شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

غیروں کی مشابہت : خبردار ہوشیار اس سے بچو

غیروں کی مشابہت سے بچیں۔ جی ہاں بالکل ایسا کریں۔ اب دیکھیں نا غیر انٹیل کے پی سی استعمال کرتےہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کو استعمال نہ کریں۔ نہیں کرسکتے؟؟ چلیں ایسا کریں جہاں سٹکر لگا ہوتا ہے "انٹیل انسائڈ" وہاں پر "ساختہ پاکستان " کا سٹکر لگا دیں۔ جہاں بھی انگریزی میں کچھ پرنٹ ہوا ہو اسے چھری سے کھرچ دیں۔ اس طرح آپ یقینًا غیروں کی مشابہت سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ٹھہریے ۔ یہ سب کچھ تو غیر بھی استعمال کرتے ہیں بھئی ونڈوز وغیرہ ۔ تو ان کی مشابہت سے بھی بچیں ۔ غیر لائسنس لے کر اور پیسے لگا کر اسے خریدتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ونڈوز کے چوری شدہ ورژن خریدیں جو سستے بھی مل جاتے ہیں۔ اس طرح آپ یقینًا غیروں کی مشابہت سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ سب استعمال ہی کیوں کریں۔ کمپیوٹر غیروں کی ایجاد، سافٹ ویرز ان کی ایجاد۔ اس طرح تو ہم غیروں سے مشابہہ ہورہے ہیں۔ اس لیے اٹھیں اپنے پی سی کو بند کریں اور اٹھا کر گلی میں پھینک دیں۔ مبارک ہو آپ غیروں کی مشابہت سے بچ گئے۔ آپ فلاح پانے والوں میں سے ہوگئے۔ ارے یہ کیا آپ ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔ چاہے اس پر کیو ٹی وی اور پیس ٹی وی ہی دیکھتےہیں۔ چلیں چلیں اسے بھی اٹھائیں اور گلی میں پھینکیں۔ بھئی یہ بھی غیروں کی مشابہت ہے۔ یہ جو نادان لوگ ہر وقت ان چینلوں پر بولتے رہتے ہیں یہ تو منافق ہیں۔ سچے مسلمان تو ہم ہیں جو ہر لحظہ غیروں کی مشابہت سے بچنا چاہتے ہیں۔ ارے آپ موٹر سائیکل چلا رہے ہیں؟؟ اسے ون ویل پر چلائیں ورنہ اتریں اس سے ۔اتریں اتریں ۔ آگ لگائیں کمبخت کو یہ تو غیروں کی مشابہت ہوگئی۔ بھئی ہمیں منع کیا گیا ہے اس سے۔ ہاں جی بالکل کوئی دن ون بھی نہیں منانا ہم نے۔ آخر جی غیروں کی مشابہت ہے یہ۔ کوئی یوم آزادی اور 14 اگست نہیں آگے سے ۔ منانا ہے؟؟ چلیں ہم ان کی طرح نہیں مناتے۔ غیر تو اپنے ان دنوں میں عہد کرتے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں گے اپنے جذبے تازہ کرتے ہیں۔ہمیں کیا۔ ہمیں کونسا حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ ہم تو ایسے اپنا دن نہیں منائیں گے۔ ہم تو گھوڑے تیار رکھنے کا عزم نہیں کریں گے۔ بھئی ہم مسلمان ہیں ہمیں ان دنوں سے کیا۔ ہمیں جذبہ تازہ کرنے سے کیا۔ہم تو ویسے ہی بھرے بیٹھے ہیں۔ اپنے آپ پر،اپنے ملک پر اور اپنوں پر۔ ہمیں ان دنوں سے کیا۔ ہم تو اسے اور ہی طرح منائیں گے۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکلوا کر، بتیاں لگا کر، اونچی آواز میں کار میں گانے چلا کر اور ٹی وی دیکھ کر اور حکومت کو گالیاں دے کر ہم یہ دن منائیں گے۔ یہ غیروں کی مشابہت تھوڑا ہوئی۔ یہ تو شیطان کی مشابہت بھی نہیں اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ لیکن ہمیں تو غیروں کی مشابہت سے بچنا ہے ناں۔ سو ٹھیک ہے۔ تو صاحبو ٹوٹ پڑو ہر اس چیز پر جو غیروں سے مشابہہ ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی چیز اچھی ہے یا بری ہمیں صرف اتنا پتا ہے کہ ہمیں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ ہمیں کونسا اچھی چیز اختیار کرلینے کا حکم ہے۔ مٹا دیں ہر وہ نقش جو غیروں سے ملتا جلتا ہوں۔ ہمیں اپنی الگ دنیا بسانی ہے۔ ان سب کافروں سے الگ۔ ان بے دینوں ملحدوں سے الگ۔ ہمیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دنیا الگ بسانی ہے ان سے ۔ دیواریں کھڑی کردو، منہ موڑ لو ہمیں ان سب سے بچنا ہے کہیں انجانے میں ان کی مشابہت نہ ہوجائے۔ عقلمند را اشارہ است۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جشن آزادی کے موقع پر

