کاکا گلی میںکھیل رہا تھا جب اس کی ماںحسبِ معمول اس کو صلواتیںسناتی ہوئی ہاتھ میں بڑا سا تھیلا پکڑے گلی کی نکڑ سے برآمد ہوئی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ کاکے کی ماں فاطمہ جسے محلے والے پھاتاںکہتے تھے اس وقت کہیںنہ کہیںسے آرہی ہوتی۔ حسب عادت وہ کاکے کو گلی میں کرکٹ کھیلتے دیکھ کر وہیں اس کے لتّے لینے شروع کر دیتی۔
کاکا بھی اب اس معمول کا عادی ہوگیا تھا۔ اس لیے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا بلکہ اب تو سنتا بھی نہیںتھا اپنے دھیان کھیلنے میںلگا رہتا۔
مگر یہ کیا! آج کچھ مختلف تھا۔ آج ماں کا موڈ پہلے جیسا نہیںتھا آج کچھ زیادہ ہی سنگینی تھی۔ کاکے نے اماںکے تیور دیکھتے ہوئے کھیل چھوڑا اور اس کے ہاتھ سے بڑا سا تھیلا لینا چاہا۔
پھاتاں اتنے میںتپ چکی تھی۔ اس نے دو تین زنانہ گالیاںدیتے ہوئے اس کے ایک دھموکا جڑا اور بولی“ ہاں ہاں اب تو پکڑے گا ہی جب روتی پیٹتی گھر پہنچ گئی ہوں کم بخت پورے سترہ کا ہوجائے گا اس سال مگر ذرا ہے جو اس مرن جوگے کو عقل ہو۔ اتنا خیال نہیں کہ ماںکا پتہ ہی کر لیتا کہاںچلی گئی ہے ۔ کہیںمر ہی تو نہیںگئی۔“ گھر کی دہلیز تک آتے آتے اس کی آواز بھرّا گئی تھی اور کاکا اب اسکے ہاتھ سے تھیلا جھپٹنے میںکامیاب ہوچکا تھا۔
دڑبے نما باورچی خانے میںجاکر اس میں سے کوئی کھانے کی چیز تلاشنے لگا۔ مگر اس میںیوٹیلیٹی گھی کے دو کلو کلوکے پیکٹ اور چینی کے دو دو کلو کے دو پیکٹوںکے سوا کچھ نہ تھا۔
اتنے میں باہر کا دروازہ بجا ۔ اب کے باہر ابا تھا۔ ابے کا نام تو فردوس جمال تھا مگر اس کے منحنی سے قد،تڑکےوالےچاولوں کے پیاز جیسے رنگ اور اسامہ بن لادن مارکہ داڑھی میںکچھ بھی فردوس اور جمال والا نہ تھا۔ اس لیے محلے والے اسے جمالا کہتے تھا۔ جمالا بڑے بازار میںچھابڑی لگاتا تھا۔ صبحچار بجے اٹھ کر منڈی کو نکلتا اور سبزی خرید کر لاتا۔ پھر ٹھیلے پر سجا کر بازار کو نکل جاتا اس کی واپسی اکثر شام کو ہوتی۔ سارے دن کا تھکا ہارا جمالا اس وقت نشہ ٹوٹے ہیروئنچی کی طرحدو گھڑی کمر سیدھی کرنے کی فکر میں رہتا۔
ایسے میں اگر گھر میںپھاتاںکسی بچے کو ڈانٹرہی ہوتی تو جمالا آؤ دیکھتا نہ تاؤ جوتا اتار کر اس کی چھترول شروع کردیتا۔ اس کے بعدکابک سی بیٹھک اس کا ٹھکانا ہوتی جس میںبچھی اکلوتی چارپائی پر جب وہ گرتا تو اگلے دن صبحمنڈی جانے کے وقت اٹھتا۔
پھاتاں اس دوران اپنے نصیب کو کوستی اور اپنے بچوںکو بھی جو ہر وقت اسے ستاتے تھے ۔
