شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

قبرُو

شہرمیں وہ رات بہت بھیانک تھی جب بڑے قبرستان میں ایک قبر کے پاس دینو گورکن کو وہ بچہ ملا تھا۔ کسی کے گناہ کی نشانی تھا یا کسی غریب کا پالنے والے سے شکوہ دینو نے اسے اولاد سمجھ کر گلے سے لگا لیا۔ دینو ان پڑھ تھا نا کوئی نام نہ سوجھا تو اس کا نام قبرُو ہی رکھ دیا دینو کے سارے بچے حتٰی کہ ماں جسے وہ بھی ماں ہی کہتا اسے قبرُو ہی کہتی تھی۔ قبرو دینو کے دوسرے بچوں کے ساتھ پلابڑھا۔ اسے ان لوگوں سے زیادہ نواز دیا گیا تھا جو اس کے ارد گرد تھے۔ گورکن کا تو کام ہوتا ہےقبر کھودنا اوربس۔ اور کیا پر دینو قبر کھودتا اور قبرو اسکے بعد جنازے کے ساتھ آنے والوں کے چہرے کھودتا اور کھوجتا۔ ایک چیز جو اسے سب میں مشترک ملتی وہ عجیب سا ڈر تھا۔ خوف ساتھا۔ سب میت کو دفن کر کے ایسے بھاگتے جیسے پیچھے کتے لگے ہوں۔ قبرو کے خیال میں کتے ہی ایسی چیز تھے جو بھاگنے پر مجبور کر سکتے تھے خود اس سے قبرستان کے کتوں نے کئی بار دغا کیا تھا پہچاننے کے باوجود اسکے پیچھے دوڑتے جس سے وہ ڈرجاتا۔ اس کے خیال میں لوگ بھی شاید اسی قسم کی کسی وجہ سے ڈرتے ہونگے۔ ایک دن اس نےدینو سے پوچھ ہی لیا “ابا! یہ سب لوگ جو جنازے کے ساتھ آتے ہیں اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہوتے ہیں“ دینو ششد رہ گیا۔ اتنا سا بچہ اور مشاہدہ اس نے ٹالنے کی کوشش کی پر قبرو اپنی ہٹ کا پکا تھا۔ جان کو آگیا تو دینو گورکن کو بتانا پڑا کہ لوگ قبرستان کے کتوں سے نہیں موت سے ڈرتے ہیں۔ “پت موت بڑی ظالم شے ہے۔ بڑے بڑے اسکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتےہیں“ دینو حقے کے کش لگاتے ہوئی کسی گہری سوچ سے بولاتھا۔ اور قبرو کی چھوٹی سے دنیا میں بھونچال آگیا تھا۔ موت؟ کیا موت بھی کوئی چیز ہے موت کیا ہے ابا۔ پھر دینو نے اسے بتایا موت کامطلب ہے سب ختم اور پھر قبر ۔دینو کی باتوں سے قبرو جان گیا کہ لوگ ڈرتے ہیں موت سے اور موت کی ان نشانیوں سے جنھیں قبریں کہتے ہیں۔ “پرمجھےکبھی کسی قبر نے کچھ نہیں کہا“ قبرو حیرت سے سوچ رہا تھا وہ تو بڑے پیر سائیں کی کچی قبر جس پر جھنڈے لگ ہوئے تھے سے اکثر گھنٹوں باتیں کرتا رہتا تھا۔ اسے تو ایسے لگتا جیسے اس کی باتوں کا جواب بھی دیا جا رہا ہو۔ “پریہ لوگ کیوں ڈرتے ہیں۔“ وہ پھر سوچنے لگا۔ مگر اس کا ذہن اس کو مطمئن نہ کرسکا۔ وقت گرزتا گیا اور دینو بھی قبر میں چلا گیا اب گورکنی کا کام اس کے بڑے بیٹے نے سنبھال لیا تھا۔ قبرو کے ساتھ وہ اب بھی ویسے ہی تھے جیسے دینو کی زندگی میں ۔ مگر قبرو کا دل اب آلنے سے اڑنے کو کرنے لگا تھا۔ شاید ان قبروں سے اکتا گیا تھا۔ بڑا قبرستان جہاں ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں حد نگاہ تک قبریں اب ان قبروں سے اس کی دوستی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ پھر ایک دن قبرو نے اڈاری ماری اور بڑے قبرستان کو چھوڑ دیا۔ جب وہ اپنی چھوٹی سے دنیا سے باہر نکلا تو حیران رہ گیا دنیا میں یہ سب بھی ہے ۔ اس نے حیرت سے سوچا اتنے سارے لوگ اور عجیب عجیب سی سواریاں۔ قبرو حیران تو ہوا مگر سیکھنے بھی لگا۔ قبرو دنیاکے طور طریقے سیکھ گیا مگر ایک بات نہ سیکھ سکا ۔ اس کے خیال میں یہاں بھی سب اسکے دوست تھے جیسے بڑے قبرستان میں تھے بڑے پیر جی ، انکے مرید اور وہ ایک منے کی قبر۔ سب دنیا والے اس کی نظر میں ایسے ہی تھے۔ مگر جب ایک جیب کترے کے جرم میں اسے جیل ہوئی تو وہ حیران رہ گیا۔ “یہ سب بھی ہوتاہے ؟“ وہ تو معصوم تھا اس نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا جیب کترا تو نکل گیا تھا وہ تو میٹھی باتوں کے جال میں آگیا اس کے خیال میں یہ بھی اس کا دوست بن گیا تھا یہی وجہ تھی جب بس میں ایک مسافر نے شور مچایا “میری پونجی“ اور ایک خوش پوش سے لڑکا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑا کر بولا “دوست ذرا پکڑنا“تو وہ خوشی سے پھول گیا یہاں بھی ایک دوست بن گیا۔ مگر بعد میں اسے جیب کترنے کے الزام میں مار بھی ملی اور پھر جیل۔ جیل سے نکلا تو قبرو پھر اپنے آلنے کی طرف اڑا۔ دنیا والے قبروں سے خوف کھاتے تھے مگر قبرو اب دنیا والوں سے خوف کھانے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی پیر سائیں کی قبر کے پاس بیٹھ کر ڈھیروں رویا تھا۔انھیں سب سناتا رہا ان دنوں اسکے ساتھ جو بیتی تھی اور جب وہ خاموش ہوگیا تو جیسے پیر سائیں کی قبر سے جواب آیا تھا۔ “پتر! یہ موت اور قبر سے نہیں اپنی بد اعمالیوں اور اپنے اندر سے ڈرتے ہیں۔ یہاں آئیں گے تو ان کا سارا کچہ چٹھہ کھل جائے گا اس لیے ڈرتے ہیں منہ چھپاتے ہیں۔ پر کب تک! کب تک منہ چھپائیں گے لانے والا لے آتا ہے چاہے یہ ہزار نہ نہ کریں سب نے یہیں آنا ہے پتر۔یہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں قبروں سے نہیں وہ تواستعارہ ہے ایک نشانی ہے جس کو انھوں نے خود پر طاری کر لیاہے اپنے آپ سے تو نہیں ڈر سکتے نا اس لیے انھوں نے اپنی میں پر قبر کا پردہ ڈال لیا ہے۔“