شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

جذبات

آج کام کم تھا تو اس نے وقت گزاري کےليے اخبار اٹھا لي ورنہ يہ اخبار ورکشاپ پر آنے والے گاہکوں کا دل بہلانے کا سامان ہي بنتي تھي اس کي نظر جب پہلے صفحے پر لگي سرخي ڈنمارک کے اخبار ميں رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے توہين آميز خاکوں کي اشاعت سعودي حکومت نے احتجاجًا سفير واپس بلا ليا پر پڑي تواس نے دل ہي دل ميں ان کو گالياں نکالتے ہوئے اس لمحے پر لعنت بھيجي جب وہ اخبار پڑھنے بيٹھا تھا اور دوبارہ دل ہي دل ميں استغفار کرتے ہوئے ايک کار کي طرف چل پڑابات اگر يہيں تک رہتي تو ٹھيک تھي مگر چند دنوں بعد جب پھر يہ سننے ميں آيا کہ کچھ اور يورپي اخبارات نےبھي يہ مذموم حرکت کي ہے اور اسے ڈنمارک کے اخبار کے ساتھ يکجہتي قرار ديا ہے تو اس کا خون کھول اٹھاحب رسول صلي اللہ عليہ وسلم بھي عجيب چيز ہے ميٹھي ميٹھي نرم نرم ہلکي آنچ جيسي محبت جس ميں دل سلگتے ہيں تو آنکھوں کو قرار آتا ہے ايسي ہستي جس کا خيال آتے ہي دل ميں بے پناہ رحمت کا تصور آجاتاہے رحمتہ اللعلمين صلي اللہ عليہ وسلم کا نام زبان پر آتے ہي دل ميں ٹھنڈ سي پڑجاتي ہے مگر بنانے والے نے يہ عجيب بات ان صلي اللہ عليہ وسلم کے عاشقوں ميں رکھ دي ہے کہ جب بھي ان صلي اللہ عليہ وسلم کي شان ميں کسي نے نازيبا الفاظ استعمال کيےمحبت کا رنگ بدل گياجيسے سمندر ميں اچانک سکون سے طغياني آجائے،جيسے شمع بھڑکتے ہوئے الاؤ ميں بدل جائے جيسے دھيمے دھيمے جلتے کوئلوں پر کوئي تيل سے بھري بوتل انڈيل دے يوں عشاقان رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے اندر آگ سي لگ جاتي ہے پھر بڑے بڑوں کو اپنا ہوش نہيں رہتا تاريخ شاہد ہے جب بھي ايسا کوئي واقع پيش آيا کسي عام سے مسلمان نے گستاخِ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو جان تک سے ختم کرديا۔غازي علم دين شہيد عام سا کسان تھا جب اس نے يہ سنا کے اس کے آقاومولا صلي اللہ عليہ وسلم پر کسي نے الزام تراشي کي ہےتو اس نے وہ کارنامہ سرانجام ديا آج دنيا اسے غازي علم دين شہيدرحمتہ اللہ عليہ کے نام سے جانتي ہےاس کے ساتھ بھي ايسے ہي ہوا پہلي بار جب توہين رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں پڑھا تو کہيں سے خون نے جوش مارا تھا مگر عام دنيا دار کي طرح اس نے اس بات کو کوئي خاص اہميت نہ دي چونکہ واقع پرانا ہوچکا تھا دوسري بار جب اخبار ميں يہ خبر چھپي تو اس کے اندر جيسے بھانبڑ جل اٹھے تھے جي کرتا تھا سب کچھ تہس نہس کردے خون کي گرمي کنپٹي پر محسوس ہورہي تھي اسي حالت ميں وہ بابے علیے کے پاس دوکان بند کرکے چلا آيا بابا اس کے چہرے سے ہي سمجھ چکا تھا کہ کوئي خاص بات ہے قريب آکر اس نے اخبار بابے کي چارپائي پر پھينکي اور موڑھے پر بے دم سا ہوکر گرگيا بابے نے ملائمت سے پوچھا: "کيا ہوا رشيد کيوں اتنے بھرے ہوئے ہو"بابے کے اتنے پوچھنے