جشن آزادی کے موقع پر مجھے اپنا ہی لکھا ہوا ایک مضمون یاد آگیا۔ وہی دوبارہ پیش کررہا ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ اس مملکت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دے۔ اور تمام اہل وطن کو جشن آزادی مبارک۔ مجھےپاکستان سے کبھی اتنی الفت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ کو اس کا پس منظر بتاتا ہوں۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی گزرے رمضان کی بات ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا:شاکر مجھے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش خریدنا ہے اپنے لائبریرین سے کہہ کر منگوا دو میں عید پر گھر آیا تو لے جاؤں گا۔ میں نے حسب وعدہ کتاب وقت مقرر سے پہلے منگوا کر رکھ لی۔ میں ازلی کتابوں کا بھوکا۔ ایک کتاب سامنے پڑی ہو اور اسے پڑہوں نا چناچہ میں نے ایک یا دو نشستوں میں وہ ساری کتاب چاٹ ڈالی۔ اس سے پہلے میں نے ممتاز مفتی کو کبھی نہیں پڑھا تھا۔ کبھی کبھار رسالوں میں ڈائجسٹوں میں اس کی تحریروں سے اقتباسات چھپتے رہتے تھے. میں اسے صوفی ٹائپ بندہ سمجھتا تھا۔ یہ کتاب پڑھی تو پتا لگا یہ بندہ تو مولویوں کے خلاف ہے۔ مولویوں کی مخالفت ہر نوجوان کی طرح میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ اقتباسات اپنے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں۔ اللہ کو حلق کے نچلے پردوں سے اس طرح نکالتے ہیں کہ اللہ ہا بن جاتا ہے۔ جیسے ان کا اللہ ہمارے اللہ سے مختلف ہو جیسے اس نے سر پر بھاری ": "سا جبہ دستار اور یہ بڑی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہو میں بہت ہنسا تھا اس کے اللہ کو اللہ ہا کہنے پر ۔ پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اس بات پر مولاناؤں کی محافل میں بیٹھتا تھا یہ سب سنتا بھی تھا مگر کسی نے اتنی جرأت کبھی نہیں دکھائی تھی۔ میں نے سوچا بندہ یہ اپنی برادری کا لگتا ہے اسے پڑھنا چاہیے۔ میں نے اگلے دن ہی اپنے لائبریرین سے ممتاز مفتی کی کتابوں کی فرمائش کر دی۔ ایک دوافسانوں کے مجموعے پڑھے،اچھا لکھا تھا نفسیات موضوعِ بحث ہوتی تھی مگر وہ چیز نہیں جو میں چاہتا تھا۔ میں تو اس بات کہ تلاش میں تھا کہ یہ بابوں ،مولویوں اور اسلام کی بات چھیڑے۔ پھر میرے لائبریرین نے مجھے علی پور کا ایلی پڑھنے کے لیے دی۔ اس میں بابوں کا کچھ ذکر تھا۔ پڑھ تو میں نے لی مگر اس نے میرے کئی طبق روشن کردیے۔خصوصٌٌا عورتوں کے بارے میں مفتی کے مشاہدات اور ارشادات۔ یہ سب بھی پہلی بار سنا تھا۔ خیر اسی ناول میں پہلی بار میں نے شعوری طور پر نصاب سے ہٹ کر تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا۔ اس بارے میں مفتی کے مشاہدات جانے :اورپھر جیسے جیسے ان پر سوچا یقین کیجیے مجھے ان سے ایک فیصد بھی اختلاف محسوس نہ ہوا۔ مفتی کہتا ہے ہندو بڑی شائستہ قوم ہیں۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اچھے انسان ہیں اور کاروباری تو بہت ہی اچھے ہیں ۔مگران کو جب بھی موقع ملے یہ مسلمانوں کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی اس خوبی کا میں معترف ہوں کہ انتقام کو ہماری طرح ایک ہی بار ظاہر نہیں کر دیتے اسے دل میں چھپا کر رکھتے ہیں سینت سینت کر پھر جب موقع ملتا ہے تو مسلمانوں پر کاری وار کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔آل انڈیا کانگرس کی کمیٹی کی قرار داد کے وہ الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں :یہ کہا گیا ہے کہ انڈیا جیسا ہے جہاں ہے ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اور اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے اسکی اصل کی طرف لوٹائیں۔ پھر مفتی چھرا بازی کے واقعات بارے سناتا ہے جو اس جیسے برائے نام مسلمان کے اندر کو بھی جنجھوڑ دیتے ہیں اور اسےیہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ اسی طرح ناول میں کچھ بابوں کا بھی ذکر ہے۔ دلی کے حاجی صاحب اور پاگ بابا۔ اور پھر بڈھا جو مفتی کا انتظار کر رہا ہے۔جس کے بارے میں پاگ بابا اسے بتاتا ہے۔ اس کے بعد مفتی کی آپ بیتی کا دوسرا حصہ الکھ نگری پڑھی اور یہاں سے پاکستان کے بارے میں میری سوچ میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ الکھ نگری تھوڑی سی مفتی نامہ اور باقی پاکستان نامہ اور پاکستان کے حوالے سے بابے نامہ اور شہاب نامہ ہے۔ مفتی الکھ نگری میں پاکستان اور قدرت اللہ شہاب کے گرد ناچتا ہے دیوانہ وار ناچتا ہے لوگوں کو بتاتا ہے دیکھو یہ جو پاکستان نظر آرہا ہے یہ ایسے ہی نہیں ہو گیا اس کے پیچھے بڑے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ مفتی کو بڈھا مل جاتا ہے۔جسے وہ مرشد تو نہیں بناتا مگر اس کااحترام ضرور کرنے لگتا ہے۔ مفتی جیسا اڑیل احترام بھی ڈنڈے کھا کر کرتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ بابا اس پر رونا مسلط کر دیتا ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے چلتے پھرتے مفتی بھوں بھوں کر کے رونا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے بندے کے ہاتھوں وقوع پذیر ہو رہا ہے جو اس دنیا میں موجود نہیں آخر مفتی ہار مان لیتا ہےاور بابے کےحلقے میں شامل ہوجاتاہے۔ پھر مفتی کو پاکستان بارے کئی باتوں کا پتا چلتاہے۔ جیسے بھائی جان جو کہ بڈھے کے مرید خاص ہیں اسے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے منصوبے کے روحانی طور پر چیف کوآرڈینیٹر بابا جی تھے۔ انھوں نے ریاست دکن کے نواب کو پیغام بھیجا تھا کہ آؤ تمہیں ایک اسلام ریاست کا وزیراعظم بنا دیں۔ پھر یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سے زیر عمل لایا گیا۔ مفتی ایک دن بیٹھے بیٹھے بھائی جان سے پوچھ لیتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا تو اسے بتایا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دے اس کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں۔ وہ بس یہ خیال رکھے کہ کوئی کام ایسا تو نہیں کر رہا جس سے پاکستان کو نقصان پہچنے کا احتمال ہے۔ یہاں سے مجھے پتا چلا کہ پاکستان کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں ۔ پھر میں بھی مفتی کی طرح پاکستان کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ مجھے اس سے محبت تو پہلے سے ہی تھی مگر اب کچھ اور قسم کی ہے۔ کیونکہ میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے محبت ہے اس لیے مجھے بھی اس سے محبت ہے۔ میں جب یہ سوچتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے پاکستان کو بنانے کا اذن ملا تھا تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جسے وہاں سے اجازت مل جائے اسے کیا چاہیے۔ خیر ذکر مفتی کا ہو رہا تھا تو اسی طرح چلتے چلتے مفتی شہاب کو داستان میں گھسیٹ لیتا ہے۔ بڈھا،بھائی جان اور بڑی بڑی ہستیاں قدرت اللہ شہاب کا ذکر احترام سے کرتی ہیں۔اور پھر مفتی قدرت اللہ شہاب کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔پاکستان سے تو اسے محبت تھی ہی اور یہ محبت شہاب کے توسط سے دوہری ہوجاتی ہے۔ پھر اسی دوران اس پر کئ انکشافات ہوتے ہیں ۔پاکستان کی ترقی بارے،پاکستان کی عظمت بارے اور وہ اپنی تحریروں میں جابجا پاکستان کا ذکر اس طرح کرتا ہے جیسےپاکستان کوئی بزرگ ہے۔ صاحبو سچ پوچھو تو مفتی کی ان ہی تحریروں نے میرے گوڈوں میں پاکستان کا عشق اس طرح بٹھا دیا ہے جس طرح گھٹیا کے مریضوں میں درد بیٹھ جاتے ہیں۔ مفتی جابجا اس طرح پاکستان کی عظمت کی کلیاں ٹانکتاہے اور اس کی آنے والی شان کے بارے میں راگ الاپتا جاتا ہے کہ میں مسحور ہو تا جاتا ہوں اور اب میرا یہ حال ہے کہ کوئی پاکستان کے بارے میں خدشے کا اظہار کرتا ہے تو مجھے وہ بچہ محسوس ہوتاہے میرا جی کرتاہے کہ چیخ چیخ کر اسے بتاؤں فکر نہ کرو اس کی فکر کرنے والی ہستیاں ہیں تم بس اپنے آپ کو ٹھیک کرلو۔ مفتی شہاب کے ساتھ فیصل آباد کے ایک قصبے میں ایک بزرگ سے ملنے جاتا ہے تو وہ برزگ دو ڈھائی سو لوگوں کے مجمع میں کہتے ہیں لوگو ایک دن ایسا آئے گا جب یواین کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا تم وہ دن دیکھوگے ہاں ہم نہیں ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو تم میری قبر پر آکر تھوکنا مفتی کا ایک دوست ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں ہالینڈ جاتا ہے وہاں ایک اسلامی نایاب کتب کی لائبریری میں دوران ریسرچ اس پر کھلتا ہے کہ حضرت بری امام رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے قدموں میں ایک عظیم اسلامی مملکت کا شہر آباد ہوگا۔بری امام کا مزار تو آپ جانتے ہیں نا اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں جس کی طرف جانے والی سڑک سی ڈی اےوالوں نے توڑ دی تھی اور وہاں جانے والے ٹانگوں کا اسلام آباد سے گزرنا منع ہے۔ مفتی حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر بھی کرتا ہے جب انھیں انگریز جنگ آزادی کی ناکامی پر گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کی وہ ریاست جو انھوں نے پنجاب میں قائم کی تھی ختم ہوجاتی ہے تو بوقت گرفتاری مجمع سے ایک مجذوب باہر آکر انھیں تسلی دیتا ہے کہ نوے سال بعد اسی سرزمین پر ایک عظیم اسلامی مملکت قائم ہوگی۔ پھر پینسٹھ کی جنگ جس میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ چھوٹے قد والے سرخ اور سفید لباس والے اور سفید گھوڑوں والے اور برق پاش تلواروں والے بھی لڑے۔ پاکستان کی ایک خاتون جو کہ عرصے سے مدینہ میں روضہ رسول کے قریب مقیم تھیں دیکھتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح روضہ مبارک سے باہر آۓہیں کہ ان کی زلفیں پریشان ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاکستان جہاد کے لیے جارہے ہیں۔ مفتی اس طرح کی کئی باتیں کرتا ہے۔ پھر ایک شاہ صاحب کا تذکرہ جو صاحب کشف ہیں بتانے ہیں کہ انڈیا پاکستان میں ایک بڑی جنگ ہوگی لاکھوں لوگ مارے جائیں گے پھر پاکستان کو عروج حاصل ہوگا۔ سبز آنکھوں والا ایک حکمران جو شاید افریقہ یا یورپ سے ہے آۓ گاا ور سب کو سیدھا کر دے گا پھر پاکستان اسلامی دنیا کو لیڈ کرےگا۔ اس قسم کی بے شمار حکائتیں۔جو ممتاز مفتی بیان کرتاچلا جاتا ہےاور میرے جیسا بندہ جو پاکستان کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس چکا ہےپڑھ پڑھ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ سب آپ سے شئیرکرنے کامقصد کیا ہے؟ یہ کہ آپ لوگ نراش نہ ہوں۔ ہمت نہ چھوڑیں ۔ اس ملک کی فکر کرنے والے موجود ہیں ہمیں بس یہ کرناہے کہ اسکی ترقی کے لیے کام کریں ثمر اللہ دے گا۔ بس بیج ڈالنے کی ضرورت ہے پھل تو آنے کو بے تاب کھڑا ہے۔ ہمارے اس ملک نے آگے چل کر ایک ذمہ داری اٹھانی ہےایک ععظیم مقصد پورا کرنا ہے اور وہ ہے اسلامی دنیا کی قیادت۔ جانےیہ عظمت اسے کس کے طفیل ملے گی مگر ساتھ ہم جیسوں کی بھی چاند ہوجائے گی۔ اس لیے مایوسی نہیں بس کام کرنا ہے پاکستان کے لیے اس کی ترقی کے لیے۔ ے کو عظمت ملےگی انشأءاللہ ضرور ملے گی جانے کس کی برکت ترقی اب بھی تو کم نہیں۔ پاکستان جس کا ایک نام ہے۔ باوجود بے شمار اندورنی بیرونی خطرات کےباوجود یہ پھلتا جارہا ہے پھولتا جارہا ہے۔ اسکے دشمنوں کے اندر جل رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہ پاکستان ترقی کر ہا ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے اس لیےکبھی وہ ہمیں اندر سے بلوچستان اور اس جیسے کئی دوسرے طریقوں سے تنگ کرتے ہیں تو کھبی براہ راست وار کرتے ہیں مگر دشمنوں کے واویلے کے باوجود کیا پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا۔ کتنے عرصے سے یہ لوگ اسلامی بم اسلامی بم چِلا رہے تھے اب اسلامی بم ان کےسروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اور وہ صرف پیچ وتاب کھا سکتے ہیں۔ میزائل ٹیکنولوجی میں بے مثال ترقی، کروز میزائلوں کی طرف قدم اور خلا کی تسخیر کے منصوبے۔ اس مملکت کی عظمت کے گواہ ہیں۔ کام صرف اتنا ہےکہ انفرادی سطح پر اپنے آپ کو درست کر لیں پھر جب اللہ کا کرم ہوگا تو دنیا دیکھے گی کرم تو اس کا اب بھی ہےمگر ہماری کوتاہیاں اس کا اثر موڑ دیتی ہیں اسکی رحمت کو ناراض کردیتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکستان سے محبت نہیں عشق کرنے کی توفیق دے۔ اتنا عشق کہ ہمیں ہر طرف پاکستان ہی نظر آئے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان سوچیں باقی سب بعد میں ۔ ہم میں جذبہ نہیں قدرت اللہ شہاب کے بقول جنون پیدا ہوجائے اپنےملک کے لیے تعصب پیدا ہوجائے فخر پیدا ہوجائے پھر انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں ۔ جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان ہے ہاں عظیم پاکستان ہے۔ اللہ کریم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم پر اور ہمارے ملک پر اپنا رحم و کرم نازل کرے اور کرتا رہے آمین یا رب العٰلمین۔

جشن آزادی کیسے منائی جائے گی

اگست کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ محفل پر ایک دوست نے پوچھا کہ جشن آزادی کس طرح منائیں تو یہ فی البدیہہ "نظم نما" جواب میں وارد ہوئی۔ جو بلاگ پر بھی پیشِ خدمت ہے۔ جشن آزادی کیسے منائیں۔ سوال تو اچھا ہے۔ ادھر تو یہ ہوگا۔ جھنڈیاں لگیں گی۔ جھنڈے لگیں گے۔ (ساتھ والوں‌ سے غیر اعلانیہ شرط لگا کر کہ بانس اور جھنڈا دونوں کس کے بڑے ہیں) بچے سٹکر خریدیں گے۔ بڑے بیج لگائیں گے۔ ٹی وی والے ترانے گائیں گے۔ 14 اگست والے دن وطن کی محبت میں سرشار نواجوان۔۔۔۔ موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائے۔ ٹنڈوں پر جھنڈے بنوائے سائنلنسر کی بانسریاں نکلوائے۔۔ پورے شہر میں گشت فرمائیں‌ گے۔۔ اس کے بعد جھنڈے یا تو اتر جائیں‌ گے یا بارشوں‌ میں گل جائیں گے۔ جھنڈیاں کئی دنوں تک کوڑے کے ڈھیروں‌ پر یا پیروں تلے رلتی پھریں گی۔ جذبے ٹھنڈے ہوجائیں‌ گے۔ اور مادر وطن بھی ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کر پھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گی کہ شاید۔۔۔۔ شاید ۔۔۔ کوئی اٹھے اور اس قوم کی تقدیر بدل دے ۔ اس ملک کی تقدیر بدل دے جس کی نگاہیں 60 سالوں سے اس انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔

جشن آزادی کیسے منائی جائے گی

اگست کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ محفل پر ایک دوست نے پوچھا کہ جشن آزادی کس طرح منائیں تو یہ فی البدیہہ "نظم نما" جواب میں وارد ہوئی۔ جو بلاگ پر بھی پیشِ خدمت ہے۔ جشن آزادی کیسے منائیں۔ سوال تو اچھا ہے۔ ادھر تو یہ ہوگا۔ جھنڈیاں لگیں گی۔ جھنڈے لگیں گے۔ (ساتھ والوں‌ سے غیر اعلانیہ شرط لگا کر کہ بانس اور جھنڈا دونوں کس کے بڑے ہیں) بچے سٹکر خریدیں گے۔ بڑے بیج لگائیں گے۔ ٹی وی والے ترانے گائیں گے۔ 14 اگست والے دن وطن کی محبت میں سرشار نواجوان۔۔۔۔ موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائے۔ ٹنڈوں پر جھنڈے بنوائے سائنلنسر کی بانسریاں نکلوائے۔۔ پورے شہر میں گشت فرمائیں‌ گے۔۔ اس کے بعد جھنڈے یا تو اتر جائیں‌ گے یا بارشوں‌ میں گل جائیں گے۔ جھنڈیاں کئی دنوں تک کوڑے کے ڈھیروں‌ پر یا پیروں تلے رلتی پھریں گی۔ جذبے ٹھنڈے ہوجائیں‌ گے۔ اور مادر وطن بھی ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کر پھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گی کہ شاید۔۔۔۔ شاید ۔۔۔ کوئی اٹھے اور اس قوم کی تقدیر بدل دے ۔ اس ملک کی تقدیر بدل دے جس کی نگاہیں 60 سالوں سے اس انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔

اردو نستعلیق فانٹ ایک خواب جس کی تعبیر دور نہیں

دنیا دیوانوں سے خالی نہیں۔ اب دیکھیے نا اردو میں ہر کوئی ڈھول پیٹتا ہے کہ نستعلیق نہیں ہے مارے گئے لٹے گئے اردو کا حسن ماند پڑ گیا نسخ استعمال کرکرکے۔ مگر ہے کوئی مائی کا لعل جس نے نستعلیق خط بنانے کا سوچا ہو کبھی۔ وہی بات صاحب کہ باتیں اور ‫واویلہ تو سب ہی کرلیتے ہیں۔ مگر عمل کم کم ہی ہے ہم میں۔ کچھ دوست مجھ سے متفق نہ ہوں شاید۔ یقینًا نہیں ہونگے یہ قوم ابھی سوئی نہیں ابھی اس میں بڑے بڑے گوہر نایاب موجود ہیں۔ اس کا درد رکھنے والے موجود ہیں۔ تو صاحبو جو درد رکھتے ہیں۔ جو انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ اردو کی مانگ جو نستعلیق بنا ادھوری ہے بھر دی جائے۔ وہ ذرا قدم بڑھائیں۔ آئیں آگے بڑھیں ان غلطیوں کی تلافی کا ایک موقع ہے۔ ایک منصوبہ جس کا مقصد اردو کے لیے ایک آزاد مصدر نستعلیق فونٹ اردو نستعلیق بنانا ہے شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ وہ صاحب بھی دیوانے ہیں جو آواز دے کر اس طرف بلا رہے ہیں اور وہ بھی دیوانے جو لبیک کہہ رہے ہیں۔ آئیے آپ بھی ان دیوانوں میں شامل ہوجائیے کہ یہ دیوانگی فرزانگی سے بدرجہا بہتر ہوگی۔ اردو نستعلیق فانٹ پراجیکٹ آپ کی توجہ اور مدد کا منتظر ہے۔ اٹھئیے کہیں دیر نہ ہوجائے کہیں کل کو ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

گدھے۔۔۔۔

بہت دنوں بعد آج کچھ لکھنے کو دل کیا توپچھلے دنوں کی ایک خبر یاد آگئی۔ کچھ یوں تھی کہ "پاکستان میں گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے"۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے اس بارے میں استفسار کیا تو منہ بنا کر بولے " پھر کیا ہوا۔اگر غربت بڑھی سکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، مہنگائی بڑھ سکتی ہے تو گدھوں کی آبادی کیوں نہیں بڑھ سکتی۔کونسا قیامت آجائے گی اس سے" اور ہم سر ہلا کر رہ گئے بات ان کی بھی غلط نہیں تھی۔ بھلا گدھوں کی آبادی بڑھنے سے کیا ہوجائے گا۔ صاحبو گدھا بڑا ہی شریف جانور ہے۔ اتنا شریف کہ نہ جانے کتنے عرصے سے اس کو زندگی کے ہر شعبے میں بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے مگر مجال ہے اس نے کبھی چوں چاں کی ہو۔ گدھا ایک کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے۔ اس کے نام سے لے کر اس کی ذات تک ہر چیز قابل استعمال ہے۔ مثلًا "گدھا" ایک عمومی لقب ہے جو اکثر پاکستانی عوام و خواص کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑتا ہے اور مخالف کے کپڑوں پر کیچڑ کی طرح داغ لگا جاتا ہے۔گدھا آپ کسی کو غصے سے بھی کہہ سکتے ہیں اور پیار سے بھی۔ غصے میں کہیں گے تو اگلا بندہ یہ سوچ کر چپ رہے گا چلو گدھا ہی کہا ہے کچھ اور نہیں کہہ دیا۔ اگر پیار سے کہیں گے تو پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کون مائی کا لال ہے جو آپ کو کچھ کہہ سکے۔ گدھے سے ہمیں اپنے استاد محترم یاد آگئے۔ میٹرک میں ہمارے فزکس کے استاد تھے۔ بڑے باشرع اور عملی انسان تھے۔بات منہ میں ہوتی تھی اور ہاتھ مصروف عمل ہو بھی چکتے تھے۔