شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

ایک بہت ہی عزیز ہستی کے نام،اسکے جنم دن پر

خدا کرے تیری آنکھوں میں اشک نہ آئے خدا کرے تو جسے چاہے اسے پائے تیرے جیون میں کبھی نہ غموں کا اندھیرا ہو تیری ہر صبح نئی خوشیوں کا سویرا ہو تیرے دل میں کبھی کوئی حسرت نہ آئے تیری دعا لب پہ آنےسے پہلے پوری ہوجائے خدا پوری تیرے خوابوں کی تعبیر کرے تو نئی دنیائیں تسخیر کرے تجھے خدا سے عشق ہو جائے تو مخلوقِ خدا کا درد آشنا ہوجائے تیرے دم سے خوشیاں پھلتی رہیں تیرے کارن نفرتیں سمٹتی رہیں خدا کرے یہ عید تیرے لیے خوشیاں لائے خدا کرے یہ جنم دن تجھ پر مبارک ہوجائے

ایم کیوایم کیا؟کیوں؟کیسے؟

میں‌نے یہ تحریر کیوں‌لکھی: ایم کیو ایم سے مجھےکوئی ذاتی بیر نہیں‌مگر پچھلے کچھ عرصے سے یہ نام کچھ اس طرح‌میرے سامنے آیا ہے کہ مجھے مجبورًا اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت۔ میرے شہر فیصل آباد میں‌ایم کیوایم کے دفتر کے قیام کی خبر۔ پھر زلزلے کی حوالے سے ایم کوایم کی سرگرمیاں‌ اور اس کے بعد اردو ویب آرگ پر ایم کیوایم کےبارے میں‌بحث۔ اس بحث کی وجہ سے میں‌مجبور ہوا کہ ایم کیوایم کے بارے میں‌جانوں‌اور اس کے بارے میں‌کچھ لکھوں‌، میرے جیسے کئی ہونگے جو اس کے بارے میں‌نہیں‌جانتے ہونگےاورجاننے کے خواہش مند ہونگے اسی لیے میں‌یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اس کو لکھنے کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں‌ایک تو الطاف حسین جو ایم کیوایم کاقائد بھی ہے کی آپ بیتی “سفر زندگی “ (جنگ پبلشرز)اور دوسری کتاب “ایم‌کیو ایم“از منیر احمد ہے(نگارشات لاہور) ۔مَیں‌کوشش کروں‌گا کہ اس تحریر میں‌جذبات سے بالاتر ہوکر صرف حقائق بیان‌ کرنے کی کوشش کروں‌۔ ایم کیو ایم کے قیام کی وجوہات: الطاف حسین 17 ستمبر 1953میں کراچی میں‌پیداہوا۔ 1969 میں‌بوائز سکینڈری سکول جیل روڈ سے میٹرک کرنے کے بعد سٹی کالج سے انٹر سائنس کے ساتھ کیا۔ اس کے بعد 1972 میں‌اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کی۔اسی دوران کچھ ایسے واقعات و حالات پیش آئے جس سے آئندہ ایم کیوایم کے قیام کے حالات پیدا ہوئے۔ 1970میں ‌نیشنل کیڈٹ سروس کے تحت الطاف حسین نے بھی فوجی تربیت حاصل کی۔ خود الطاف حسین کا بیان ہے کہ وطن کی حفاظت کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ جی کرتا اڑکر سرحدوں‌پر پہنچ جائیں۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنھوں‌نے الطاف کا دل فوج سے کھٹا کر دیا حالانکہ اس کی بچپن سے خواہش تھی کہ فوج میں‌بھرتی ہوکر وطن کی خدمت کرے۔ دوران تربیت امتیازات کا ایسا ایسا مظاہرہ ہوا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید کراچی والے اچھوت ہیں۔ انھیں‌کمزور اور شہری ہونے کے طعنے دیے جاتے دوران تربیت اور مشقوں‌میں‌بھی انھیں‌ایسا کام دیا جاتا جو نسبتًامشکل ہوتا۔ اس سب سے گھبرا کر اور اکتا کر اطاف حسین نے فوج چھوڑ دی۔ بی ایس سی کے بعد بی فارمیسی میں داخلہ لیا۔ یہ کیسے ملا یہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ ان کا نتیجہ دیر سے آیا اور یونیورسٹی نے داخلے دینے سے انکار کردیا۔ آخر نوماہ کے طویل احتجاج کے بعد داخلہ ملا۔ بی فارمیسی میں‌ داخلے کے بعد جب الطاف حسین یونیورسٹی(جامعہ کراچی) میں‌داخل ہوا تو اس کی وطن پرستانہ سوچ پر ایک اور ضرب اس وقت پڑی جب اس نے جگہ جگہ پنجابی سٹوڈنٹ فیڈریشن،پختون سٹوڈنٹ‌فیڈریشن،گلگتی سٹوڈنٹ فیڈریشن،بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور اسی طرح‌کے دوسرے قوم پرستانہ ناموں‌پر مشتمل طلبہ یونینوں‌ کے بینر دیکھے۔ الطاف حسین کو یہ پتا چلا کہ بڑی یونینیں‌جیسے جمعیت اور پروگریسوسٹوڈنٹ وغیرہ ان علاقائی ناموں پر مشتمل تنظیموں‌سے دوران انتخابات اتحاد کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سب اور پھر مہاجر طلبہ سے امتیازات دیکھ کر الطاف حسین نے اے پی ای ایس او قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ الطاف حسین نے تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بطور کارکن کام کیا۔ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی میں اہم عہدے پر رہا۔ مگر یہاں بھی تلخ تجربات ہوئے سازش کے ذریعے عہدے سے سبکدوش کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں الطاف حسین کے ذہن میں مہاجر قومیت کا تصور مزید مضبوط ہوا۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کا قیام 11جون 1978 کو عمل میں‌آیا۔ اس سے پہلے دوسال تک صرف خفیہ میٹینگز ہوئیں‌تھیں۔‌‌‌قیام کے وقت الیکشن کے ذریعے الطاف حسین کو چئیرمین اورعظیم طارق (بعد میں ایم کیوایم کا چئیر مین بھی بنا پھر کراچی کے فسادات میں ‌قتل ہوا) کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اے پی ایم ایس او اصل میں‌طبل جنگ تھا۔ اس نے آگے ایم کیوایم کے قیام کی راہیں‌ہموار کیں۔ اے پی ایم ایس او کے قیام کے بعد الطاف حسین کو جن مشکلات اور صدموں‌سے گزرنا پڑا انھوں نے آگے چل کر ایم کیوایم کے قیام کی راہ ہموار کی۔جعیت جو جماعت اسلام کی ذیلی تنظیم ہے سے الطاف حسین کے اختلافات اسی دور میں شروع ہوئے آج بھی جماعت اسلامی اور ایم کیوایم میں‌ایسا بیر موجود ہے جس کی مثالیں‌دی جاسکتی ہیں۔ الطاف حسین نے اپنی تحریک کے فروغ کے لیے بہت جدوجہد کی۔ سائیکل پر کام کیا۔ چندہ جمع کرکے تنظیم کے اخراجات پورے کیے۔ ٹیویشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اور تنظیمی اخراجات میں‌چندہ دیا۔ اس دوران اتنی تکالیف برداشت کرنا پڑیں‌کہ تنطیم کے اراکین جو قیام کے وقت ڈیڑھ سو تھے پینتیس چالیس رہ گئے۔الطاف حسین کو اسی دوران سرمایہ داروں نے چندہ کے سلسلے میں‌بہت مایوس کیا حالانکہ وہ سب بھی مہاجر تھے۔ تنظیم پر سب سے زیادہ سختیاں‌جمعیت نے کیں‌۔ تھنڈر سکواڈ سے اراکین کو ہراساں‌کیا گیا۔ جھگڑے ہوئے ہر حد پارکر دی گئی۔ پہلے الیکشن میں‌تنظیم کو خاص کامیابی نہ ملی ۔ دوسرے الیکشن میں نو سو ووٹ، تین کونسلر اور ایک فیکلٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا۔ اس دوران داخلہ مہم میں‌طلبہ نے تنظیم پر اپنے اعتماد کا بے پناہ اظہار کیا۔ اسی دوران مہاجرسٹوڈنٹ فیڈریشن کا شوشہ بھی چھوڑا گیا جو کامیاب نہ ہوا۔ داخلہ مہم میں ‌جمعیت نے کھلی چھیڑ چھاڑ کی حتٰی کہ الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی ایف آئی آر بھی درج نہ کروائی جاسکی۔ ایم کیوایم کا قیام: اے پی ایم ایس او کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ارباب اختیار اور دوسری حریف تنظیموں‌نے ایسے اقدامات کیے کہ اسے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ جامعہ کراچی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں‌تنظیم کے اراکین پر بے پناہ سختی کی گئی۔ تنظیم کے تعلیمی اداروں‌سے اخراج کے بعد الطاف حسین اور ساتھیوں‌کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اب انھوں نے اپنی تنظیم کو گلی کوچوں کی سطح پر منظم کرنے کا کام شروع کردیا۔عوامی سطح‌پر اے پی ایم ایس او کے منشور کی مقبولیت کے بعد 18 ماچ 1984 میں‌ ایم کیو ایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں‌آیا۔ اپنے قیام کے دوسال تک اس پارٹی نے خاموشی سے کام کیا۔ الطاف حسین اور ساتھیوں نے جماعت کی تنظیم سازی ،آئین،اس کا علاقائی ڈھانچہ تیار کرنے میں‌یہ دو سال گزارے۔ تنظیم نے اپنے اخراجات چلانے کے لیے آزمودہ طریقہ کار یعنی چندے کا سہارہ لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں‌ایم کیو ایم شاید واحد جماعت ہے جو عوامی چندے پر چلی اور چلتی ہے۔ 1986 میں‌کراچی میں‌سیاسی سرگرمیوں‌کا آغاز ہوا تو ایم کیو ایم کے کارکنان نے بھی نشتر پارک کراچی میں جلسہ کرنے کی خواہش کی۔ یہاں‌سے ایم کیوایم نے اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا اور معاصرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ لاکھوں‌افراد کے اس اجتماع نے کراچی کے عوام میں‌جماعت کی مقبولیت ثابت کردی۔جلسے کے انتظامات کے سلسلے میں رقم چندے سے جمع کی گئی تھی۔ اس کے بعد حیدر آباد کے کارکنان نے بھی اسی قسم کاجلسہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہاں‌تک تو شاید سب ٹھیک تھا۔ مگر یہ وہ نقطہ ہے جہاں‌سے ایم کیو ایم کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1986 کو جماعت کے لوگوں‌ کے حیدر آباد جلسے میں‌جاتے ہوئے سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بقول الطاف حسین یہ ڈرگ مافیا کی ایجنسیوں‌کے اشارے پر کاروائی تھی تاکہ مہاجروں اور پختونوں‌کو لڑایا جاسکے۔ یاد رہے اس علاقے میں‌ پختونوں‌کی اکثریت آباد ہے۔(بعد میں اسی طرح کے اور کئی واقعات ہوئے جن میں‌پنجابیوں‌،سندھیوں‌ اور دوسری قوموں‌کو ایم کیوایم کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین ان سب کو ایم کیوایم کے خلاف سازش سے تعبیر کرتاہے۔ حقیقت تو خدا جانتا ہے تاہم ان واقعات اور پریس کی مہربانیوں‌سے ایم کیوایم کے خلاف پنجاب اور سرحد میں‌بالخصوص اور پورے ملک میں‌بالعموم نفرت پھیلی۔) کئی لوگ مارے گئے کئی زخمی ہوئے مگر حیدر آبادکا جلسہ ناکام نہ کرایا جاسکا۔ اس روز واپسی پر گھگھر پھاٹک کے قریب الطاف حسین کو گرفتار کر لیا گیا جب وہ مقتولین سہراب گوٹھ کے جنازے میں شرکت کرنے کراچی جارہا تھا۔ 14 اور 15 دسمبر1986 کا دن شایداہل کراچی کبھی نہ بھلا سکیں‌جب علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں‌بدترین قتل عام کیا گیا۔مخالف رائے دستیاب نہیں مگر الطاف حسین کے بقول مساجد کے سپیکروں‌سے دہشت گردوں کو گائیڈ کیا جاتا رہا۔ بچے بوڑھے اور جوان کی تخصیص کے بغیر قتل عام کیا گیا۔یہ سب ڈرگ مافیا کے ذریعے کیا گیا۔ حتٰی کہ ایک جگہ ایک خاتون کے جنازے پر بھی حملہ ہوا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ایم کیوایم نے بلدیاتی انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔جو کراچی اور حیدرآبادکے لوگوں کی الطاف حسین سے والہانہ محبت کا ثبوت تھا۔اس کے بعد ایم کیو ایم کے کونسلروں کو کام سے روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جو کہ ہماری سیاست کی ریت بھی ہے۔ جب روشنیوں‌کا شہر کراچی جلا: ایم کیو ایم کی مقبولیت روکنے کے لیے ہر دور حکومت میں‌کام ہوا۔ بے نظیر کے دور حکومت میں‌خصوصًا ایم کیوایم پر بے پناہ ظلم و ستم کیا گیا1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر کی حکومت بنی اس حکومت میں ایم کیوایم بھی معاہدہ کراچی کے تحت شامل تھی۔(ایم کیو ایم کے سیاسی معاہدے آگے ایک اور سرخی کے ذیل میں‌تفصیلًا بیان کیے جائیں گے)۔ بے نظیر نے ہمیشہ ایم کیو ایم کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور بہانے بہانے سے ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کیا۔ بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں جب حکومت کے مظالم حدسے بڑھ گئے تو الطاف حسین نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ مگر حکومتی یقین دہانیوں‌کے باعث ختم کردی۔ مگر پھر بھی مطالبات تسلیم نہ کیے گئے۔ بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس سے پہلے ہی الطاف حسین اس کے رویےسے مایوس ہوکر نواز شریف سے معاہدہ کرچکا تھا۔نواز شریف کے دور حکومت میں‌1990 سے1992 تک ایم کیوایم اقتدار میں شامل رہی۔ جون 1992 میں‌نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیوایم کے خلاف خوفناک آپریشن شروع ہوا۔فوج کے جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف پوری طاقت استعمال کی نواز شریف کے بقول اس بات سے اسے لاعلم رکھا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہے۔ اسی آپریشن اورماضی کی زیادتیوں‌سے مجبورہو کر ایم کیو ایم نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اگرچہ الطاف حسین تنظیم کے کسی عسکری ونگ کی موجودگی سے ہمیشہ انکاری رہا ہے تاہم یہ عسکری ونگ کی موجودگی بعیداز حقیقت نہیں‌۔ اس سے پہلے نواز شریف بطور وزیر اعظم الطاف حسین سے مل کر ایم کیو ایم کے جرائم جن میں‌غنڈہ ٹیکس اور ماردھاڑ ،عقوبت خانے وغیرہ شامل تھے کی نشاندہی کرچکا تھا۔ الطاف حسین کے علم میں‌کچھ جرائم تھے بھی تاہم اس کے چہرے کا رنگ ایک بار ضرور بدلا تھا۔اسی دور میں‌ایم کیو ایم سے کچھ لوگوں‌کو اس الزام کے تحت الگ کیا گیا کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں‌میں‌ملوث‌ہیں۔اسی دوران راء کے دہشت گرد ایم کیوایم میں گھس آئے اور انھوں‌نے تنظیم کے لیڈروں‌کی قربت حاصل کرلی۔ حتٰی کہ بعض لیڈر بھی ان کی موجودگی جدوجہد اور تنظیم کے لیے ضروری قراردینے لگے۔ فوج اگرچہ پہلے ایم کیو ایم کی حامی تھی ضیاءالحق کے دور میں ایم کیوایم کی پرورش اینٹی پیپلز پارٹی کے طور پر کی گئی تاہم بعد میں‌کچھ وجوہات کی بنا پر فوج اس کے خلاف ہوگئی ۔ انھی وجوہات میں‌ کراچی سیکٹر کے ایک میجر کلیم کا ایم کیوایم کے کارکنوں‌کے ہاتھوں‌اغواء بھی بتایا جاتاہے۔ان باتوں سے تنگ آکر جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔ فوج کے آپریشن اور ایم کیو ایم میں‌جرائم پیشہ لوگوں‌کی شمولیت کا اگر کسی کو کچھ نقصان ہوا تو وہ کراچی کے معصوم عوام تھے۔ان پر زندگی دوبھر کردی گئی۔ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے دوسری طرف دہشت گرد چکی کے دوپاٹوں میں‌عوام گندم کی طرح‌پس کر رہ گئی۔ فوج اور ایجنسیوںنے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی جاسوسی شروع کردی۔ اسی دوران جناح‌پورکی سازش منظر عام پر آئی جو بقول حکومت علیحدہ ملک بنانے کی سازش تھی اور الطاف حسین اسے ایجنسیوں کی چال قرار دیتا ہے۔اس دوران الطاف حسین علاج کی غرض‌سے لندن جاچکا تھا جس کےبعد وہ وہیں‌کا ہوکر رہ گیا۔ فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے برملا اس بات کہ اظہار کیا کہ اگر مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں‌ہو سکتی ہیں‌تو ایم کیو ایم میں‌کیوں‌نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ایم کیوایم حقیقی کے نام سے عامر اور آفاق جنھیں‌الطاف حسین نے پارٹی سے جرائم پیشہ سرگرمیوں کی بناء بر نکال دیا تھا(بقول ایم کیو ایم ذرائع) ایک پارٹی کھڑی کر لی۔ اس کے بعد آگ اور خون کا جو کھیل شروع ہوا اس سے سب ہی واقف ہیں۔ یوں‌حالات پیدا ہوگئے جیسے ایم کیو ایم (جسے حکومتی ادارے الطاف گروپ کہتے تھے) اور حقیقی کے مابین گینگ وار شروع ہوگئی ہو۔ نواز شریف کے دور میں‌تو کچھ بچت رہی۔تاہم بے نظیر نے اس کا خوب استعمال کیا۔ اسی دوران آصف نواز کا انتقال ہو گیا اور نئے فوجی سربراہ جنرل وحید نے فوج کو واپس بلانے کا عندیہ دیا۔ اسے ایم کیوایم سے کوئی دلچسپی نہیں‌ تھی مزید جنرل وحید کو احساس تھا کہ فوج کے وقار کو آپریشن نے نقصان پہنچایا ہے۔ نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور غلام اسحاق خان کے دور صدارت کا خاتمہ ایم کیو ایم کے لیے بدترین سانحے لے کر آیا۔ بے نظیر نے 1993حکومتیں‌اور اتحاد قائم کرنے کےبعد جو کام کیا وہ ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن تھا۔ اس بار اسے جنرل(ر)نصیر اللہ بابر کا بطور وزیر داخلہ تعاون حاصل تھا۔ پیپلز پارٹی کا صدر ہونے کی وجہ سے فاروق لغاری نے بھی غفلت برتی جس کا خمیازہ غریب عوام نے بھگتا۔ ایم کیوایم اور حقیقی کے مابین ہونے والی گینگ وار میں‌ نہ صرف ان کے کارکن مارے جاتے رہے بلکہ عوام بھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہر حربہ اختیار کیا جو کوئی مہذب ذہن سوچ بھی نہیں سکتا۔عامر اور آفاق اس دوران سرکاری سرپرستی حاصل کرنے میں‌کامیاب ہوچکے تھے۔ فوج اوررینجرز کے ٹرکوں‌پر بیٹھ کر یہ لوگ ایم کیو ایم کے دفاتر پر حملہ آور ہوتے اور ان پر قبضہ کر لیتے۔ کارکنوں‌کو مارتے اور سامان لوٹتے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا بیان ہے کہ اس دوران کروڑوں‌روپے کا سامان بھی ایم کیو ایم کے دفاتر سے لوٹا گیا۔ بے گناہ بچیوں‌کی عزتوں‌سے کھیلا گیا انھیں‌اغوا کیا گیا۔ ہر وہ ناجائز حربہ اختیار کیاگیا جو سوچا جاسکتاہے۔ اس دوران کراچی کے عوام تنگ آچکے تھے۔ آئے دن کے محاصرے،فائرنگ اور حملے۔ کراچی کے کچھ ضلعے خصوصًا وسطی،غربی کا پچاس فیصد اور شرقی کا قریبًا پینتیس فیصد علاقہ دہشت گردوں‌کی لپیٹ میں‌تھا۔ ملیر کے کچھ علاقے بھی اس میں‌شامل ہیں۔ یوں‌لگتا تھا جیسے ایم کیوایم والوں‌کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو ان دونوں دھڑوں‌‌کے کارکنوں‌کو نشانہ بنا رہا ہے۔ الطاف حسین نے ہمیشہ اسے ڈرگ مافیا اورایجنسیوں‌کی کارستانی قرار دیا۔ تاہم یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس میں‌بیرونی ہاتھ ضرور ملوث تھا جس نے بہتی گنگا میں‌ہاتھ دھونا اپنا فرض‌سمجھا۔ جنرل نصیر اللہ بابر نے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں‌ایم کیوایم کو علیحدگی پسند تنظیم قرار دیا۔ اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے امداد ملتی ہے۔ اس نے یہ دعوٰ ی بھی کیا تھا کہ ایجنسیوں‌نے اس بات کا سراغ لگایا ہے کہ بھارت ان کے پچاس پچاس لوگوں‌کے ٹولوں‌کے دریائے گومتی کے کنارے ٹریننگ دیتا ہے۔ بات کوئی بھی ہو اس کا نتیجہ عوام کے حق میں‌برا نکلا۔ بے پناہ قتل و غارت گری آئے دن فائرنگ کے واقعات جیسے معمول بن گئے تھے۔ ایدھی کے مطابق ان دنوں میں‌حیدر آباد اور کراچی سے چار سو مسخ‌شدہ لاشیں‌برآمد ہوئیں۔ بوریوں‌میں‌بند لاشیں‌ملنا معمول کی بات تھی۔ بقول وزیر داخلہ انھی دنوں‌کھجی گراونڈ‌کو آزاد کروایا گیا۔ گلبہار اور گولی مار کے علاقے میں‌تنگ مکانات اور گلیوں‌کے پیچھے یہ گراؤنڈ دھشت گردوں‌کا گڑھ بن چکی تھی۔ پولوں‌سے زنجیریں‌باندھ کر اور سڑکوں‌میں‌گڑھے ڈال کر کاروں‌اور گاڑیوں‌کی آمدو رفت کو روکا گیا تھا۔ ہر وقت اس جگہ 60سے70دہشت گرد موجود رہتے تھے۔پولیس اور رینجرز نے کاروائی کرکے اس علاقے کودہشت گردوں‌سے پاک کیا ۔ بعد میں‌بی بی سی کے نامہ نگار کو کچھ مقامیوں‌نے بتایا کہ وہ اکثر لوگوں‌کے چیخنے کی آوازیں‌یہاں‌سے سنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس جگہ لوگوں‌پر نشانہ بازی کی مشق کیجاتی تھی کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں‌یہ “قائد“ کے غدار لوگ ہوتے تھے۔ بعد میں‌عقوبت خانے اور اسلحہ وغیرہ میڈیا کو دکھایا گیا۔ ٹی وی پر گرفتار دہشت گردوں کو دکھایا جاتا اسی دوران عظیم طارق چئیرمیںن ایم کیوایم کے قتل کی منصوبہ بندی کا بھی انکشاف ہوا۔ اکتوبر 1993 سے لے کر نومبر 1994 تک فوج کی موجودگی میں‌مارے جانے والے لوگوں‌کی تعداد 701 اور زخمی ہونے والوں‌کی تعداد 1056 ہے۔ اس میں‌غالب تعداد عام شہریوں‌کی ہے تاہم آرمی اور دیگر اداروں اور دوسری جماعتوں‌ کے لوگ بھی شامل تھے۔ فوج کے جانے کے بعد 30 نومبر 1994 سے لے کر 30ستمبر 1995 تک ہلاک ہونے والوں‌کی تعداد پہلے سے دوگنی سے بھی زیادہ 1759 اور زخمی ہونے والے چارگنا4128 تھے۔ اس میں‌غالب تعداد(1103و2500) ایم کیوایم کے لوگوں‌کی ہے جو ہلاک اور زخمی ہوئے اس طرح بے نظیر حکومت کی بدنیتی اور ظلم سامنے آجاتا ہے۔ الطاف حسین کے سیاستدانوں سے معاہدے: الطاف حسین کو ہمیشہ سیاستدانوں‌نے دھوکا دیا۔ سیاست کے میدان میں‌اناڑی ہونے کی وجہ سے سب نے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنا الوسیدھا کیا اور چل دیے۔الطاف حسین ایک طاقتور آدمی تھا بے شک ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سیاستدان اس سے ملاقات کرنے کے لیے وقت مانگا کرتے تھے۔مگر وہ اپنی سیاسی طاقت کو صحیح‌طرح‌استعمال نہیں‌کر سکا۔ ایم کیوایم کا پہلا معاہدہ بے نظیر سے ہوا۔ 1988 کے انتخابات کے بعد مسلسل بارہ روز کے مذاکرات کے بعد یہ 59 شقوں پر مشتمل معاہدہ طے پایا۔ جس پر عمل کبھی بھی نہ ہوسکا۔ اس معاہدے میں‌بھی بقول ایک سیاستدان ایم کیو ایم کی ناتجربہ کاری کے باعث ان کا بنیادی مطالبہ یعنی مہاجر قومیت کو تسلیم کرنا بھی معاہدے سے متفقہ طور پر نکال دیا گیا۔ ان 59 مطالبات یا شقوں‌میں‌تمام کی تمام فروعی توعیت کی تھیں‌جو 6یا7 بنیادی نوعیت کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد پوری ہوجاتیں‌۔ تاہم بے نظیر نے اس کا بھی فائدہ اٹھایا اور ہر بار جب ایم کیو ایم نے احتجاج کی دھمکی دی بے نظیر نے اس معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان کرکے اپنا مطلب نکال لیا۔ بے نظیر سے مایوسی کے بعد اسلام جمہوری اتحاد سے الطاف حسین کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کو کچھ عرصہ خفیہ رکھنے کے بعد منظر عام پر لایا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم کیوایم نواز شریف کے ساتھ حکومت میں‌شامل بھی ہوئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ الطاف حسین کا معاہدہ بے نظیر کے دور حکومت میں‌ہی ہوگیا تھا۔ کیونکہ الطاف حسین بے نظیر سے مایوس ہوچکا تھا۔ نواز شریف نے ایم کیوایم کے بل بوتے پر کراچی اور حیدر آباد میں‌بڑے بڑے جلسے کیے۔ انتخابی ایڈجسٹمنٹ میں‌ کچھ گڑبڑ اس وقت ہوئی جب جماعت اسلامی نے کراچی میں‌اپنی نشستین‌ہارے بغیر چھوڑنے سے انکار کردیا۔ نواز شریف نے ایم کیو ایم سے ہر ممکن تعاون کیا حتٰی کہ جب اس کے سامنے ایم کیوایم کے جرائم کے ثبوت اور عقوبت خانوں‌کے بارے میں‌رپورٹین رکھی گئیں‌تو بطور وزیر اعظم الطاف حسین نے ملاقات کرکے اس بارے میں‌مطلع کیا۔ الطاف حسین نے تعاون کا یقین دلایا اور اس نے ایسا کیابھی تنظیم سے کئی ایسے عناصر کو نکالا بھی گیا۔ مگر شاید دیر ہوچکی تھی۔ فوج اور اسٹیبلیشمنٹ ایم کیوایم کے خلاف ہوچکی تھی۔ بعد میں‌نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد حالات مزید ابتر ہوگئے کراچی میں‌خون کی ہولی کھیلی گئی جس کے شریک تمام لوگ کچھ نہ کچھ قصور وار تھے ایم کیو ایم کے1993 کے انتخابات میں‌چند نشستوں پر امید وار کھڑے کرنے کی اجازت ملی تھی(فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے) جس کے بعد انھوں‌نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں‌ شرکت سے اس لیے نہ روکا گیا کیونکہ مقتدر قوتوں‌کو احساس ہوچکا تھا۔جیتنے والے امید وار لاکھوں‌کے حلقے سے چند ہزار ووٹ لے کر جیتے تھے جو لوگوں‌کی ایم کیو ایم سے محبت کا ثبوت تھا چناچہ ایم کیو ایم نے 24 گھنٹے کے نوٹس پر تیاری کر کے سندھ اسمبلی کے لیے شہری علاقوں سے میدان مار لیا۔ ایم کیو ایم بطور پارٹی: ایم کیو ایم کی تنظیم سازی میں‌مرکز کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اصل میں‌یہ تمام پارٹی الطاف حسین کے گرد گھومتی ہے۔پارٹی کے کارکنوں‌کے ذہنوں‌میں‌قائد کی محبت اور اطاعت راسخ ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان میں‌اگر کوئی تنظیم اس قدر منظم ہے تو وہ ایم کیوایم ہی ہے۔ ایم کیوایم کے حلف نامے میں‌واضح طور پر اللہ اور ماں‌کی قسم کھا کر پارٹی اور الطاف حسین سے وفاداری کا عہد کیا گیاہے۔ جس سے واضع ہوجاتاہے کہ الطاف حسین ایم کیوایم کے لیے کیا ہے۔کسی بھی قسم کی اطلاع جو پارٹی کے مفاد میں‌ ہو یا اس کے خلاف کوئی سازش فوری طور پر اس کی اطلاع مرکز یا قائد کو پہنچانے کی ہدایت ہے۔ الطاف حسین کے اس قدر اثر کی ہی وجہ سے شاید ایم کیوایم کے کارکن قائد کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں‌ کرتے۔ ایم کیو ایم کی ایک اور خاص بات اور جس پر انھیں سب سے زیادہ فخر بھی ہے ان کی مڈل کلاس قیادت ہے۔ یہ بات بالکل قابل تعریف ہے کہ ایم کیوایم کی قیادت مڈل کلاس سے اٹھی اور مقبولیت حاصل کی۔ اب کا حال تو خدا جانتا ہے کیونکہ تازہ ترین دستیاب مواد بھی دس سال پرانا ہے اب شاید کچھ اور صورت حال ہو۔ ایم کیو ایم کا منشور: بنیادی طور پر ایم کیوایم مہاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں‌آئی۔الطاف حسین اور اس جیسے کئی دوسرے بانیانِ پارٹی جو معاشرے کے ڈسے ہوئے تھے نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ٹھانی ۔ اسی لیے اس کا منشور بھی مہاجر قومیت کو درپیش مسائل اور اکثر سندھ کی طرف سے مطالبات پر مشتمل ہے۔ مقامی غیر مقامی کی ایک مخصوص تعریف،کراچی کی ترقی کے لیے مطالبات،سندھ اور مرکز میں‌مہاجروں کی نمائندگی کے لیے حلقہ بندیاں‌اور دوسرے اقدامات،اندورن سندھ کے تعلیمی اداروں‌میں‌مہاجر طلبہ کا داخلہ،سرکاری ملازمتوں میں‌مہاجروں اور شہری سندھ کا کوٹہ،فوج میں سندھ کے لوگوں کی بھرتی کے لیے الگ معیارات،تعلیم کا بجٹ میں زیادہ حصہ اور اہم عہدوں‌پر مہاجروں‌کے تقرر بارے مطالبات اس کے منشور کا حصہ ہیں‌۔ ایم کیو ایم اب مہاجر قومی موومنٹ‌کی بجائے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نام کی تبدیلی اور ملکی سطح‌پر سیاست میں‌آنے کا فیصلہ 14 اگست 1992 میں‌ہونا تھا مگر جنرل آصف نواز کے آپریشن کی وجہ سے (شاید) موخرکردیاگیا۔(اس سلسلے میں زیادہ تفصیل ان کتابوں‌میں‌موجود نہیں‌کیونکہ یہ 1995 تک کے حالات کا حاطہ کرتی ہیں)ایم کیو ایم کے کچھ مطالبات جو میرے علم کے مطابق پورے کیے جاچکے ہیں۔ فوج میں‌سندھ کے لوگوں‌کے لیے قدکا معیار کم کر دیا گیا ہے چونکہ سندھی عام طور پر پست قامت ہوتے ہیں۔ سندھ میں‌اس وقت ڈاکٹر عشرت العباد گورنر ہے جو مہاجر اور ایم کیوایم والوں میں‌سے ہے۔‌ تعلیم کے اخراجات ہر سال بجٹ میں‌بتدریج بڑھائے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم اچھی یا بری: ایم کیو ایم پاکستان کی تاریخ‌کی انتہائی متنازعہ جماعت ہے ۔اس کے حامی حد سے زیادہ حامی اور مخالف بھی حد سے گزر جانے والے ہیں‌۔ الطاف حسین کے بقول ایم کیوایم کے بارے میں‌رائے عامہ بگاڑنے میں‌ایجنسیوں‌اور فوج کا ہاتھ رہا ہے۔ شاید یہ بات ٹھیک بھی ہو۔ تاہم ایم کیوایم سے خود بھی غلطیاں‌ہوئی ہیں۔دوسرے ایم کیو ایم نے کا پیغام عام آدمی تک صحیح‌طرح‌سے پہنچ نہیں‌سکا یعنی ایم کیوایم کا پروپیگنڈا یونٹ خاصا کمزور ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کی بات اور ہے تاہم اگر ایم کیوایم نے ملکی سطح پر مقام پیدا کرنا ہے تو پورے ملک کو اس بارے آگاہی ہونی چاہیے۔ اردو ویب آرگ پر دوران بحث ایم کیو ایم کے کارکن کی طرف سے بدزبانی نے مجھے مہمیز کیا کے اس بارے جانوں‌گو میرا جذبہ بھی منفی تھا کہ اس کی برائیوں‌بارے جانوں‌تاہم عام آدمی جب اس حد سے زیادہ تنگ نظری کو دیکھے گا تو وہ اس بارے کچھ اچھی رائے قائم نہیں‌کرے گا اور صاف سی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے نام سے ہی دور بھاگے گا۔ ایم کیو ایم اب متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ اسے اپنے منشور میں‌وہ مسائل بھی شامل کرنے چاہیں‌ جو پاکستان کے دوسرے علاقوں‌کےعوام کو درپیش ہیں۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کا یہ نعرہ کہ وہ وڈیروں جاگیر داروں کے مخالف ہیں غریب کے لیے کشش کا باعث ہے مگر بات عمل کی ہے۔ ایم کیو ایم غریب قیادت کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر مشرف حکومت میں وزارتیں‌لے کر سکون سے بیٹھی ہے اور غریب ختم ہورہے ہیں‌۔ صرف کالا باغ اور بلوچستان کے مسائل پر ہمیں‌پتا چلا کہ ایم کیوایم بھی ہے ورنہ ان لوگوں‌نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ شاید اب ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ بات کہاں‌سے چلی اور کہاں‌پہنچی۔ خلاصہ یہ کہ ایم کیوایم کی تاریخ‌آپکے سامنے ہے۔ میں نے حتٰی لامکان حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے ماضی اور حال کو دیکھ کر آپ بہتر فیصلہ کر سکیں‌گے کہ کیا صحیح‌اور کیا غلط ہے۔ اللہ ہمیں‌صرف اور صرف پاکستان کو سامنے رکھ کر سوچنے اورعمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔‌‌

