جب غم کا اندھیرا چھایا ہو
جب درد کا بادل آیا ہو
جب آنکھوں میں نمی سی ہو
جب خوشیوں میں کمی سی ہو
جب حزن سا ہر سو پھیلا ہو
جب موسم بہت اداس ہو
جب ایسے ہی سلگتے سلگتے
لگ گئی بہت ہی پیاس ہو
جب درخت بھی ویراں ہوجائیں
جب پت جھڑ کا موسم ہو
جب چھاجوں مینہ برستا ہو
جب ساون کی رِم جھم ہو
کہیں چمبیلی مہکی ہو
کہیں کوئی چڑیا چہکی ہو
تب کہیں، کہیں کوئی آس ہو
کوئی بہت،بہت ہی خاص ہو
جب تصور میں آجائے
سارے درد بھلا جائے
چھاجائے غموں پر خورشید بن کر
نئی صبح کی نوید بن کر
Saturday, May 13, 2006
2
شاکر صاحب شاعر صاحب
آج بہت دنوں بعد اپنے بلاگ پر لکھنے کو دل چاہا ہے۔احباب نے میرے بلاگ پر بہت سی چیزوں کے بارے میں پڑھا سوائے میرے۔آج میرے ہاتھ کوئی موضوع نہیں آیا تو دل کیا کچھ اپنے بارے لکھوں۔ اپنے بارے میں کیا لکھتا کچھ ایسا خاص تو نہیں ہے جو دوسروں سے مجھے ممتاز کرے۔خیر یادوں کے کباڑخانے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک دو چیزیں ملیں جنھیں آپ سے شئیر کرنے کو جی چاہا۔
زندگی میں ہر کسی پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے اپنے “ہونے“ ک احساس ہوتا ہے۔ایک گانا ہے شاید آپ نے بھی سنا ہو “مینوں چڑھیا سولہواں سال۔۔۔۔“۔یہ سولہواں سال ہی شاید وہ وقت ہوتا ہے۔مگر مجھ پر سولہواں سال دو سال لیٹ آیا۔شاید یہ بھی میری طرح سست واقع ہوا۔عمر عزیز کے اٹھارہویں سال مجھے احساس ہوا کہ “میں ہوں“۔زندگی حسین لگنے لگی۔ اپنے آپ کو سنوارنے کو دل چاہا۔ہر چیز نکھری نکھری اور انوکھی لگنے لگی۔ خاص طور پر محبت نے مجھے ان دنوں بہت متاثر کیا۔ہر چیز سے محبت اللہ سے اس کے بندوں سے اس کی مخلوق سے اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے بے تحاشا محبت محسوس ہونے لگی۔اور پھرایک اور احساس کوئی بہت بہت ہی خاص ہو۔کوئی محرم۔کوئی جس کے ساتھ دل کا رشتہ ہو۔انھی دنوں مجھ پر اپنی ایک اور صلاحیت کا انکشاف ہوا۔
یونہی ایک دوست کی دیکھا دیکھی ایک دن نظم لکھنے بیٹھ گیا۔ایک بے تکی آزاد سی نظم لکھ کر اسے بلا مبالغہ کئی بار پڑھا۔ہر بار اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا یہ میں نے لکھی ہے کتنی پیاری ہے۔وغیرہ وغیرہ قسم کے سینکڑوں خیالات دل میں آتے۔شاید اللہ نے بھی جب احسن تقویم انسان کو پیدا کیا اسے بھی اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا ہوگا۔ محبت،کسی محبوب کی تڑپ اور ادب سے لنگڑی سی واقفیت نے تمام لوازمات پورے کردیے۔
اس کے بعد پھر میرے اندر کے شاعر نے ایسی انگڑائی لی کہ باقی سب صلاحیتوں کو سلا دیا۔ہر روز ایک نظم یا غزل کا نزول ہوتا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں نفس مضمون کے اعتبار سے تو شاید قابل قبول ہوں پر تکنیکی اعتبار سے بے تکی بے ڈھنگی اور بے بحری بھی تھیں۔ان دنوں کمپیوٹر نیا نیا استعمال کرنا سیکھا تھا اور میرے لیے کمپیوٹر پر اردو کے نام پر ایک ہی چیز تھی ان پیج ۔سو آدھ آدھ گھنٹا لگا کر نظم پہلے لکھتا پھر اس کی تزئین کرتا پھر اس کو گِف بناوٹ میں محفوظ کرتا۔
تو یہ تھا شاکر جو ایک شاعر بھی تھا۔تھا اس لیے کہا کہ آج کل اتنی فرصت نہیں۔زندگی کے چودہ سالوں کی محنت پھل پانے چلی ہے۔سو کچھ لعن طعن کچھ مرضی سے اپنے آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔اب کیسی شاعری اب تو یہ حال ہے کوئی شعرکہنے کی کوشش کروں تو ایک مصرع شعر کا اور دوسرا مصرف ایڈوانس اکاونٹنگ کی انٹری سے نکلتا ہے۔کاسٹ اکاؤنٹنگ،پاکستانی معاشیات،بزنس لاء آج کل یہی اوڑھنا بچھونا ہیں۔
مورخہ چھ جون سنہ2004ء سے میرے بی کام پارٹ ٹو کے امتحان شروع ہورہے ہیں۔تاریخ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی سالوں سے یہی چلی آرہی ہے اور ڈیٹ شیٹ + رولنمبر سلپ کی آمد بھی جلد ہی متوقع ہے۔ایک مہینے کی ٹینشن کے بعد کہیں خلاصی ہوگی۔دعا کیجیے گا سخت گرمی میں یہ امتحان زیادہ امتحان نہ بنیں۔اب شاید جولائی میں آپ سے مخاطب ہوسکوں۔اور ہاں جاتے جاتے میری دوسری نظم (پہلی کچھ زیادہ ہی آزاد ہے یعنی قافیہ ردیف بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے اس میں۔)،جو میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔نظم اس لیے کہ اس میں آزاد کا بہانہ چل سکتا ہے غزل میں نہیں۔اور میری تو ساری شاعری بے بحری ہے۔