ہمیں گدھا اور ایک مزید نحس جانور کے القابات سے بڑی بے تکلفی سے نوازا کرتے ساتھ میں ان کا ہاتھ چلتا تو یقین آجاتا کہ ہم گدھے ہی ہیں۔بس فرق اتنا ہوتا کہ بوجھ کی بجائے وہ ہم پر فزکس کے عجیب و غریب کے قسم کے فارمولے لادنے کی کوشش کرتے۔خیر اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے انھی کے ڈنڈے اور گالیوں کی برکت ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ فزکس میں حرکت کی تین مساواتیں ہوا کرتی تھیں۔(کرتی تھیں اس لیے کہا ہوسکتا ہے جب لوگوں نے دیکھا کہ نیوٹن خود بھی مرمرا گیا ہے اور اس کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی نہیں تو انھوں نے سوچا ان مساواتوں کو تو بنّے لگاؤ۔ خیر ہمارے ہاں تو یہ کام پٹواری جائیداد کے کاغذوں کے ساتھ اس احسن اور فنکارانہ طریقے سے کرتے ہیں کہ اصل وارث بیچارہ ساری عمر مقدمہ لڑتے لڑتے مر جاتا ہے مگر کاغذات کی تبدیلی غلط ثابت نہیں کرپاتا۔لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔) گدھا باربرداری کے کام آتا ہے۔ اس پر جتنا مرضی وزن لاد لو اس کا کام ہے بس چلتے جانا۔ بس اس کی ذرا سی تفریح یہ ہے کہ کسی دوسرے گدھے یا گدھی کو دیکھ کر اسے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ گدھا ون مین شو کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور مالک کے ساتھ گدھا گاڑی بھی چلاتا ہے۔ گدھا گاڑی کو کچھ ستم ظریف چاند گاڑی بھی کہتے ہیں مگر آفرین ہے جو کبھی گدھے نے برا منایا ہو ہمیشہ ڈھینچوں کرکے اپنی رضامندی کا اعلان ہی کیا ہے۔ گدھا گاڑی سے یاد آیا یہ گاڑیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی ہے جس کا سٹیرنگ اور بریک ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے پوچھا گدھا گاڑی میں ایکسلریٹر کیوں نہیں ہوتا تو انھوں نے رازدارانہ انداز میں بتایا " ہوتا ہے" ہم حیران رہ گئے یہ کیسے ہوسکتا ہے گدھا گاڑی کا ایکسلریٹر ہو اور نظر نہ آئے۔ ہم نے پھر عرض کیا اگر نشاندہی فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ بڑے نخروں کے بعد حاسد نے بتایا گدھے کی "دم" اس کا ایکسلریٹر ہوتی ہے۔ ہم ان کی وسیع العلمی کے قائل ہوگئے۔ اسی بحر حیرت و احترام میں ہم نے جب پوچھا کہ کبھی گدھے کا یہ پرزہ استعمال کرنے کا اتفاق بھی ہوا تو حاسد ناراض ہوگئے کہ اب تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ ہم نے بڑی مشکل سے یقین دلایا اس میں بھلا مذاق کی کیا بات ہے۔ تو انھوں نے جوابًا جو واقعہ سنایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے یہ کوشش کی تھی تاکہ اپنے نظریے کو عوام کے سامنے ہمراہ ثبوت پیش کرسکیں جواب میں انھیں دولتی کھانا پڑی تھی۔ خیر حاسد کے ارشادات تو چلتے رہیں گے کہتے ہیں ہاتھی زندہ لاکھ کا مرے تو سوا لاکھ کا۔ گدھے کے لیے بھی یہی ضرب المثل مشہور ہونی چاہیے تھی ۔ زندہ تو گدھا گاڑی میں مرگیا تو قصاب کی دوکان پر بکرے کے بھاؤ۔ پس ثابت ہوا کہ گدھا واقعی ایک شریف اور کثیر المقاصد جانور ہے جب تک زندہ رہتا ہے خدمت کرتا ہے جب مرجاتا ہے تب بھی کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔ صاحبو چلتے چلتے ایک لطیفہ سناتے چلیں۔ ایک ملک کے سربراہ کو ایک بار ان کے مشیروں نے باتوں ہی باتوں میں کہہ دیا کہ یہ قوم تو ہے ہی گدھی اور بے عقل۔ سربراہ مصر ہوگئے ثبوت پیش کرو۔ مشیران بولے حضور ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ابھی ثبوت مل جاتا ہے آپ بس جیسے ہم کہیں ویسے کرتے جائیں۔ سربراہ نے مشیروں کے کہنے کے مطابق کسی چیز کی قیمت بڑھا دی۔ چند دن گزرے کچھ احتجاج ہوا پھر خاموشی چھا گئی۔ مشیران بولے حضور دیکھا یہ قوم گدھی ہے۔ جتنا وزن ڈال لو کوئی مسئلہ نہیں۔ سربراہ اب بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ انھوں نے نرخ دوگنے کردیے۔ پھر کچھ چوں چاں ہوئی اور بات دب گئی۔ یہ بڑے لوگ بھی عجیب ہوا کرتے ہیں جس چیز کی ضد چڑھ جائے انھیں بس پھر نہ پوچھیں۔ انھوں نے نرخ چار گنا کرنے کا حکم دے دیا۔ بات پھر وہیں کسی کو کوئی فرق نہ پڑا معمولی احتجاج بھی نہ ہوا۔ سربراہ حیران رہ گئے۔ مشیران بولے حضور یہ قوم اس سے بھی زیادہ گدھی ہے۔ سربراہ بولے وہ کیسے۔ مشیروں نے عرض کی حضور ذرا ہمارے مشورے کے مطابق کیجیے ثبوت مل جائے گا۔ چناچہ اگلے دن سے متعلقہ چیز کی منڈیوں میں سرکاری اہلکار بیٹھ گئے۔ جو بھی چیز لینے آتا پہلے اسے دس چھتر کھانا پڑتے پھر چار گنا نرخوں پر چیز لے کر گھر جاتا۔