اس دن بھی یہی ہوا۔ پھاتاںکا غصہ ابھی تک نہیںاترا تھا۔ پانچ چھ گھنٹوںکی خجل خواری اور لائن میں ایک گھنٹہ کھڑے ہونے کے بعد بھی جب سٹور والے نے اسے دو پیکٹ چینی سے زیادہ دینے سے انکار کردیا بلکہ ساتھ دوسرا سودا بھی لے جانے کو کہا تو اس کا پارہ ساتویںآسمان پر پہنچ گیا۔ چینی تو وہ خیر لے ہی آئی مگر کاکے کو سامنے دیکھ کر سارا غصہ اس پر نکلا۔
“کم بخت مرتا بھی نہیں۔ لوگوںکی اولاد سو سکھ دیتی ہے اور یہ لوٹھے کا لوٹھا کالج سے آکرگھرمیں پڑا رہتا ہے۔ ماںگلی محلوںمیںخجل خوار ہوتی رہے اسکی بلاجانے۔ اسے تو اپنے کھیلنے سے غرضہے۔ حرام خور یہ مفت میںجو تو اور یہ تیرے ہوتے سوتے صبحاٹھ کر چاء پاپے کھا کر جاتے ہو تمہارا باپ آسمان سے توڑ کر نہیں لاتا پانچ گھنٹے ذلیل ہونے کے بعداس کم بخت سٹور والے نے چار کلو چینی دی ہے۔اور تم اسے تین دن میں ختم کر دوگے “
اب پھاتاںکا غصہ سٹور والے کی طرف منتقل ہوگیا اس کے بعد وہ حکومت کو صلواتیںسنانے لگی
“یہ ناس پیٹاجب سے آیا ہے ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ ارے پہلے پٹرول کیا کم مہنگا تھا اب کم بخت نے چینی کو آسمان پر چڑھا دیا ہے۔ یا اللہ ہم کہاںجائیں“ اب وہ آسمان والے سے شکوہ کناںتھی
“اللہ ہی تجھے لے تیری قبر میں کیڑے پڑیںغریبوںکے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننا چاہتا ہے۔ تجھے کیا کوئی مرتا ہے مرے تجھے تو وردی کی فکر ہے“ با آوازِبلند بددعا کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا بھی لگاتی جارہی تھی۔
خیر اسی دوران کاکے کا ابا جمالا اندر داخل ہوچکا تھا۔ اس نے جب پھاتاںکو بولتے اور کاکے کو سامنے سر جھکائے بیٹھے دیکھا تو اس کا ہاتھ سیدھا جوتے کی طرف گیا۔ پتر کی عمر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے پانچ سات چھتر لگائے اور بازاری گالیاں بکتا ہوا کابک نما بیٹھک میںجاکر لیٹکر دنیا سے بے خبر ہوگیا۔
کاکا مار کھا کر اور بدلے میںنِکی کو تین چار تھپڑ لگا کر گھر سے باہر جاچکا تھا اور پھاتاںاب حکمرانوں کی بجائے جمالے اور کاکے کے ساتھ ساتھ اپنے نصیب کو بھی کوس رہی تھی جس نے ایسا اجڈ شوہر اور بے ہدائیتی اولاد اسکے پلے باندھ دی تھی۔
کاکا گھر سے نکل کر سیدھا ارشد کی طرف چلا گیا۔ ارشد اپنے گھر کی نکڑ پر کھڑا آنے جانے والیوںکو تاڑنے میںمشغول تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرایا
“ہاں بھئی شہزادے کہاںسے آرہے ہو۔ بڑے تّتے لگ رہے ہو۔ خیر ہے“ ارشد نے مسکرانے کے ساتھ نظر بازی اور سلسلہ کلام کا آغاز بھی کیا۔
“کیا بتاؤںیار۔ وہ ہی روز روز کی چخ چخاماںڈانٹ رہی تھی ابے نے یہ دیکھ کر جوتی اٹھا لی اور مجھے مفت میں۔۔“