کاروبار

جانی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر اس خوش پوش جوان کی طرف جو اب انارکلی کی طرف جارہا تھا۔وہ اس آدمی کے پیچھے پچھلے ایک گھنٹے سے لگا ہوا تھا مگر تگڑا شکار ہونے کے باوجود اسے مناسب موقع ہاتھ نہیں لگا تھا۔جیسے شکار انارکلی میں داخل ہوا جانی بھی اسکے پیچھے مگر نسبتٌاقریب ہوکر بازار میں داخل ہوگیا۔ پھر وسط تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ ایک مخصوص دھکے کے ساتھ اپنا کام کرچکا تھا۔ جوان کا دیدہ زیب سا بٹوہ اس کی خفیہ جیب میں تھا۔ اس مرغی کی طرح جسے انڈہ دینے کے لیے جگہ درکا ہوتی ہے اب جانی کو بٹوے کی تلاشی کے لیے کوئی مناسب جگہ درکار تھی۔ انارکلی سے انھی پیروں واپس نکل کر اب وہ کسی سنسان گوشے کی تلاش میں تھا تاکہ اپنے گناہ کا بوجھ ہلکا کرسکے۔پھر ایک ویران سے گوشے میں چند بند دوکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے جلدی سے بٹوہ نکالا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔ دھت تیرے کی" بےاختیار اس کے منہ سے یہ فقرہ ایک وزنی گالی کے ساتھ برآمد ہوا۔ اس بٹوے میں بھی ایک معشوق کی" تصویر، چند تعارفی کارڈوں اور ایک بیس روپے کے نوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بیوہ کی ویران مانگ کی طرح بٹوے کو خالی دیکھ کر جانی کا جی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔ یہ صبح سے تیسرا شکار تھا جس کی جیب سے اسے پچاس سے بھی کم روپے ملے تھے۔ اس سے زیادہ روپے وہ بس کے کرائے میں دے چکا تھا۔ جانی نے بٹوے کو مایوسی سے ایک طرف پھینکا اور دوبارہ کسی مرغے کی تلاش میں چل پڑا۔ اتفاق سے انارکلی سے باہر نکلتا ہواجوڑا اس کی نظر پڑ گیا جو شکل سے سفید پوش نظرآرہے تھے مگر جب ان کے درمیان بس اورٹیکسی سے گھر جانے پر جھگڑا ہونے لگا تو اس نے آدمی کی کنجوس ذہنیت بھانپ لی ۔ اب جانی ان کے پیچھے تھا۔ کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد آخر بیوی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل پڑے۔ جانی بھی اچھے شکار کی امیدمیں ان کے پیچھے تھا۔ بس میں چڑھ کر جب مرد نے ٹکٹ لینے کے لیے بٹوہ نکالا تو اس میں لال رنگ کی جھلک دیکھ کر جانی کو کچھ صبر آیا۔ اسی دوران بس میں ایک نوعمر سا لڑکا چڑھ آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک صندوقچی تھی جس پر کسی مدرسے کا نام لکھاہوا تھا سر پر ٹوپی،چہرے پر معصومیت اور یتیمی اور آوازمیں کچھ اس قسم کا درد بسا ہوا تھا کہ لوگ بے اختیار اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہورہے تھے۔ جانی جو اس دوران شکار پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے آگے بڑھ رہا تھا مایوسی سے ایک طرف کھڑا رہ گیا اس کے شکار نے بھی اپنے بٹوے سے دس کا ایک نوٹ نکال کر اس کی صندوقچی میں ڈال دیا۔جانی یہ سب دیکھ کر صرف زہر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا اس لڑکے کی وجہ سے اس کا وقت ضائع ہورہا تھا۔ آخر سمن آباد کے سٹاپ سے پیچھے ایک جگہ اس نے شکار مار لیا اور اب وہ بس سے اتر کے اپنے اڈے کی طرف پیدل چلنے لگا۔ اس دوران وہ بڑی بے پرواہی سے بٹوہ کھول کر اس کا جائزہ بھی لے رہا تھا جس میں سے اکلوتا سو کا نوٹ جھانکنے لگاتھا۔ جانی نے اپنی دن بھر کی کمائی کا حساب لگایا تو بمشکل سو روپیہ بنا باقی روپے بس کے کرائے میں نکل چکے تھے۔ "لگتا ہے آج پھر استاد سے سننا پڑیں گی" اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔ اڈے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں گُلّو کی چیخیں پڑنے لگیں۔ استاد کے سامنے مرغا بنا گُلّو معافی مانگ رہا تھا مگر استاد معاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ جانی کو دیکھ کر استاد نے جوتے مارتا اپنا ہاتھ روک لیا ۔ ہاں بھئی شہزادے کیا کمائی کرکے لائے ہو" خلاف معمول استاد کا لہجہ طنزیہ تھا۔ " جانی نے سو کا نوٹ اس کے آگے رکھ دیا تو استاد کو جیسے پتنگے لگ گئے۔ اب اسکی توپوں کا رخ جانی کی طرف تھا۔ جانی کے لمبے قد اور اپنے برابر جسامت کی وجہ سے اسے مار تو نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے لفظوں کی مار مارنا شروع کردی۔ جانی سر جھکائے استاد کی کڑوی کسیلی سن رہا تھا۔ استاد رحیم دادا جو اپنے شاگردوں میں صرف استاد کے نام سے مشہور تھا علاقے کا نامی غنڈہ تھا۔ پولیس سے دیرینہ یاری تھی اور جوئے کے علاوہ پاکٹ مارنے کا دھندہ بھی اپنے شاگردوں سے کرواتا تھا۔ ".استاد کیا کروں ۔ صبح سے چار شکار ہی کچھ کام کے ملے مگر ان سے بھی پچاس سو ہی نکلے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے" جانی نے منمناتے ہوئے مزید وضاحت کی "لوگ تو جیسے جیبوں میں کچھ لے کر ہی نہیں نکلتے۔ سارا دن خواری کے بعد یہ کچھ ہاتھ لگا ہے“۔ ابے میں کیا کروں۔ وہ تمہارا باپ تھانیدار ماہانہ مانگ رہا ہے۔ ماں کا خصم کہتا ہے جوے کا اڈہ بند رہنے دو اوپر سے سختی ہے اور تم کچھ لا کر نہیں دیتے۔ کیا تمہاری ۔۔۔۔۔ کو بیچ کر اسے ماہانہ دوں۔ اڈےکا خرچہ تم سب کا روٹی پانی کیا تمہارا باپ کرے گا آکر۔ کچھ لاؤ گے تو میں یہ سب کروں گا" ۔ رحیم دادا اس بار جیسے پھٹ پڑا تھا۔ پھر جیسے جیسے سب آتے گئے کسی کے پاس سے بھی سو سے زیادہ روپے نہں نکلے۔ اور استاد کا غصہ آسمان کو چھونےلگا۔ آخر اس نے بڑی ملائمت سے کہنے لگا۔ آج سے یہ اڈہ بند اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں جب لا کر نہیں دیتے تو میں کیا خود کو بیچ دوں۔ ماہانہ ہے نہ میں بھگت لوں گا تم لوگ جان چھوڑو میری"۔ اب کے رحیم دادا نے اپنے مخصوص اندازاور لہجے میں کہا تھا لڑکے جانتے تھے کہ اس کا لہجہ اتنا ملائم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ غصے کی انتہا پر ہو۔ "نہیں استاد!ایسا بھلا کیسے ہو سکتاہے۔ ہم کہاں جائیں گے اڈے کے سوا۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون ہے دنیا میں" تمام لڑکے اس قسم کے جملے بول کر استاد کی منتیں کرنے میں لگے تھے اور جانی کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ صندوقچی والا لڑکا اسے بری طرح یاد آرہا تھا۔ اس لڑکے کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ گندی سی بستی میں رہنے والا یہ لڑکا کسی مدرسے کا طالب علم نہیں تھا بلکہ یہ اسکے پورے خاندان کاکاروبار تھا۔ اس کا باپ اور چھوٹے بڑے تمام بھائی صبح گھر سے یہ صندوقچیاں لے کر نکلتے تھے اور شام کے ہزاروں روپے کما کر گھر لوٹتے تھے۔ "استاد میری بات سنو۔" جانی کے انداز میں کچھ ایسی بات تھی کہ سب چپ ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے استاد بھی ناراض ناراض سا اسکی طرف متوجہ تھا۔ .استاد! اگر ہم اپنا کام بدل لیں"۔ جانی نے گویا سسپنس پیداکیا ابے کل کے لونڈے اب مجھے کام بدلنے کے مشورے دے گا۔ کیا پھول بیچا کرےگا کل سے " اپنی معشوق کے گھر کے باہر " استاد نے ترشی سے کہا۔ "استادبات تو پوری ہونے دو۔ " یہ کہہ کر وہ استاد کو اپنی تجویز بتانے لگا۔ سب بتانے کے بعد وہ بولا "استاد چاندی ہو جائے گی اگر میری بات مان لو۔ نہ پولیس کا ڈر اور دین کا بھی بھلا۔ یعنی ہم خرمہ وہم ثواب" جانی نے اس مرتبہ اپنے میڑک پاس ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ جانی کی بات سن کر استاد سوچ میں پڑ گیا پھر کئی منٹ سوچتے رہنے کے بعد اس نے اثبات میں سر ہلایا تو سارے لڑکوں نے مل کر استاد کو سر پر اٹھا لیا۔ نئے کاروبار کے سلسلے میں انتظامات کرنا اب جانی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے اپنے ایک واقف کار جستی پیٹیاں بنانے والے کودرجن بھر صندوقچیاں بنانے کا آرڈر دے دیا۔ ساتھ ہی رسید بک اور لڑکوں کے لے کرتہ شلوار کا آرڈر بھی دے کر وہ ٹوپیاں خریدنے چل پڑا۔ لڑکے اس کے ساتھ تھے کرتا شلواروں کا ناپ دینے کے بعد وہ سب مارکیٹ میں اپنی پسند کی ٹوپیاں خریدنے لگے۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ اڈے پر واپس آئے تو استاد چارپائی پر لیٹا سوچ میں گم تھا۔ "ابے یہ جو جعلی مدرسہ چلائے گا تُو اسے اصلی مدرسہ کیوں نہ بنادیں۔ “ جانی استاد کی بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔ "استاد اس کے لیے انتظام کیسے کروگے۔ پلاٹ کا انتظام پھر مدرسہ چلانے کے لیے مولوی بھی تو چاہیے۔" "ابے میں کس لیے ہوں کسی مولوی کی شاگردی اختیار کیے لیتا ہوں دو چار ماہ میں کام سیکھ جاؤں گا۔ اپنا گلشن والا پلاٹ اسی دن کے لیے رکھا تھا۔ وہاں بنیادیں کھدوا دیتے ہیں اور اپنے مدرسے کا بورڈ لگوادیتے ہیں۔ اتنے عرصے میں تم لوگ کام کرو اور جمع کیے چندے سے دیواریں اٹھانا شروع کردیں گے"استاد کا مفصل جواب سن کر جانی بھی راضی ہوگیا۔پھر وہ پینٹر سے بورڈ بنوانے کے لیے روانہ ہوگیا اور لڑکے اچھل کود اور چندہ مانگے کی مشق کرنے لگے۔ استاد انھیں ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہا تھا ابے ایسے نہیں چہرے پر مسکینی لا اور آواز میں درد پیداکر."۔ جب باوجود کوشش کے لڑکوں کی آواز میں درداور شکلوں پر یتیمی پیدا نہ ہوسکی تو استاد نے ان کے تھپڑ لگانے شروع کردیے۔ "اب ٹھیک ہے۔ آئندہ سے تمہاری شکلیں کام پر جاتے ایسی ہونی چاہئی اور آوازیں کم نکالنا صرف رسید بک اور صندوقچی آگے کردیا کرنا۔"۔ استادنے سب کو باری باری آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔ اگلے دن جانی تمام چیزیں لے آیا۔ صندوقچیاں جن پر پینٹ سے "مدرسہ رحیم القرآن" کو چندہ دینے کی اپیل کی گئ تھی۔ چھوٹی چھوٹی رسیدی کتابیں اور پلاٹ پر لگانے کے لیے بڑا سا بورڈ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔ "زیر تعمیر مدرسہ رحیم القرآن ۔ یہ مدرسہ آپ کا ہے۔ اس کی تعمیر میں اینٹ،سیمنٹ،بجری اور سریے سے معاونت کیجیے" نیچے استاد کا موبائل نمبر تھا جو اسی دن استاد اور جانی نے جاکر بازار سے لیا تھا۔ پھر اسی دن استاد کسی مولوی کی شاگردی اختیار کرنے اور لڑکے چندہ جمع کرنے نکلے۔ شام کو جب سب جمع ہوئے تو کسی کے پاس بھی پانچ سو سے کم رقم نہیں تھی اور استاد کو آخر ایک مدرسے کے مولوی صاحب نماز،قرآن اور دین کی بنیادی باتیں سکھانے پر راضی ہوگئےتھے۔ یہ چھ ماہ بعد کی بات ہے۔ اب مدرسے کی بغیر پلستر کے نچلی منزل تیار ہےجہاں سے کچھ بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ان میں استاد جو اب مولانا رحیم داد کے نام سے گلشن میں مشہور ہے کے کچھ پرانے شاگرد بھی شامل ہیں۔ جبکہ باقی شاگرد اب چندہ جمع کرنے کا کام کرتےہیں۔رحیم داد کی اب فٹ بھر لمبی ڈاڑہی ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے جس کی امامت بھی وہ خود کراتا ہے۔ مقتدیوں میں محلے کے کچھ لوگ بھی آکر شامل ہوجاتے ہیں۔ مولانا رحیم داد روزانہ صبح اہل محلہ سے مسجدمدرسے کی تعمیر کے لیے لاؤڈ سپیکر پر چندے کی اپیل کرتا ہے۔جس کے نتیجہ میں‌ مدرسہ کی تعمیر زوروشور سے جاری ہے۔اب کے عید پر کھالیں بھی مولانا کی ہونگی۔ بلکہ محلے والے اب اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کی قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ مولانا کی بیوی بچیوں کو بخوبی پڑھا سکتی ہے۔ چناچہ اب مولانا رحیم داد اپنے لیے بیوی اور اپنے شاگردوں کے لیے ایک عالمہ فاضلہ استانی کی تلاش میں بھی ہے۔