پر وہ جيسے پھٹ پڑا"بابا بھروں نا تواور کيا کروں کدھر گئي ہے ہماري غيرت وہ کتيا کے جنے اب اتنے شير ہوگئے ہيں کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي توہين کرنے سے باز نہيں آرہےبابا ہماري غيرت کہاں مر گئ ہے"آخر ميں اس کي آواز جيسے تھک سي گئي تھي "ميں جانتا ہوں پتر جو کچھ ہورہا ہے صبح ہي مجھے مجو سبزي والے کا لڑکا خبريں سنا کر گياہے پتر يہ ہماري بدقسمتي ہے کہ ہميں فاسق فاجر حکمران ملے ہيں جو ايسے معاملے ميں چوں چاں کرنے کي بھي صلاحيت نہيں رکھتے" بابے نے جيسے ٹھنڈا سانس بھر کے کہا بابا باقيوں کي تو آنکھيں اور کان ہيں کيا انڈيا کي فلموں اور بليو پرنٹوں نے ان کے دلوں پر بھي مہر لگا دي ہے.جو عام لوگ بھي غيرت سے عاري ہوگئے ہيں يہ کيوں نہيں اٹھتے" "پتر ان کي غيرت ابھي نہيں مري غيرت زندہ ہےياد رکھ پتر مسلمان کي غيرت کبھي نہيں مرتي صرف سو جاتي ہے مگر جب مسلمان کي غيرت جاگتي ہےتو پھر ايسا عذاب بن جاتي ہے جس سے کفار کے گھر تک جل جاتے ہيں اس ليے يہ لوگ ايسے حربے استعمال کررہے ہيں کہ مسلمانوں کي غيرت سوئي رہے ابھي تو کسي کو پتا نہيں لگا ايک آدھ دن ٹھہر جا پھر تجھے اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ غيرت زندہ ہے يا مرگئي" بابے کے لہجے ميں زمانے بول رہےتھے پھر واقعي جيسے جيسے اس قبيح حرکت کا پتا لوگوں کو چلتا گيا ہر طرف احتجاج شروع ہوگيا پرچم نظر آتش کرنا پتلے نظر آتش کرنا اور ان ملکوں کے خلاف نعرے بازياں ہر اخبار انھي خبروں سے بھرا ہواتھامسلم دنيا کے حکمرانوں کو بھي جيسے ہوش آگيا تھا انھوں نے بھي اس کے خلاف بيانات دينے شروع کرديے تھےسفيروں کو بلا کر احتجاج کيا جارہا تھا رشيد اگلے دن بابے علیے کے پاس آيا تو اس کے چہرے پر تھوڑي سي خوشي چمک رہي تھي" بابا تو ٹھيک کہتا ہےابھي ہماري غيرت نہيں مري" پھر اس نے اخبار بابے کے آگے کرديے يہ ديکھ ہر جگہ احتجاج ہورہا ہے اور بابا اس کے لہجے ميں موجود حددرجہ اطمينان پر مسکرا ديا جيسے بڑے بچوں پر مسکرادياکرتے ہيں" پتر غيرت مري نہيں مگر غيرت سو گئي ہے اگر يہ سب کچھ آج سے بيس تيس سال پہلے ہوا ہوتا تو اب يہ حال نہ ہوتا يہ ديکھو اس شہر ميں بھلا کسي کو پتا چلا کو کوئي جلوس نکلا ہے ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے تحفظ کے ليےجہاں نکلا بھي ہے وہاں لاکھوں کي آبادي سے سينکڑوں اور ہزاروں ميں نکلا ہے پتر يہ ثبوت ہے اس بات کا کہ غيرت سوگئي ہے" بابے نے دورکہيں نظريں جمائے کہا اور رشيد يہ سب سن کر پھر مرجھا سا گيا"بابا کہتا تو تُوٹھيک ہے اب مجھے ہي لے لے ميں دوکان پر بيٹھا ہي ان کو گالياں نکالتا رہا ہوں مگر ميرا حوصلہ نہيں پڑ اکہ اپنے يار دوستوں کو کوئي چھوٹا موٹا جلوس نکالنے پر رضامند کرتا"رشيد کے لہجے ميں تاسف تھا بابا پھر جيسے مسکرايا"پتر قصور تيرا بھي نہيں دوکان بند رکھے گا تو کھائے گا کيسےا ور ايسے کام کرتے ہوئے تو اپنا