لوگ کچھ پریشان ہوئے پھر عادی ہوگئے۔سربراہ پھر غصے میں آگئے۔ انھوں نے چھتروں کی تعداد دس سے بیس کردی۔بات پھر وہیں۔ چیز استعمال ہورہی تھی چھتر لگ رہے تھے اور یہ سب یونہی تھا جیسے عام سی بات ہو۔ آخر تنگ آکر انھوں نے چھتروں کی تعداد پچاس کردی۔ ایک کلو چیز ساتھ پچاس چھتر۔ اب تو ہر طرف رش۔ جہاں دیکھو لوگ لائن میں لگے چھتر کھارہے ہیں۔ چند دن لوگوں نے برداشت کیا پھر انھوں نے سوچا یہ تو بہت ہوگیا ایسے تو نہیں چلے گا۔ سب ایک وفد کی صورت میں سربراہ مملکت کی خدمت میں پیش ہوئے۔ سربراہ خوش ہوئے چلو میری قوم میں ابھی عقل والے موجود ہیں مگر انھوں نے جو درخواست کی ملاحظہ ہو۔ “عالی جناب کے حکم کے مطابق ہم چھتر تو کھا لیتے ہیں مگر اس سے ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے اس لیے درخواست ہے کہ چھتر مارنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد معقول حد تک بڑھائی جائے تاکہ عوام کو چھتر کھانے میں تکلیف نہ اٹھانا پڑے۔" وفد کے جانے کے بعد سربراہ مملکت محو حیرت تھے کہ مشیران بولے حضور ہم نہ کہتے تھے یہ قوم ہی گدھی اور بے عقل ہے۔ خیر یہ تو لطیفہ تھا ہم اس کا ذکر حاسد سے کر بیٹھے تو بڑے تلخ ہوکر بولے" وہ قوم کوئی اور نہیں پاکستانی قوم تھی۔" ہم حیران و پریشان وہ کیسے۔ تو جواب ملا " خود دیکھ لو کیا حالات ہیں اور ان کے لچھن کیا ہیں۔" تو صاحبو ہم نے تو جائزہ لے لیا اب آپ بھی جائزہ لیں اور سوچیں کہیں حاسد نے ٹھیک ہی تو نہیں کہا۔

آزاد مصدر کیا کیوں؟

اوپن سررس یعنی آزاد مصدر کا ذکر کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کے لیے نیا نہیں۔ لینکس کا نام بھی سب جانتے ہیں۔ آزاد مصدر ہے کیا؟ آزاد مصدر کا مطلب ہے سافٹ ویر کو اس طرح فراہم کرنا کہ صارف کو اسے استعمال کرنے اور تقسیم کرنے کی آزادی ہو معاوضہ ادا کرکے یا اس کے بغیر۔ ہر دو صورتوں میں ناشر کو صرف اپنے معاوضے سے غرض ہوگی نہ کہ اس بات سے کہ پروگرام کو کون آگے مزید تقسیم کررہا ہے یا اس میں مزید تبدیلیاں کرکے اسے اپنے نام سے شائع کررہا ہے۔ آزاد مصدر کے پیچھے ایک فلسفہ کار فرما ہے۔حقوق دانش کے غیز منصفانہ استعمال کو روکنا۔یہ کہاں کاانصاف ہے کہ چند لوگ ایک چیز بنا لیں پر اس پر اجاردہ دار بن بیٹھیں۔ آزاد مصدر کے تحت ہر سافٹ ویر اور اس کا رمزی ذریعہ یعنی سورس کوڈ انسانیت کی میراث ہے نہ کہ کسی مخصوص کمپنی، یا شخص یا اشخاص کی۔ اس نعرے کو لے کر کچھ دیوانے آگے بڑھے اور یونکس سے لے کر لینکس اور عبارتی مواجے سے لے کر تصویری صارف مواجے تک ایک لمبی داستان ہے جو آزاد مصدر کے تحت لکھی گئی۔ انٹرنیٹ پر اس وقت ہزاروں سافٹ ویر دستیاب ہیں جو آزاد مصدر اجازت ناموں کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔ چلیں یہ سب تو ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟ ہمارا یہ حال ہے کہ جب کمپیوٹر کی بات کی جاتی ہے تو جو چیز پہلے ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ہے مائیکرو سافٹ اور اس کا خدمتگار نظام یعنی ونڈوز۔ہماری سوچ صرف مائیکرو سافٹ تک ہی کیوں محدود ہوگئی ہے۔ چلیں تھوڑا آگے چلتے ہیں ونڈوز سے ہٹ کر کچھ مزید پروگرام بھی ہیں جن تک ہماری رسائی ہوجاتی ہے وہ ہیں مقبول عام ایڈوب بی فوٹو شاپ،کورل ڈرا اور اسی طرح کے دوسرے تیسرے پروگرام جو چوری شدہ ہیں اور تیس روپے کی سی ڈی پر با آسانی دستیاب ہیں۔ ہم چوری شدہ سافٹ ویر کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ آزاد مصدر کی صورت میں ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اکثر یہ سوال اپنے دوستوں حتٰی کہ اپنے بھائی سے بھی پوچھا پتا کیا جواب ملا؟ ‫” یہ لوگ ہمیں لوٹ کر کھارہے ہیں تو ان کو اتنا نقصان پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے۔” یہ ہے ہمارا نظریہ اس بارے میں۔ ذرا اس تحریر کو پڑحنا بند کیجیے اور ایک بار آنکھیں بند کرکے تسلی سے سوچیے کہ کیا یہ صحیح ہے۔ کیا یہ چوری ،چوری نہیں؟؟ ہاں یا نہیں میں جواب سوچیں گے تو یقینًا آپ کا جواب ہاں ہوگا۔ اگر ہاں تو پھر آپ میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اور اگر جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں تو کیا یہ سینہ زوری نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی سوچیے کیا آپ اس پر شرمندہ ہیں؟؟ اگر ہاں تو مبارکباد آپ ایک باضمیر جرات مند انسان ہیں اور اگر آپ آج غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو کل اسے دہرانے سے پرہیز بھی کریں گے اور میرا خیال ہے یہی ایک اچھے مسلمان کی نشانی بھی ہے۔