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم

:تمہید موضوع چھیڑ بیٹھا ہوںمیر ےلیے بھی لکھنا ایسا ہی ایک عمل ہے جب میں پڑھ پڑھ کر لبا لب بھر جاتا ہوں تو میرے اندر کھد بد سی ہونے لگتی ہے۔ کوئی ٹہوکے دیتا ہے کہ کچھ لکھ۔ پھر میں جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں،اوپر نیچے، لیٹتے اٹھتے سوچتا ہوں اورجب تک کچھ لکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ آپ شاید میری میں میں سے جان گئے ہونگے کہ میرے اندر کسی اور چیز کی خواہش ہو یا نہ ہو یہ میں میں تھی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ اسی میں میں سے مجبورہو کر میں لکھنے بیٹھا ہوں۔ مگر قلم اور ذہن ساتھ نہیں دے رہے۔ مجھے بھی انوکھی سوجھا کرتی ہیں۔ ایک ایسا موضوع جس پر پہنچ کر بڑے بڑوں کے پر جل جاتے ہیں اور قوت پرواز دم توڑ جاتی ہےکو لکھنے لگا ہوں۔ مگر میں بھی مجبور ہوں ۔ میرے اندر ہر طرف میں میں ہو رہی ہے ۔ اور میری نظر میں اس کا حل یہ ہی ہے کہ کچھ لکھوں ۔ کیا لکھوں؟ تو میں نے سوچا کیوں نہ اپنے سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کچھ لکھوں ۔ میں کیااور میری اوقات کیا۔ گندی نالی کا کیڑا۔ مگر میں بھی مجبور ہوں۔ شاید آپ اکتا گئے ہوں کہ یہ بندہ کس وجہ سے مجبور ہے۔ اس لیے کہ میں بہت سارا پڑھ چکا ہوں جب میں بہت سارا پڑھ چکوں تو میرا لکھنے کو دل کرتاہے۔ میری مثال اس ٹنکی کی طرح ہے جو پانی سے بھر جاتی ہے تو پانی رسنے لگتاہے۔ اگر ٹونٹی نا کھولی جائے تو پانی رستا ہی جاتا ہے۔ اس لیے میں لکھنے پر مجبورہوں میں کی بات چلی ہے تو اس کا سبب نفس بھی دیکھ لیں ۔ نفس بھی عجیب چیز ہےاللہ نے انسان میں رکھ دیا۔ سنا کرتے ہیں کہ نفس کوتو ہزاروں سال جہنم کی آگ میں جلایا گیا پھر جب رب کریم نے اس سے پوچھا بتا میں کون ہوں تو بولا تُو تُو ہے اور میں میں ہوں ۔ آگئی نہ بات میں کی۔ میرے اندر یہ ہی میں میں ادھم مچائے رکھتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنے اندر دبا لیتے .ہیں اور کچھ میرے جیسے سرِ بازار اپنی میں کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں اب میں نے بہت میں میں کر لی ہے۔ چلا کیا لکھنے تھا اور لکھ کیا رہا ہوں۔ مگر کیا کروں میرے جیسے جاہل اور منافق سے اور امید ہی کیا کی جاسکتی ہے۔ :تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان یہاں تو بڑے بڑے عالم فاضل موجود ہیں۔ جنھوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھا ۔ اور خوب لکھا۔ کسی نے ایک مخصوص پہلو پر لکھا اور کسی نے پورے کردار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ۔ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے گئے ۔ سنا کرتے ہیں کہ کئی بزرگوں نے تو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر نقطے تک کے کتابیں لکھیں ۔ ان علمی سورجوں کے سامنے میری حیثیت ہی کیا ہے ۔ مگر سچ بتائیے دل تو ہر کسی میں ہوتا ہے ناں ۔ میرے اندر بھی دل ہے۔ میرا بھی جی کرتا ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ لکھوں۔ اگر چہ میرے پر جلنے لگے ہیں۔ میرا قلم رک رک کر چلتا ہے۔ میرے اندر ہمت نہیں مگر میں کچھ نہ کچھ لکھوں گا ضرور۔ شاید میرا اس تحریر کے صدقے ان کے عشاق میں نام آجائے۔ میں اس کی تعریف کیا کروں جسکی تعریف رب کائنات کرتا ہے۔ فخر موجودات،سرور دوعالم، رحمتہ اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم۔ میرے خیال میں تو اس سے جامع تعریف ہو ہی نہیں سکتی "اللہ اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجتے ہیں سو اے ایمان والوں تم بھی ان پر درودو سلام بھیجو۔" اس سے آگے تو تعریف کے الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔ جب اللہ کہتا ہے کے ان پر درود بھیجو۔ پھر کیسی تعریف ۔ جس کا مقام وہاں کہ جبریل کے پر جلتے ہیں جس کا مقام وہاں کی میرے جیسے گندی نالی کے کیڑے بھی اس کے امتی ہونے اور اس کی شفاعت کے امید وار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں اسکی اور کیا تعریف کی جائے ۔ یا شاید یہ سمجھ لیجیے میرا قلم جواب دے گیا ہے مجھے اس عظیم ہستی کی تعریف اس کی عظمت اور بزرگی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے میں تو عامی ہوں عام سی باتیں کرنے والا شاید اپنی بساط سے بڑا بوجھ اٹھانے چلا ہوں۔ اس بات کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ :عام سی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی سب کرتے ہیں ۔ داڑھی والے جن کے سر پر بڑے بڑے جبے اور دستاریں ہوتی ہیں اور شلواریں ٹخنوں سے اونچی ۔ محبت کا دعوٰی مجھ جیسے منافق بھی کرتےہیں جن کی نا ظاہری ہیت ان سے میل کھاتی ہے اور نہ ہی باطنی ہیت مگر پھر بھی ان کے امتی ہونے پر اس طرح اکڑتے پھرتے ہیں جیسے مرغ مرغی کو فتح کرنے کے بعد سینہ پھلائے پھر تا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی عجیب چیز ہے۔ اللہ کو کوئی برا کہے تو ہمیں برا نہیں لگتا۔ مگر جب کوئی ان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو اندر آگ سی لگ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں غازی علم دین شہید جیسے کئی کردار نظر آتے ہیں جو بظاہر عام سے مسلمان ہیں مگر ناموس رسول پر اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔عجیب جذبہ رکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے اندر اسے کوئی کچھ کہے تو خود ہی کہتا ہے کہ رہنے دو انھیں کچھ نہ کہو اور اگر اس کے نبی کو کوئی کچھ کہے تو سننے والے کے اندر باہر آگ سی لگ جاتی ہے۔ یہ عام سی باتیں ہیں۔ مرزائیوں کا پیشوا ہو،یا سلمان رشدی جیسا شاتم رسول جب ان کے نام سامنے آتے ہیں تو بے اختیار لبوں پر جو پہلا لفظ آتا ہے وہ کلاسیکل قسم کی گالی ہوتاہے۔ یا اگر کوئی بہت ہی مہذب ہوگا تو گالی کے بغیر بات کر لے گا۔ حب رسول بھی عجیب چیز ہے اور ہم بھی عجیب تر ۔ دعوٰی تو محبت کا ہے مگر کام ۔۔۔۔۔ کام نہ پوچھیں۔ عجب لوگ ہیں ہم بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی ہے تو اسے نبھانے کی کوشش بھی کیجیے جتناہوسکے۔ محبت سے یاد آیا محبت کرنے کے کچھ آداب ہواکرتےہیں۔آپ میں سب ہی جانتے ہیں کہ جب ہم کسی کا ذکر محبت سے کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارا ذکر محبت سے کرتا ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کر نی ہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا مگر ہم اپنی سی کوشش تو کر سکتے ہیں ۔ ہمیں اللہ کی طرف سے حکم بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کریں۔ تو صاحبو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھتے رہا کرو۔ اس پر کونسا پیسے خرچ ہوتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اگر یہ کام کرتے رہیں تو یہ فطرت بن جائے گی۔ درود کا جاری ہونا بھی قرب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی ہے۔ اس لیے اگر ان کے قریب ہونا لہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے ۔ لکھنے کیا بیٹھا تھا اور لکھا کیا۔ اسی لیے کہا تھا کہ ابھی میری اڑان اتنی نہیں ۔ مگر پاپی دل مان کر نہیں دیتا تھا۔ اب اسے سکون ہے۔ مجھے اتنی دیر برداشت کیا میری میَں میَں برداشت کی آپ کا شکریہ۔ اللہ ہمیں حب رسول صلی اللہ علیہ سلم نصیب فرما دے۔آمین (نوٹ: ایک دوست نے میری تحریر بارے استفسار کیا تھا کوئی بھی اپنے بلاگ پر میری تحریر شائع کر سکتا ہے۔ تبصرے کے ذیل میں)‌مجھے مطلع کر دیجیےگا)