ہوش نہيں رہتا کاروبار کہاں ہوگا پتر يہ صديوں کي سوچ ہے جس کا نتيجہ تم آج ديکھ رہے ہو ان لوگوں نے آج سےصديوں پہلے يہ منصوبے بنائے تھے کہ مسلمانوں کو ايسے کاموں ميں الجھا دو کہ انھيں فرصت ہي نہ ملےمسلمان کيا کہيں بھي ديکھ لے ہر جگہ ہر کسي کواپني پڑي ہے اپنے کھانے کمانے کي اور اس کے بعد اپني ذات کي تفريح کي اوردنيا داري کي اس کے بعد بھلا وقت بچتا ہےکہ وہ کسي اور طرف ديکھے سارا سارا دن گدھوں کي طرح کام کاج کرنے کے بعد دو وقت کي روٹي ملتي ہے اس کے بعد بندے کا ذہن ہي اس قابل نہيں رہتا کہ کسي اور طرف دھيان دے يا سوچے پتر وہ بڑے چاتر تھے جنھوں نے يہ سب سوچا تھا اور يہ اس سے بھي بڑے چاتر ہيں جوا اس پر عمل کر رہےہيں" " بابا وہ چاتر ہيں تو ہم بھي کسي سے کم نہيں يہ ديکھ"اس نے ايک تصوير بابے کے سامنے کي"تہران ميں جيالوں نے ڈنمارک کا سفارت خانہ جلا ديا" رشيد کے لہجے ميں بيک وقت فخر اور افسوس شامل تھا"کاش يہ ہم نے بھي کيا ہوتامگر يہاں تو صرف ريلياں نکال رہے ہيں اور بس۔۔۔ اور يہ بھي ديکھ مسلمان تاجروں نے يورپي مصنوعات کے بائيکاٹ کا اعلان کرديا ہے" رشيد نے ايک اور سرخي بابے کي آنکھوں کے آگے نچائي "ميرے بھولے پتراس پر کل بات کريں گے آج مجھے کہيں جانا ہے کل تيرے سارے سوالوں کا جواب دے دوں گا" بابے علیے نے کہا اور اٹھ کر اپنا تہبند صحيح کرنے لگااگلے دن رشيد دوکان سے کام کرنے کے بعد فارغ ہوکر حسبِ وعدہ ہاتھ ميں اخبار ليےبابے علیے کے پاس پہنچ گيا دعا سلام کے بعد اس نے بڑے پرجوش لہجے ميں اسے احتجاج کے پوري دنيا ميں پھيلتے اور تہران ميں ايک اور سفارت خانے پر حملے کے بارے ميں بتايا بابا علیا بڑے دھيان سے اسے سن رہا تھا جب بات ختم کر چکا تو بولا"پتر يہ بھي تو بتا نا کہ ڈنمارک کي حکومت نے معافي کے بعد معاملہ ختم کرديا ہے اپني طرف سے مسلمانوں کے بڑوں نےانھيں پرامن رہنے کي اپيليں کرنا شروع کر دي ہيں اور کہنے والے اسے بھي انتہا پسندي کي ايک شکل قرار دے رہے ہيں" او پتر سفارت خانے اور پرچم جلانے سے کچھ نہيں ہوگا اب وہ جو چاہتے تھے انھيں حاصل ہوگيا ہے اصل بات يہ ہے کہ وہ ديکھنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں ميں ابھي کتني غيرت باقي ہے سوانھوں نے ديکھ ليا اور اس کو بھي نشےکا ٹيکہ لگانےکا بندوبست کريں گے پتر دو ہي باتيں ہوسکتي ہيں يا تو انھوں نے صرف نتيجہ ديکھنے کے ليے مسلمانوں کو چھيڑا ہےيا پھر کوئي ايسا واقعہ رونا ہونے والا ہے جس کي طرف سے وہ مسلمانوں کي توجہ بٹانا چاہتے ہيں" رشيد نے جلدي سے کہا"پر بابا يہ بھي تو ديکھ کے اب وہ ايسي حرکت دوبارہ نہيں کريں گے انھيں پتا چل گيا ہے کہ ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم پر جان قربان کر دينے والے موجود ہيں ابھي "پتر پرچم جلا دينے سے يا پاؤں تلے روندنے سے انھيں کچھ نہيں ہوگاتجارتي تعلقات منقطع کرو گے تو بھي اپنا ہي نقصان کروگے تمہاري آدھي سے