صبح کا وقت تھا۔میں اپنے روزمرہ کام کے سلسلے میں جارہا تھا۔ابھی محلے میں ہی تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی گلی کے سامنے دو بابے لڑ
رہے تھے۔
میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے وہ بزرگ ۔
میرے کانوں میں صرف اتنا پڑا کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: “چل وہابی۔۔۔” آگے ایک نحس
جانور کا نام ہے مگر میں اسے دوہرانا نہیں چاہتا۔عقلمند را اشارہ است۔میرے دوست سمجھ گئے ہونگے۔
خیر وہ بات تو ختم ہوگئی تو ختم ہوگئی مگر میرے جیسے فاسق و فاجر کے لیے ہزاروں سوال چھوڑ گئی۔وقت گزر جاتا ہے۔خیر وقت گزر گیا جمعہ کے دن ہمارے مولوی صاحب نے صفیں درست کرتے ہوئے ایک مسئلہ سنایا اور سمجھیے کہ پھر سے اس واقعے کو تازہ کردیا۔
مولوی صاحب فرما رہے تھے:” امام کے قریب اگلی صفوں میں کھڑے ہونے کا حق ان لوگوں کے پاس ہے
جو باشرع ہوں“۔
باشرع ہونے کو تو آپ جانتے ہیں نا۔ آج کل معیار ہے کہ فٹ بھر لمبی ڈاڑھی، شلوار گٹوں سے اونچی،ہاتھ میں تسبیح جو ہر وقت چلتی رہے چاہے چغلی ہی کیوں نہ کی جارہی ہوکسی سے،شلوار قمیض کی جگہ اگر کرتا شلوار ہو تو مزید باشرع ہونے کی سند مل جاٰئے گی آپ کو۔
مگر یہ سب سن کر مجھے جو خیال آیا وہ وہی واقعہ تھا جس کا ذکر میں شروع میں کرچکا ہوں۔دو بزرگ جو صبح کے وقت جب کہ فجر کا وقت بھی شاید ابھی باقی تھا،پرندے اپنے رب کی حمد و ثنا میں مصروف تھے اور وہ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ظاہر ہے"اسلام“کی خاطر ہی لڑرہے ہونگے۔اور ایک نے دوسرے کو گالی دی تھی ساتھ ہی اس کے مسلک کا ایسے لیا تھا جیسے ہندوؤں میں شودر کا نام برہمن حقارت سے لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔میرے سامنے ان کی فٹ فٹ بھر لمبی ڈاڑھیاں جھولنے لگتی ہیں، ان کا باشرع حلیہ میری آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتا ہے اگر سنت رسول پر عمل کرکے انسان اتنا شقی القلب ہوجاتا ہے تو میں باز آیا ایسے کسی بھی عمل سے۔
مگر ٹھہریے کیا میرے اور آپ کے نبیؐ سائیں جن کے ہم نام لیوا ہیں کیا ان کی سنت ان کی سیرت ان کا عمل ان کا کردار یہ ہی تھا۔کیا ان کے صحابہ بھی اسی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑا کرتے تھے جیسے آج یہ ”باشرع” لوگ ایک دوسر ے کو کرتے ہیں۔
اگر نہیں تو کیوں یہ سب،کیوں ہر جگہ ان کی اجارہ داری ہے۔کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے انھوں نے اسلام کا؟؟ کیا اسلام ان کی وجہ سے چل رہا ہے؟؟ کیا یہ اللہ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں؟؟ کیا باشرع ہونے سے ان کو مسلمان ہونے کی سند جاری ہوگئی ہے کہ جاؤ جو مرضی کرو؟؟؟
اگر نہیں تو پھر کب تلک یہ ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے آخر سحر کب ہوگی۔
2 comments:
برادرِ محترم ،
میں فی الحال اس پوسٹ پر کچھ تبصرہ کرنا چاہوں گا ۔۔۔
بات “ باشرع“ ہونے سے نکلی ہے۔
ایک چھوٹی سے چھوٹی سنت پر اگر کوئی عمل کرتا ہے تو وہ یقیناََ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع کرتا ہے۔
اور آپ کو تو پتا ہوگا کہ قرآن کریم میں جا بجا “ اتباعِ رسول “ کا حکم دیا گیا ہے۔
اگر کوئی ایک سنت پر عمل کرے ، مثلاََ لمبی سی داڑھی چھوڑ لے اور باقی دسیوں خلافِ سنت حرکتیں کرے تو ۔۔۔
تو ۔۔۔ ہماری آپ کی نظر میں ہمارا کیا ردعمل ہونا چاھئے ؟
یہ عموماََ ہمارے آزاد منش معاشرے کا (خودساختہ) اصول سا بن گیا ہے کہ لوگ آج کل اس طرح کے جملے داغنے لگے ہیں ؛
" اتنی لمبی لمبی داڑھی اور کام دیکھو شیطانوں کے ، میں باز آیا ایسے باشرع رہنے سے ۔۔۔ "
غور کیجئے کہ ہر چند نادانستگی میں سہی ، مگر کیا یہ اُس مبارک داڑھی کی بھی توہین نہیں جو رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر بھی موجود تھی ؟؟
اعتراض اگر کسی کے غلط رویے پر کرنا ہو تو “ غلط رویے “ کو ہی نشانہ بنانا چاھئے ، “ مثبت نکتے “ کو درمیان میں لانا غیر ضروری ہے ۔
شریعت میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہے کہ عملِ خیر کریں تو وہ سارے نیک کام انجام دیں جس کا حکم ہے ورنہ کسی بھی نیک کام کو ہاتھ نہ لگائیں ۔ نماز صرف اسی صورت میں پڑھیں جب آپ روزہ بھی رکھتے ہوں اور زکوٰہ بھی نکالتے ہوں ۔۔۔ ورنہ نماز پڑھنا غیرضروری ہے ۔۔۔
بتائیے کیا ایسی سوچ ، غیر دانستہ طور پر ، مسلمانوں کو دین سے مزید دوری کی سمت نہیں لے جاتی ؟؟
----------------
امید کہ عقلمند دوست احباب کو اتنا اشارہ بھی کافی ہوگا۔
وما علینا الا البلاغ
میرے محترم آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ ان لوگوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ داڑھی رکھنا دعوائے حب رسول صلیہ اللیہ علیہ وسلم ہے۔ اپنے اوپر حب رسول کا تاج بھی سجاتے ہیں اور یہ سب بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post a Comment