میرا پاکستان

مجھےپاکستان سے کبھی اتنی الفت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ کو اس کا پس منظر بتاتا ہوں۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی گزرے رمضان کی بات ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا:شاکر مجھے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش خریدنا ہے اپنے لائبریرین سے کہہ کر منگوا دو میں عید پر گھر آیا تو لے جاؤں گا۔ میں نے حسب وعدہ کتاب وقت مقرر سے پہلے منگوا کر رکھ لی۔ میں ازلی کتابوں کا بھوکا۔ ایک کتاب سامنے پڑی ہو اور اسے پڑہوں نا چناچہ میں نے ایک یا دو نشستوں میں وہ ساری کتاب چاٹ ڈالی۔ اس سے پہلے میں نے ممتاز مفتی کو کبھی نہیں پڑھا تھا۔ کبھی کبھار رسالوں میں ڈائجسٹوں میں اس کی تحریروں سے اقتباسات چھپتے رہتے تھے. میں اسے صوفی ٹائپ بندہ سمجھتاتھا۔ یہ کتاب پڑھی تو پتا لگا یہ بندہ تو مولویوں کے خلاف ہے۔ مولویوں کی مخالفت ہر نوجوان کی طرح میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ اقتباسات اپنے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں۔ اللہ کو حلق کے نچلے پردوں سے اس طرح نکالتے ہیں کہ اللہ ہا بن جاتا ہے۔ جیسے ان کا اللہ ہمارے اللہ سے مختلف ہو جیسے اس نے سر پر بھاری ": "سا جبہ دستار اور یہ بڑی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہو میں بہت ہنسا تھا اس کے اللہ کو اللہ ہا کہنے پر ۔ پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اس بات پر مولاناؤں کی محافل میں بیٹھتا تھا یہ سب سنتا بھی تھا مگر کسی نے اتنی جرأت کبھی نہیں دکھائی تھی۔ میں نے سوچا بندہ یہ اپنی برادری کا لگتا ہے اسے پڑھنا چاہیے۔ میں نے اگلے دن ہی اپنے لائبریرین سے ممتاز مفتی کی کتابوں کی فرمائش کر دی۔ ایک دوافسانوں کے مجموعے پڑھے،اچھا لکھا تھا نفسیات موضوعِ بحث ہوتی تھی مگر وہ چیز نہیں جو میں چاہتا تھا۔ میں تو اس بات کہ تلاش میں تھا کہ یہ بابوں ،مولویوں اور اسلام کی بات چھیڑے۔ پھر میرے لائبریرین نے مجھے علی پور کا ایلی پڑھنے کے لیے دی۔ اس میں بابوں کا کچھ ذکر تھا۔ پڑھ تو میں نے لی مگر اس نے میرے کئی طبق روشن کردیے۔خصوصٌٌا عورتوں کے بارے میں مفتی کے مشاہدات اور ارشادات۔ یہ سب بھی پہلی بار سنا تھا۔ خیر اسی ناول میں پہلی بار میں نے شعوری طور پر نصاب سے ہٹ کر تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا۔ اس بارے میں مفتی کے مشاہدات جانے :اورپھر جیسے جیسے ان پر سوچا یقین کیجیے مجھے ان سے ایک فیصد بھی اختلاف محسوس نہ ہوا۔ مفتی کہتا ہے ہندو بڑی شائستہ قوم ہیں۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اچھے انسان ہیں اور کاروباری تو بہت ہی اچھے ہیں ۔مگران کو جب بھی موقع ملے یہ مسلمانوں کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی اس خوبی کا میں معترف ہوں کہ انتقام کو ہماری طرح ایک ہی بار ظاہر نہیں کر دیتے اسے دل میں چھپا کر رکھتے ہیں سینت سینت کر پھر جب موقع ملتا ہے تو مسلمانوں پر کاری وار کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔آل انڈیا کانگرس کی کمیٹی کی قرار داد کے وہ الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں :یہ کہا گیا ہے کہ انڈیا جیسا ہے جہاں ہے ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اور اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے اسکی اصل کی طرف لوٹائیں۔ پھر مفتی چھرا بازی کے واقعات بارے سناتا ہے جو اس جیسے برائے نام مسلمان کے اندر کو بھی جنجھوڑ دیتے ہیں اور اسےیہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ اسی طرح ناول میں کچھ بابوں کا بھی ذکر ہے۔ دلی کے حاجی صاحب اور پاگ بابا۔ اور پھر بڈھا جو مفتی کا انتظار کر رہا ہے۔جس کے بارے میں پاگ بابا اسے بتاتا ہے۔ اس کے بعد مفتی کی آپ بیتی کا دوسرا حصہ الکھ نگری پڑھی اور یہاں سے پاکستان کے بارے میں میری سوچ میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ الکھ نگری تھوڑی سی مفتی نامہ اور باقی پاکستان نامہ اور پاکستان کے حوالے سے بابے نامہ اور شہاب نامہ ہے۔ مفتی الکھ نگری میں پاکستان اور قدرت اللہ شہاب کے گرد ناچتا ہے دیوانہ وار ناچتا ہے لوگوں کو بتاتا ہے دیکھو یہ جو پاکستان نظر آرہا ہے یہ ایسے ہی نہیں ہو گیا اس کے پیچھے بڑے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ مفتی کو بڈھا مل جاتا ہے۔جسے وہ مرشد تو نہیں بناتا مگر اس کااحترام ضرور کرنے لگتا ہے۔ مفتی جیسا اڑیل احترام بھی ڈنڈے کھا کر کرتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ بابا اس پر رونا مسلط کر دیتا ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے چلتے پھرتے مفتی بھوں بھوں کر کے رونا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے بندے کے ہاتھوں وقوع پذیر ہو رہا ہے جو اس دنیا میں موجود نہیں آخر مفتی ہار مان لیتا ہےاور بابے کےحلقے میں شامل ہوجاتاہے۔ پھر مفتی کو پاکستان بارے کئی باتوں کا پتا چلتاہے۔ جیسے بھائی جان جو کہ بڈھے کے مرید خاص ہیں اسے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے منصوبے کے روحانی طور پر چیف کوآرڈینیٹر بابا جی تھے۔ انھوں نے ریاست دکن کے نواب کو پیغام بھیجا تھا کہ آؤ تمہیں ایک اسلام ریاست کا وزیراعظم بنا دیں۔ پھر یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سے زیر عمل لایا گیا۔ مفتی ایک دن بیٹھے بیٹھے بھائی جان سے پوچھ لیتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا تو اسے بتایا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دے اس کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں۔ وہ بس یہ خیال رکھے کہ کوئی کام ایسا تو نہیں کر رہا جس سے پاکستان کو نقصان پہچنے کا احتمال ہے۔ یہاں سے مجھے پتا چلا کہ پاکستان کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں ۔ پھر میں بھی مفتی کی طرح پاکستان کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ مجھے اس سے محبت تو پہلے سے ہی تھی مگر اب کچھ اور قسم کی ہے۔ کیونکہ میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے محبت ہے اس لیے مجھے بھی اس سے محبت ہے۔ میں جب یہ سوچتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے پاکستان کو بنانے کا اذن ملا تھا تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جسے وہاں سے اجازت مل جائے اسے کیا چاہیے۔ خیر ذکر مفتی کا ہو رہا تھا تو اسی طرح چلتے چلتے مفتی شہاب کو داستان میں گھسیٹ لیتا ہے۔ بڈھا،بھائی جان اور بڑی بڑی ہستیاں قدرت اللہ شہاب کا ذکر احترام سے کرتی ہیں۔اور پھر مفتی قدرت اللہ شہاب کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔پاکستان سے تو اسے محبت تھی ہی اور یہ محبت شہاب کے توسط سے دوہری ہوجاتی ہے۔ پھر اسی دوران اس پر کئ انکشافات ہوتے ہیں ۔پاکستان کی ترقی بارے،پاکستان کی عظمت بارے اور وہ اپنی تحریروں میں جابجا پاکستان کا ذکر اس طرح کرتا ہے جیسےپاکستان کوئی بزرگ ہے۔ صاحبو سچ پوچھو تو مفتی کی ان ہی تحریروں نے میرے گوڈوں میں پاکستان کا عشق اس طرح بٹھا دیا ہے جس طرح گھٹیا کے مریضوں میں درد بیٹھ جاتے ہیں۔ مفتی جابجا اس طرح پاکستان کی عظمت کی کلیاں ٹانکتاہے اور اس کی آنے والی شان کے بارے میں راگ الاپتا جاتا ہے کہ میں مسحور ہو تا جاتا ہوں اور اب میرا یہ حال ہے کہ کوئی پاکستان کے بارے میں خدشے کا اظہار کرتا ہے تو مجھے وہ بچہ محسوس ہوتاہے میرا جی کرتاہے کہ چیخ چیخ کر اسے بتاؤں فکر نہ کرو اس کی فکر کرنے والی ہستیاں ہیں تم بس اپنے آپ کو ٹھیک کرلو۔ مفتی شہاب کے ساتھ فیصل آباد کے ایک قصبے میں ایک بزرگ سے ملنے جاتا ہے تو وہ برزگ دو ڈھائی سو لوگوں کے مجمع میں کہتے ہیں لوگو ایک دن ایسا آئے گا جب یواین کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا تم وہ دن دیکھوگے ہاں ہم نہیں ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو تم میری قبر پر آکر تھوکنا مفتی کا ایک دوست ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں ہالینڈ جاتا ہے وہاں ایک اسلامی نایاب کتب کی لائبریری میں دوران ریسرچ اس پر کھلتا ہے کہ حضرت بری امام رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے قدموں میں ایک عظیم اسلامی مملکت کا شہر آباد ہوگا۔بری امام کا مزار تو آپ جانتے ہیں نا اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں جس کی طرف جانے والی سڑک سی ڈی اےوالوں نے توڑ دی تھی اور وہاں جانے والے ٹانگوں کا اسلام آباد سے گزرنا منع ہے۔ مفتی حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر بھی کرتا ہے جب انھیں انگریز جنگ آزادی کی ناکامی پر گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کی وہ ریاست جو انھوں نے پنجاب میں قائم کی تھی ختم ہوجاتی ہے تو بوقت گرفتاری مجمع سے ایک مجذوب باہر آکر انھیں تسلی دیتا ہے کہ نوے سال بعد اسی سرزمین پر ایک عظیم اسلامی مملکت قائم ہوگی۔ پھر پینسٹھ کی جنگ جس میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ چھوٹے قد والے سرخ اور سفید لباس والے اور سفید گھوڑوں والے اور برق پاش تلواروں والے بھی لڑے۔ پاکستان کی ایک خاتون جو کہ عرصے سے مدینہ میں روضہ رسول کے قریب مقیم تھیں دیکھتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح روضہ مبارک سے باہر آۓہیں کہ ان کی زلفیں پریشان ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاکستان جہاد کے لیے جارہے ہیں۔ مفتی اس طرح کی کئی باتیں کرتا ہے۔ پھر ایک شاہ صاحب کا تذکرہ جو صاحب کشف ہیں بتانے ہیں کہ انڈیا پاکستان میں ایک بڑی جنگ ہوگی لاکھوں لوگ مارے جائیں گے پھر پاکستان کو عروج حاصل ہوگا۔ سبز آنکھوں والا ایک حکمران جو شاید افریقہ یا یورپ سے ہے آۓ گاا ور سب کو سیدھا کر دے گا پھر پاکستان اسلامی دنیا کو لیڈ کرےگا۔ اس قسم کی بے شمار حکائتیں۔جو ممتاز مفتی بیان کرتاچلا جاتا ہےاور میرے جیسا بندہ جو پاکستان کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس چکا ہےپڑھ پڑھ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ سب آپ سے شئیرکرنے کامقصد کیا ہے؟ یہ کہ آپ لوگ نراش نہ ہوں۔ ہمت نہ چھوڑیں ۔ اس ملک کی فکر کرنے والے موجود ہیں ہمیں بس یہ کرناہے کہ اسکی ترقی کے لیے کام کریں ثمر اللہ دے گا۔ بس بیج ڈالنے کی ضرورت ہے پھل تو آنے کو بے تاب کھڑا ہے۔ ہمارے اس ملک نے آگے چل کر ایک ذمہ داری اٹھانی ہےایک ععظیم مقصد پورا کرنا ہے اور وہ ہے اسلامی دنیا کی قیادت۔ جانےیہ عظمت اسے کس کے طفیل ملے گی مگر ساتھ ہم جیسوں کی بھی چاند ہوجائے گی۔ اس لیے مایوسی نہیں بس کام کرنا ہے پاکستان کے لیے اس کی ترقی کے لیے۔ ے کو عظمت ملےگی انشأءاللہ ضرور ملے گی جانے کس کی برکت ترقی اب بھی تو کم نہیں۔ پاکستان جس کا ایک نام ہے۔ باوجود بے شمار اندورنی بیرونی خطرات کےباوجود یہ پھلتا جارہا ہے پھولتا جارہا ہے۔ اسکے دشمنوں کے اندر جل رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہ پاکستان ترقی کر ہا ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے اس لیےکبھی وہ ہمیں اندر سے بلوچستان اور اس جیسے کئی دوسرے طریقوں سے تنگ کرتے ہیں تو کھبی براہ راست وار کرتے ہیں مگر دشمنوں کے واویلے کے باوجود کیا پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا۔ کتنے عرصے سے یہ لوگ اسلامی بم اسلامی بم چِلا رہے تھے اب اسلامی بم ان کےسروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اور وہ صرف پیچ وتاب کھا سکتے ہیں۔ میزائل ٹیکنولوجی میں بے مثال ترقی، کروز میزائلوں کی طرف قدم اور خلا کی تسخیر کے منصوبے۔ اس مملکت کی عظمت کے گواہ ہیں۔ کام صرف اتنا ہےکہ انفرادی سطح پر اپنے آپ کو درست کر لیں پھر جب اللہ کا کرم ہوگا تو دنیا دیکھے گی کرم تو اس کا اب بھی ہےمگر ہماری کوتاہیاں اس کا اثر موڑ دیتی ہیں اسکی رحمت کو ناراض کردیتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکستان سے محبت نہیں عشق کرنے کی توفیق دے۔ اتنا عشق کہ ہمیں ہر طرف پاکستان ہی نظر آئے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان سوچیں باقی سب بعد میں ۔ ہم میں جذبہ نہیں قدرت اللہ شہاب کے بقول جنون پیدا ہوجائے اپنےملک کے لیے تعصب پیدا ہوجائے فخر پیدا ہوجائے پھر انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں ۔ جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان ہے ہاں عظیم پاکستان ہے۔ اللہ کریم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم پر اور ہمارے ملک پر اپنا رحم و کرم نازل کرے اور کرتا رہے آمین یا رب العٰلمین۔

غم

اک دن میں نے اس سے پوچھا کیوں اجڑے اجڑے رہتے ہو کیوں بکھرے بکھرے رہتے ہو دل کا یہ غم کسی سے کیوں نہیں کہتے ہو تب وہ دھیرے سے بولا کیا کیا سنو گے کیا کیا سناؤں چلتے چلتے یونہی اک دن اک شخص ملا تھا روٹھا روٹھا رویا رویا اس دنیا سے زندگی سے اسے گِلا تھا اسے صرف غم ملا تھا کانچ سا وہ شخص اسے ٹکڑاٹکڑا میں نے جوڑا زندگی سے اس کا ناتہ جوڑا اسے پھر سے جینا سکھایا پھر جانے کیسے یہ سب ہوا پھولوں سا وہ شخص آنکھوں میں اتر گیا دل میں گھر کر گیا پھر چپکے چپکے دھیرے دھیرے سیپ کی طرح غم کے موتی اگل کر وہ بندہوتا گیا مجھ سے دور ہوتا گیا دکھ میں بگھوتا گیا میری محبت، میرا پیار سب بھول گیا جیسے اجنبی ہوگیا اور پھراک دن چپکے سے میرے آشیاںسےاڑگیا اتنا کہہ کر وہ مجھ سے بولا شاکر یہ غم بھی عجب ہوتا ہے ناں نفس کو نفس کا محتاج کردیتا ہے اک دوجے کا گدا کر دیتاہے اس کا ستم بھی عجب ہوتا ہے جاتے جاتے بھی باز نہیں آتا بے وفا کر دیتا ہے سنومری اک بات مانو کبھیکسیکےغمخواربنوتو اتنے قریب نہ جانا کہ اسکے غم سے دامن جلا بیٹھو کوئی روگ لگا بیٹھو اس کے غم کا سمندر پاٹتےپاٹتے اپنی متاع لُٹا بیٹھو

عید،خوشی۔ایثار اور قربانی

عید بھی آہی گئی۔ آپ سب دوستوں‌اور قارئین کو عید مبارک۔ عید کی خوشیوں ‌میں‌اس کا سبق مت بھولیے گا۔ قربانی اور ایثار کا سبق ۔سردی سے مرتے،ٹھٹھرتے وجود آپ کے ایثار سے زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ قربانی کی کھالیں‌محلے کے مولوی صاحب کو اس بار نہ بھی ملیں‌تو کوئی فرق نہیں‌پڑے گا اس لیے کھالیں ، عطیات اوراگر ہوسکے تو اپنی قربانی ہی ان لوگوں‌کے نام کر دیجیے گا جو آپ کی امداد کے منتظر ہیں۔ اللہ ہمارا حامی ناصر ہو اور ہم سب کی قربانی اور حج قبول ہو۔ ایک بات اور جن کی اس بار استطاعت نہیں تھی ان کے لیے اگلی بار توفیق اور وسائل کی دعا بھی فرما دیجیے گا۔ وسلام