زيادہ برآمدات انھي ممالک کو ہوتي ہيں ان کے بغير کيا کروگے تمہارے لوگ بھوکے مريں گے يہ بھوک بڑي ظالم شےءہے پتر اس ميں تو رب بھي بھول جاتا ہے بس يہ ياد رہتا ہےکہ ايک پاپي پيٹ لگا ہوا ہےجسے بھرنا ہے پتر وہ زمانے گئے جب آسمان سے من و سلوٰي اترا کرتا تھا اب تو کرتوت ہي ايسے نہيں کچھ کام کي چيز ہوگي تو آسمان والا بھي کرم کرے گا ناہم لوگ تو کوڑا کرکٹ ہيں پتر جو اسلام کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہيںاگر ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے تو عقل سے کام لينا ہوگا پتر“ "کيسي عقل بابا؟“ "رشيد جو بابے کي باتيں سن کر سوچ ميں پڑا ہوا تھا چونک کر بولا "پتر جذباتي ہونے سے بات نہيں بنے گي اللہ کہتا ہے نا کہ وہ مکر کرہے رہے تھے اور اللہ بھي اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے تو پتر ان کے ساتھ مکر کرنا پڑے گا يہ ہنگامے سب سرد ہوجائيں گے بڑي حد يہ ايک مہينہ اور چل جائيں گےمعافي تلافي ہوگي اور بات ختم ہو جائے گي پر بات يہ ہے کہ بات ختم نہيں ہوني چاہيے مکر کرنےوالے لوگ ہيں پتريہ کافر ہندو. يہ بات کو دل ميں چھپا ليتے ہيں پتر کِينےکو اپنے دل ميں رکھتے ہيں ہماري طرح نہيں کہ کچي پنسل مٹانے والي ربڑ کي طرح اسے سرے سے صاف کر ديا نہيں پتر يہ اس کو دل ميں رکھتے ہيں اور جب موقع ملتا ہے بھرپور وار کرتے ہيں ان سے اسي بات کو ہم نےاپنانا ہے پتر اس بات کو بھولنا نہيں دل ميں ان کا کھاتہ کھول کر ان کي طرف ادھار ميں يہ حساب درج کرلينا ہے، بول کيا يہ بات ايسي ہے کہ اسے بھول جائيں يا معافي تلافي سے سب ٹھيک ہوجائے؟؟"بات کرتے کرتے يکدم بانے علیے نے سواليہ انداز ميں رشيد کي طرف ديکھا "نہيں بابا نہں ہم کيسے بھول سکتے ہيں ہم يہ کتيا کے جنے ہمارے آخري سہارے ہمارے آقا ومولاصلي اللہ عليہ وسلم کي عزت پر حرف اٹھائيں اور ہم صرف ان کي معافي لے کر شانت ہوکر بيٹھ جائيں يہ کيسے ہوسکتاہے ہم بھلا ايسا ہونے دينگے"رشيد جيسے جوش بھرے لہجے ميں بولا "يہ ہي بات ہے پتر پر اسي ليے تو کہہ رہا ہوں کہ مکر سے کام لينا ہے ان کا حساب دل ميں لکھتے جاؤ ان کي جانب ايک ادھار کھاتہ کھول کر يہ کبھي ہمارے دوست نہيں ہوسکتےمگر اوپر سے ان کے ساتھ دوستي نبھاؤ اپنے مفادات پورے کرو جب موقع ديکھو کہ اب يہ جوتے تلے ہيں انھيں گندي نالي کے کيڑے کي طرح مسل دو يہ ہي تمہاري سوچ ہوني چاہيے اب پتر ورنہ جذباتيت چند دنوں ميں ٹھنڈي پڑ جاتي ہے اسي جذباتيت کے ہاتھوں ہم مارکھاتےہيں اس ليے ٹھنڈے ہوکر ان کے بارے ميں سوچو اور ايسا وار کروکہ صديوں تک اپنے زخموں پر بلبلاتے رہيں"

2 comments:

2/10/2006 07:40:00 AM Saqib Saud said...

خوب۔۔۔
آپ کا فیصل آباد میں کہاں سے تعلق ہے؟


میں بھی فیصل آبادی ہی ہوں مگر اب لاھور میں رہائش پزیر ہوں

2/11/2006 03:39:00 PM Shakir said...

شکریہ۔
میرا تعلق منصور آباد سے ہے جناب۔

Post a Comment