اتنا کہہ کر کاکا ناراض سے انداز میںارشد کی نظروںکے تعاقب میںدیکھنے لگا۔
ارشد اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکا تھا۔
“شہزادے بات کیا ہوئی تھی یہ بھی تو بتا نا“
“بات کیا ہونی تھی یار اماںیوٹیلیٹی سٹور سے خجل خوار ہو کر شام کو دو پیکٹ چینی لے کر آئی تھی۔ مجھے گلی میںدیکھ کر مجھ پر برسنے لگی پھر ابا بھی آگیا آگے کا حال تو جانتاہے“
“ تو شہزادے کچھ کام شام بھی کروا دیا کر نا ماںکے ساتھ۔ چاچی پھاتاں بھی تو غلط نہیں کہتی۔ اپنا حساب صاف رکھا کر پھر مجال ہے کوئی تجھے کچھ کہے“ ارشد نے یہ کہہ کر بظاہر ایک کبوتر اصلًا ایک کالج کی وردی میںملبوس دوشیزہ کو دیکھ کر سیٹی مارتے ہوئے بات مکمل کی۔
اس دوران کاکا اس کی بات پر سوچ میںپڑ چکا تھا۔ “بات تو تیری ٹھیک ہے۔ اپنا حساب صاف رکھوں۔ تھوڑا بہت کام کروا دیا کروںماں کے ساتھ تو یہ بک بک چخ چخ ختم ہو۔“
“اب آیا نا لائن پر شہزادے ۔ اچھا بھئی ہم تو چلے ۔ ہمارا ٹائم آگیا ہے ۔اب “اسٹیشن“ تک چھوڑنے جائیںگے اسے“
ارشد یہ کہہ کر ایک بھڑکیلے سے کپڑوںمیںملبوس لڑکی کے پیچھے چل پڑا اور کاکا واپس گھر کی طرف ۔ اس کے ذہن میںارشد کی بات بیٹھ گئی تھی۔
“ہے تو اول درجے کا حرامی مگر بات پتے کی کرگیا ہے“ کاکا سوچتا ہوا جارہا تھا۔
آخر گھر پہچنے تک اس نے اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ اب کی بار اماںکو کم از کم چینی لینے نہیں جانے دے گا۔
دن پر لگاتے اڑگئے پھاتاں پھر چینی کا رونا رو رہی تھی۔
“کم بختو پانی کی طرحچینی پیتے ہو۔ اس پپو کو دیکھو اللہ مارا چینی کا ڈبہ اور پانی کا گلاس پکڑے بیٹھا رہتا ہے۔ ایک گھونٹ پانی کا اور ایک گھونٹ چینی کا۔ ارے کم بخت چینی تیرا باپ لائے وہاںگھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر“
بکتی جھکتی تھیلا اٹھائے پھاتاںدروازے سے باہر نکل رہی تھی کہ کاکے نے اس کے ہاتھ سے تھیلا جھپٹلیا۔ لا ماںمیںچینی لاتا ہوں۔ پھاتاں نے پہلے تو اس کی شکل کی طرف ایک بار غیر یقینی نظروںسے دیکھا ،کچھ کہنے کا ارادہ کیا پھر خاموشی سے اس کے ہاتھ میں روپے پکڑا دیے اور بولی
“دو پیکٹ گھی کے ساتھ لے لینا خدا غارت کرے ساتھ دوسرے سودے کے بغیر چینی ہی نہیں دیتے اور ہاںچینی کے دو پیکٹ سے کم ہرگز نہ لیجیو۔ کم بختوںنے پانچ کلو سے کم کرکے دو کلو کردی ہے چینی۔ ان پر اللہ کی مار غریبوںکو ہی لوٹیںگے جب بھی لوٹیںگے۔“
کاکا تھیلا پکڑے بڑے خوشگوار موڈ میں نظر بازی کرتا یوٹیلیٹی سٹور پہنچ گیا۔ مگر اس کا سارا خوشگوار موڈ کمو بیش سو مرد وزن کو دو قطاریںبنائے دیکھ کر بھک سے اڑ گیا۔ ابھی چینی آئی نہیںتھی اور یہ حال تھا۔
