امجد اسلام امجد کہتا ہے:
محبت ایسا دریا ہے کہ بارش
روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیںہوتا
محبت عجب لفظ ہے اور اس سے زیادہ عجب عمل۔ محبت کیا ہے۔ کیا کسی نے جانا کہ محبت کیا ہے؟ محبت کوئی نہ نہ جان سکا۔ کوئی جان گیا تو بیان نہ کرسکا۔ محبت ہر کسی کے لیے ایک مختلف چیز۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھیں تو محبت یہ ہے کہ بس اللہ ہی اللہ ہو۔ ہر طرف اسی کا پرتو لگے ہر عمل اسی کے لیے ہو۔ اس کے عشق میں تھیا تھیا کرتے زندگی گزر جائے۔
ابوبکر،عمر،عثمان و علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کو دیکھو تو محبت حبِ رسول ص ہے۔اللہ کے رسول ص کے عشق میں اپنا سب کچھ قربان کردو۔ اپنا گھر بار،اپنی جان تک۔
عجب چیز ہے یہ محبت ۔ کسی کو کنارے لگا دیا اور کسی کو سولی چڑھوا دیا۔
لیکن ٹھہریے محبت کی بھی قسمیں ہیں۔ جو محبت بیان کی گئی ہے یہ محبت وہ محبت نہیں جو ہم آپ سوچتے ہیں محسوس کرتے ہیں۔ یہ محبت کسی کسی کو ہی نصیب ہوئی ہے۔اللہ سے محبت اور اس کے نبی ص سے محبت نصیب والوں کو ملتی ہے۔
ایک محبت وہ بھی ہے جسے دنیا عشق مجازی کے نام سے جانتی ہے۔عشق کیا ہے۔ محبت جب بے خود ہو جائے تو عشق بن جاتی ہے۔اور عشق مجاز کے روپ میں جلوہ گر ہو یا حقیقت کے۔ عشق تو عشق ہے۔ عشق پھر چناب کی لہریں اور کچا گھڑا نہیں دیکھتا، عشق پھر سولی اور کفر کے فتوے نہیں دیکھتا۔مجاز پر لوگوں نے بہت لکھا مگر ہمارا مقصد حقیقت کے عشق سے ہے۔
عشق دیوانہ کردیتا ہے۔اسی لیے ہوشمند پناہ مانگتے ہیں عشق سے۔پی کر سنبھلنے کا ظرف کسی کسی کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے ہوشمندوں نے ہر زمانے میں عشق کو برا جانا۔
محمد ص کا ظرف کسی کے پاس نہیں اور نہ کبھی ہوگا۔ اللہ کے عشق میں پور پور غرق اور اپنے امتیوں کے لیے ایک مثال بھی۔ دیکھو انھوں نے اللہ سے عشق کیا اور ایک کامل انسان ہونے کا مظاہرہ بھی کیا۔
ان کے بعد جب دل جلوں نے اس راہ عشق پر قدم رکھنا چاہے تو کسی کے پر جل گئے،کوئی ہوش خرد سے بے گانہ ہوگیا اور کسی نے انا الحق کا نعرہ لگایا۔مگر عشق کہاں باز آتا ہے، خار تھے،راستے دشوار تھے، مگر عشاق پھر بھی نہ باز آئے۔
عشق کا اپنا ہی مزہ ہے، جس کے منہ کو اس کی چاٹ لگ جائے اس کے لیے دنیا بے معنی ہوجاتی ہے۔محبوب کا وصال ہی اس کے لیے سب کچھ ہوتا ہے،کھانا، پینا سونا جاگنا۔
اپنا آپ وار کر بھی وہ خود کو نفع میں محسوس کرتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں ہی جنت پا لیتے ہیں۔ میرے آپ جیسے جنت کی تلاش میں نمازیں پڑھتے،سجدے کرتے،گوڈے پیشانیاں سیاہ کرتے رہ جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ بازی لے جاتے ہیں۔
مگر کیوں؟؟
عشق ہم بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارا عشق دنیا ہے،جنت ہے جنت میں ملنے والی ستر ستر حوریں ہیں۔ ہم اس لیے اس کے سامنے ماتھا رگڑتے ہیں کہ ہمیں کاروبار میں وسعت مل جائے،ہماری پریشانیاں ختم ہوجائیں،یا پھر ہمیں آخرت کی اچھی زندگی نصیب ہوجائے۔جنت اور جنت کی نعمتیں ہمارے پیش نظر ہوتی ہے، جن کے پس منظر میں ان کا پیدا کرنے والا اوجھل ہوجاتا ہے۔
مذہب عشق میں اس کے ساتھ کسی کو جنت کی خواہش کو،جہنم سے ڈر کو، دنیا کے فائدوں کو لانا شرک ہے۔عشق یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کیوں وہ تو بس یہ دیکھتا ہےکہ یہ ہے اور اسے اس نے پیدا کیا ہے۔بلھے شاہ کہتا ہے:
نہ میں پاکاں وچ پلیداں
نہ میں موسٰی نہ فرعون
بلھیا کی جاناں میںکون
عشق کیا جانے وہ کون ہے،وہ کونسا ہوشمند ہے جو حساب کتاب جوڑتا پھرے۔اسے تو بس محبوب سے غرض ہے، روکھی مل گئی اس نے کھالی،مرغ مسلم مل گیا اس نے کھا لیا۔کچھ نہ ملا تو دیدار محبوب سے لذت حاصل کرلی۔کسی عاشق کو بخار چڑھ گیا۔ بارگاہ محبوب میں عرض کی یاباری تعالٰی بخار بہت تنگ کرتا ہے اگر اتر جائے تو ۔۔۔ ۔
جواب آیا: بندہ ہمارا اور بخار بھی ہمارا تو کون ہے بولنے والا۔
عشق میں پھوں پھاں نہیں چلتی، کیوں،کیا کیسے عشق کرنے والے نہیں جانتے۔ وہ حساب نہیں لگاتے کہ یہ کام کیا تو اتنا ثواب ملے گا۔یہ کام کیا تو اتنی نیکیاں ڈپازٹ ہوجائیں گی ۔آج کی نمازیں پوری ہوگئیں یعنی فرض ادا ہوگیا۔
یعنی نماز نہ ہوئی بیلنس شیٹ کا حساب کتاب ہوگیا۔
صاحبو ہوشمند نہیں جھلے بن جاؤ۔ اسی میں فائدہ ہے۔عشق میں غرق ہوجاؤ اپنا آپ اس کے سامنے مار دو۔ اسے پا لو گے جس نے اسے پا لیا اس نے سب کچھ پا لیا۔عبادت کرو تو صلہ نہ مانگو تمھاری ہماری کیا مجال کہ کچھ مانگ سکییں۔ ہاں اس کی رحمت،فضل اور کرم مانگو۔ نہیں یہ بھی نہیں اس سے مانگو مولا تو ہمیں مل جا۔ جب وہ مل گیا تو سب مل جائے گا۔
دعا ہے کہ ہمیں ایسی نمازیں اور عبادت نصیب ہوجائے جس کے بارے میں ارشاد کا مفہوم یہ ہے:
“احسان یہ ہے کہ تو اللہ کو دیکھے ورنہ یہ محسوس کرے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“
اگر
آپ پاکستان سے بلاگ تک رسائی نہیں حاصلکرسکتے تو یہ ربط استعمال
0 comments:
Post a Comment