیت لگا نا اپنے محلے کے یوٹیلیٹی سٹور میں۔ چل مجھے ہی دے دیا کرے چینی۔اتنا وقت کہاںتو تو جانتا ہے کہ کرکٹ اور پھر کچھ پڑھنا بھی ہوتا ہے اتنا وقت کیسے برباد کروں چار کلو چینی کے لیے“
یہ سن کر ارشد ہنس پڑا“شہزادے یہ بھوتنی کے ایسے موقعوں پر اپنے باپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔واقفیت سے کچھ نہیںبنے گا“
“تو کوئی ترکیب نکال نا پھر“ کاکے نے منت بھرے لہجے میںکہا۔
ارشد نے کان میں خارش کی،دو تین لڑکیوںکو دیکھ کر سیٹی ماری پھر یکلخت زور زور سے ہنسنے لگا
“کیا ہوا؟ نہیںکوئی ترکیب بتانی تو مذاق کیوںاڑاتے ہو“ کاکے نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
“ارے شہزادے ناراضنہ ہو۔ تیرا کام ہوسکتاہے پر ترکیب ایسی سوجھی ہے کہ ہنسی آگئی“ ارشد جلدی سے بولا
“کیا ترکیب ہے بتا نا؟“ کاکا بے تابی سے بولا
جب ارشدنے ترکیب بتائی تو ایک بار کاکے کے چہرے کارنگ بھی بدل گیا۔ مگر پھر اِدھر اُدھر کی باتیںکرکے گھر لوٹ آیا۔
گزرتے دنوںکے ساتھ اس کے ذہن میںخیال مضبوط ہوتا گیا اگر چہ ترکیب بڑی ہودہ تھی تاہم قابل عمل بھی ہوسکتی تھی۔ کاکے نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر چند دنوںبعد وہی منظر تھا۔ سو کے قریب مردوزن قطار میںلگے چینی آنےکا انتظار کررہے تھے۔ دفعتًا ایک زنخہ کولھے مٹکاتا ایک طرف سے آیا اور ایک تیسری قطار بنانے کے لیے لوگوں لڑنے لگا۔۔۔۔۔
ایک ٹوٹا پھوٹا سا سلام پیش از خدمت حسینؓ
بتولؓکے لختِ جگر محمدؐ کی جان حسینؓ
تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان حسینؓ
معصوم علی اصغرؓنے تیر کھایا
جوان علی اکبرؓ کا لاشہ اٹھایا
اپنے پیاروں کو قربان کرکے
تو نے وفا کو ثابت کردکھایا
تیرا ہی خاصہ تھا،یہ تیری ہی شان حسینؓ
تو ہے دینِ محمدیؐکا پاسبان حسینؓ
تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان حسینؓ
سلام ہو ان بہتر سواروں پر
سلام ہو ان ارض کے ستاروں پر
جن کے لہو رنگ نقشِ پا
چمکتے ہیں کربلا کے ریگزاروں پر
کہ جن کا دوست خدا تھا اور ہے
کہ جن کا ہے میرِ کاروان حسینؓ
تو ہے دینِ محمدیؐکا پاسبان حسینؓ
تیری تعریف کروں میرں اتنی کہاں اڑان حسینؓ
جس ریت پہ علی اصغرؓکا لہو ٹپکا تھا
جہاں علی اکبرؓ زخم کھاکے گرا تھا
جہاں تُو نے سجدہِ آخر کیا تھا
وہ جگہ گر ہوجائے کبھی میرا نصیب
خود کو وہیں کردوں میں قربان حسینؓ
تُو ہے دینِ محمدیؐ کا پاسبان حسینؓ
تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان حسینؓ