تین گھنٹوںکے طویل انتظار کے بعد آخر چینی آئی اور ایک گھنٹہ قطار میںچیونٹی کی چال میںرینگنے کے بعد باری آئی۔ بڑی مشکلوںسے وہ سودا لے کر گھر آیا تو اسے دنیا گھومتی محسوس ہورہی تھی۔
اب اسے پتا چلا تھا کہ ماںکیوںچیختی چلاتی اور غصے میںبھری رہتی ہے۔ اس طرحذلیل ہو کر سودا لینے سے یہ حال ہی ہوسکتا تھا کسی کا۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کاکا پھر ارشد کی طرف رواںتھا۔ اس کے خیال میںشاید اس کی یوٹیلیٹی سٹور پر کوئی واقفیت نکل آتی تو اتنا ذلیل نہ ہونا پڑتا۔
ارشد حسب معمول نکڑ پر کھڑا لڑکیاںتاڑنے میںمشغول تھا۔ کاکے کو آتا دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر وہی یارباش مسکراہٹ چمکی۔
“کیوں بھئی شہزادے کیا آج پھر واٹلگی ہے“
“ہاںاستاد آج پھر واٹ لگی ہے۔ اَبّے ہاتھوںنہیں۔ چینی کے ہاتھوں۔“
پھر کاکے نے اسے سب کچھ بتادیا۔
ارشد یہ سب سن کر ہنس پڑا“شہزادے ایسے ہی ہو گااب۔ سنا ہے سال بھر رہے گا ایسے ہی۔شہزادے ذرا ہمت کر اب یہ تو کرنا ہی ہوگا۔“
“یار ارشد کوئی واقفیت لگا نا اپنے محلے کے یوٹیلیٹی سٹور میں۔ چل مجھے ہی دے دیا کرے چینی۔اتنا وقت کہاںتو تو جانتا ہے کہ کرکٹ اور پھر کچھ پڑھنا بھی ہوتا ہے اتنا وقت کیسے برباد کروں چار کلو چینی کے لیے“
یہ سن کر ارشد ہنس پڑا“شہزادے یہ بھوتنی کے ایسے موقعوں پر اپنے باپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔واقفیت سے کچھ نہیںبنے گا“
“تو کوئی ترکیب نکال نا پھر“ کاکے نے منت بھرے لہجے میںکہا۔
ارشد نے کان میں خارش کی،دو تین لڑکیوںکو دیکھ کر سیٹی ماری پھر یکلخت زور زور سے ہنسنے لگا
“کیا ہوا؟ نہیںکوئی ترکیب بتانی تو مذاق کیوںاڑاتے ہو“ کاکے نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
“ارے شہزادے ناراضنہ ہو۔ تیرا کام ہوسکتاہے پر ترکیب ایسی سوجھی ہے کہ ہنسی آگئی“ ارشد جلدی سے بولا
“کیا ترکیب ہے بتا نا؟“ کاکا بے تابی سے بولا
جب ارشدنے ترکیب بتائی تو ایک بار کاکے کے چہرے کارنگ بھی بدل گیا۔ مگر پھر اِدھر اُدھر کی باتیںکرکے گھر لوٹ آیا۔
گزرتے دنوںکے ساتھ اس کے ذہن میںخیال مضبوط ہوتا گیا اگر چہ ترکیب بڑی ہودہ تھی تاہم قابل عمل بھی ہوسکتی تھی۔ کاکے نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر چند دنوںبعد وہی منظر تھا۔ سو کے قریب مردوزن قطار میںلگے چینی آنےکا انتظار کررہے تھے۔ دفعتًا ایک زنخہ کولھے مٹکاتا ایک طرف سے آیا اور ایک تیسری قطار بنانے کے لیے لوگوں لڑنے لگا۔۔۔۔۔
1 comments:
بہت عمدہ ہے
Post a Comment