اور اگر آپ اس سینہ زوری پر شرمندہ نہیں یا اس چوری کو سرے سے چوری ہی نہیں سمجھتے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے مجھے بے اختیار قرآن کریم کی آیت یاد آرہی ہے جس میں اندھے گونگے اور بہرے لوگوں کا ذکر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایس کیوں کرتے ہیں؟ صرف اپنی دنیاوی آسانی کے لیے مگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آخرت میں آپ سے اس کا سوال ہوگا۔ چلیں اس کو چھوڑیں دنیاوی بات ہی کرلیتے ہیں۔ آپ ایسا کرکے بالواسطہ سافٹ ویر کی دنیا پر اجارہ دار چند کمپنیوں کw فائدہ اور ایک اچھی اور بامقصد تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر کیسے؟؟ ایسے کہ پاکستان میں کمپیوٹر پر کیا چلتا ہے سب سے پہلے م س ونڈوز خدمتگار نظام۔ ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتے ہیں تیس روپے میں مل جاتا ہے اور ہم اس سے انگریزوں کو چونا لگا دیتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیے ہمارے پروگرامر جو آج نکل رہے ہیں وہ کس چیز کے ماہر بن رہے ہیں۔ کبھی اخبار پڑھیے گا مائیکرو سافٹ کا فلاں پروفیشنل ماشاءاللہ بچے نے بہت کم عمر میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ قسم کی خبریں ملیں گی۔ اب ذرا یہ بتائیے کیا یہ سب مفت میں ہوجاتا ہے؟؟؟؟ ظاہر سی بات ہے پیسے لگتے ہیں۔ م س کی مفت میں مشتہری اور مزید گاہک بننے کا رجحان اسے اس بات کی فکر ہی نہیں ہونے دیتا کہ پاکستان میں حقوق دانش کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔آپ اپنی دانست میں انھیں چونا لگاتے ہیں اور وہ بڑے پیار سے آپ کو چونا لگا رہے ہیں بڑے غیر محسوس طریقے سے آپ کے ملک سے زرمبادلہ اور ذہانت کو کھینچ رہے ہیں۔ ہمارا یہی رویہ ہارڈویر ساز کمپینیوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ صرف چند بڑی کمپنیوں کے لیے ہارڈویر بنائیں اور پھر آزاد مصدر خدمتگار نظاموں کی بات ہوتی ہے تو کمپیوٹر صارفین مطابقت نہیں رکھتا اور مشکل ہے جیسے الزامات لگا کر بری ہوجاتے ہیں۔ کیا پروگرامنگ صرف م س اور اس جیسی چند بڑی کمپنیوں کی میراث ہے؟؟؟ نہیں۔ یہ ہمارا آپ کا وہم ہے۔کبھی اس کنویں سے نکل کر دیکھیے پروگرامنگ کی دنیا بہت وسیع ہے۔ آزاد مصدر کا فلسفہ ہے کہ آپ کو خود بھی کچھ نہ کچھ پروگرامنگ آنی چاہیے۔ یہ کسی پروگرامر اور کسی م س جیسی کمپنی کا ہی کام ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے سی ڈی پر ونڈوز مل جائے اور آپ اسے نصب کرکے استعمال کرنا شروع کردیں۔ کمپیوٹر صارفین کو اس “پیشہ ورانہ پن” نے انتا تن آسان کردیا ہے کہ چند کلک کرنا انھیں عذاب محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں کمپیوٹر صارفین ہیں ہی کہاں ہمارے ہاں تو فلموں کے شوقین،گیموں کے شوقین کمپیوٹر صارف بنے بیٹھے ہیں۔ ایک تعمیری چیز کو انتہائی غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ آزاد مصدر ہر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پہلی چیز تو یہ قانونی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو آپ استعمال کررہے ہیں اس پر آپ کا حق ہے بغیر کسی معاوضے کے اور آپ اسے بغیر کسی ڈر کے آگے تقسیم کرسکتے ہیں اور ہاں اگر کہیں معاوضہ وصول کیا بھی جاتا ہے تو انتہائی کم ۔ دوسرے آزاد مصدر کے تحت جاری ہونے والے پروگرام کسی بھی طرح خریدے جانے والے پروگراموں سے کم نہیں۔ مزید آزاد مصدر خدمتگار نظاموں اور ان کی آبادیوں میں شمولیت سے صارفین کو پروگرامنگ کی شدھ بدھ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تعمیری انداز میں کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ تو پھر کیوں نہ ایک اچھی چیز کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگرچہ پہلے چند قدم ضرور لڑکھڑاہٹ ہوگی مگر اس کے بعد آپ سنبھل جائیں گے۔ آپ سے یہ مطالبہ نہیں کہ ابھی سے ونڈوز کو گھر سے باہر پھینکیں اور لینکس کی کوئی تقسیم نصب کرکے بیٹھ جائیں۔ مگر بسم اللہ تو کریں ونڈوز کے لیے ہی بے شمار آزاد مصدر سافٹ ویر موجود ہیں آپ موجودہ پراگراموں کے ساتھ انھیں بھی استعمال کریں اور آہستہ آہستہ چوری شدہ سافٹ ویر کے استعمال کو ختم کردیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں۔ یہ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے اور اخلاقی و قانونی لحاظ سے ذمہ داری بھی۔