اردولنک مسنجر

اردو لنک مسنجر آخر کار سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد منظر عام پر آہی گیا۔ اعجاز راجہ کہ ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں‌نے اس مقصد کے لیے کیا کیا قربانی دی۔ قابل تحسین ہیں یہ سرپھرے جو اردو کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ اردو لنک کے علاوہ بھی اردو سافٹ وئیر موجود ہیں ۔ جیسے پہچان ڈاٹ کام والوں‌کا پہچان اردو مسنجر جسے www.pehchaan.com سے حاصل کر سکتے ہیں۔ میرا اردو مسنجر جو www.meraurdumessenger.comسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔ یہ قیمتًا دستیاب ہے۔ تاہم اردو لنک ایک تو مفت ہے دوسرے اس کے پیکج میں‌کئی اور چیزیں بھی شامل ہیں۔ کٹ اینڈ پیسٹ چھوٹی سی اپیلیکیشن ایسی کسی زمانے میں اردو ورڈ پیڈ کے نام سے دستیاب تھی جس میں اردو لکھ کر انٹر دبانےسے وہ نیچے ورڈ پیڈ کی کھلی ہوئی فائل میں‌چلی جاتی تھی اس طرح‌اردو عبارتی فائل بنائی جاتی تھی۔ تاہم اسی کی تبدیل شدہ شکل جو کہ کثیرلمقاصد بھی ہے۔ آپ اسے ایم ایس این میں‌چیٹ کرتے ہوئے استعمال کرسکے ہیں‌کھلی چیٹ ونڈو کے اوپر اسے رکھیں‌اور اردو چیٹ کا مزہ لیں۔ یاہو مسنجر میں‌اب یونی کوڈ کی سپورٹ موجود ہے وہاں‌بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں‌تاہم اگر ونڈوز ایکس پی ہو تو بہتر رہے گا 98پر یاہو میں‌ڈبے آتے ہیں‌۔ اوپن آفس میں‌یونی کوڈ کی بڑی اچھی سپورٹ موجودہے کٹ پیسٹ استعمال کرکے اوپن آفس میں‌اردو کی عبارتی فائل بنا سکتے ہیں۔ اردو لنک ای میل جو کہ ساتھ میں‌اردو ورڈ پروسیسر کاکام بھی کر سکتی ہے گرچہ اس میں‌کچھ خامیاں‌ہیں‌مگر امید ہے دور کر دی جائی‌گی۔ ایمیل تصویری اردو کی شکل میں‌جاتی ہے مگر اگلی اپڈیٹ میں‌ جی میل سے کنکٹ کر کے یونی کوڈ ای میل کی سہولت بھی فراہم کر دی جائے گی۔ اردو لنک مسنجر جو ایم ایس این سے کنکٹ ہو کر اردو چیٹ کی سہولت ایم ایس این کے صارفین کو فراہم کرتا ہے اسکا تو کوئی بدل ہی نہیں‌ اگر چہ ایم‌ایس‌این کی بات ہی اور ہے مگر اردو کےلیے یہ پروگرام لاجواب ہے۔ کی بورڈ سیٹنگ ایک نئی چیز ہے اس بار جس سے آپ کی بورڈ کو اپنی مرضی کا بنا سکتے ہیں۔اگرچہ یہ بھی ابھی بہتری کے قابل ہے تاہم کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ اور اب جس چیز کے لیے سات ماہ کا جانگسل انتظار کرنا پڑا وہ اردو لنک چیٹ تھی۔ ایم‌ایس‌این چیٹ بند ہوجانے کے بعد پاکستانیوں‌کے لیے کوئی قابل ذکر پلیٹ فارم نہیں‌رہ گیا تھا۔ اسی وجہ سے دوستوں‌جن میں‌ناچیز بھی شامل ہے کے اصرار پر اردولنک چیٹ سافٹ وئیر بنایا گیا۔ایک مکمل اردو چیٹ سافٹ وئیر جو یونی کوڈ بیسڈ بھی ہے۔ اردو کی بلکہ شاید فارسی،عربی،پشتو،سندھی کی تاریخ میں‌پہلا سافٹ وئیر ہے۔ جی ہاں اردو لنک کے تمام سافٹ وئیرز میں‌اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں‌کی مکمل سپورٹ موجودہے۔ اسے استعمال کیجیے اور اپنوں‌کو اسے استعمال کرنےکی ترغیب دیجیے۔یہ مستقبل کاایم آئی‌آرسی ہوگا پاکستانیوں‌ اور اردو کے چاہنے والوں‌کے لیے۔ سافٹ ویر بن گیا ہے اب اسکی تشہیر ہماری ذمہ داری ہے کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں‌اس لیے اسے ضرور ضرور استعمال کریں‌اور دوستوں‌کو بھی بتائیں‌۔ اللہ ہماری کاوشیں‌قبول‌اور بارآورکرے۔ www.urdulink.comاردو لنک کا پتہ

میں باغی ہوں!!!!

rمیں باغی ہوں!!!! ہاں میں باغی ہوں۔ اس رسم و رواج سے ۔ اس اندھی تقلید سے۔ اس رویے سے جس نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ان سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی شاخوں کو پکڑے رکھیں اور اصل درخت جو آج بھی ہرا بھرا ہے کو بھول جائیں ۔ مگر ٹھہریں آپ کیا جانیں میری بغاوت کے کیا اسباب ہیں۔ میں بتاتاہوں۔ زیادہ پرانی بات نہیں اردو ویب آرگ پر ایک فورم میں دورانِ بحث مجھے ایک خبر ملی ۔ خبر یہ تھی کہ بھارت میں ایک خاتون کے سسر نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر وہاں کے دارلعلوم دیوبند نے وہ عورت اس کے خاوند پر حرام قرار دے دی ہے۔ میں نے پہلے اس پر دھیان نہیں دیا مگر پھر یونہی پھرتے پھراتے میں ایک اور فورم پر جا پہنچا جہاں پر اسی مسئلہ پر بحث ہورہی تھی۔ میں جیسے جیسے وہ بحث پڑھتا گیا میرا خدا گواہ ہے میرے دل میں آگ لگ گئی مجھے مسئلے کی سنگینی کا تب جا کر احساس ہوا۔ میرے تن بدن میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیے، مظلوم کی بجائے داد رسی کی جاتی اس کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور کتنی آسانی سے مذہب کی آڑ لے لی گئی۔ چلیں میری بات چھوڑیں آپ ذرا ایک لمحہ غور کریں کیا آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ مظلوم کے ساتھ مزید ظلم کیا جائے یعنی ایک تو اس کی عزت گئی ساتھ میں اس کے سر کا سائیں بھی چھینا جا رہا ہے۔ میری بات پوچھیں نا۔ تو میرے اندر سے جیسے کوئی چِلایا تھا۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں ہوسکتا۔ کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے پیارے اللہ میاں کا دین اور میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا خطاب رحمتہ للعٰلمین ہے کا دین ایسا کبھی کہہ ہی نہیں سکتا ۔ میرے اندر اس تحریر کے لکھنے تک کوئی بین کرتا رہا ہے، میرے اندر کوئی روتا کرلاتا اور سسکتا رہا ہے میں مجبور کر دیا گیا ہوں کہ یہ سب لکھوں ورنہ شاید مجھے کچھ ہوجاتا۔ کیسے ہوسکتا ہے یہ ۔ میرے اندر اب بھی چیخیں ابھر رہی ہیں اسلام اتنا بے حس اور سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے یہ الزام ہے بہتان ہے میرے نبی سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔ اس لیے میں نے شروع میں کہا تھا میں باغی ہوں ۔ ہاں میں باغی ہوں ۔ ان علماء سے جو دینکے خدا بنے بیٹھے ہیں ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں یا ان سے اگلے جن کے اقوال یہ نقل کرتے ہیں اور جن کے استدلال یہ نقل کرتے ہیں وہ عقل کل تھے۔ کیا ایسا کبھی ہوا ہے آپ خود سوچیے انسان سے کیا غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ لوگ بجائے کہ قرآن سے یہ سب ثابت کرے حدیث سے یہ ثابت کرتے ان کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں۔ میں پڑھ چکا ہوں جس آیت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں سورہ نساء کی آیت نمبر باییس۔ وہاں صرف سوتیلی ماں کے نکاح کے لیے حرام ہونے کا ذکر ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا با لجبر کی صورت میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ میں باغی ہوں ہاں میں باغی ہوں ان لوگوں سے جن کی عقلوں پر رب نے قفل ڈالے ہوئے ہیں جو اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انھیں بصیرت کی بینائی دی گئی ہے۔ پھر بھی یہ ان سڑی ہوئی شاخوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل دین کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ کیوں نہیں کرسکتے یہ لوگ ۔ کیا انکے پاس عقل نہیں جو یہ انکی جنکی اب ہڈیا بھی نابود ہوگئی ہیں جان نہیں چھوڑتے۔ کیا ان کے درمیان کتاب اللہ اور حدیث رسول موجود نہیں پھر یہ اس سے اخذ کی گئ کتابوں کے حوالے کیوں دیتے ہیں اپنے خود ساختہ فیصلوں میں۔ یہ کتابیں آدھی سے زیادہ قیاسات ہیں جنھیں یہ لوگ فقہہ کا نام دیتے ہیں۔ قرآن میں صرف ڈیڑھ سو آیات ہیں جن میں معاشرتی احکام بیان کیے گئے ۔ پھر ان تھوڑی سے آیات سے ان لوگوں نے اتنی لا شمار کتابیں کس طرح تخلیق کر لیں اس طرح کہ ایک اینٹ تبرک کے لیے قرآن اور حدیث کی اور اسکے بعد اس کے بل پر قیاسا ت اور استدلال کی بڑی بڑی عمارات۔ ایک کتاب میں پڑھا تھا اسلام دریا ہے اور فرقے نہریں ۔پھر ان نہروں سے بھی مزید چھوٹی نہریں اور پھر ان نہروں سے کھالے ۔ کہاں دریا اور کہاں یہ کھالے۔ یہ لوگ ان کھالوں کی جان نہیں چھوڑتے جہاں اسلام کا پانی آتے آتے اتنا گندہ ہو جاتا ہے کہ اس کی شکل ہی مسخ ہوجاتی ہے۔ اسکی ساری شفافیت ان لوگوں کے خیالات اور خود ساختہ نتائج میں دب جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں مجھ پر کفر کا فتوٰی بھی لگ سکتا ہے۔ لگا دیں پہلے کونسا یہ کسی کو بخشتے ہیں انھوں نے تو گویا دین کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ اللہ انھی کا ہے نا ہمارا تو کچھ بھی نہیں اور اسلام بھی انھی کا اور اللہ کا رسول بھی انھی کا ہم تو بس تماشائی ہیں۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں کے مصداق ہم تو بس یہ ہی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں مگر اب نہیں اب بس۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں یہ لوگ تو دین میں تحقیق کرنا گوارا نہیں کرتے دنیاوی اور سائنسی تحقیق کیا خاک کریں گے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو سمجھنے کی خود کوشش نہیں جو آج سے صدیوں پہلے کے لوگوں نے کہہ دیا پتھر پر لکیر ہے اب ان کاکام ہے انکے فتووں کو رٹیں اور ان کی بنیاد پر فیصلے سناتے جائیں ۔ پتہ نہیں یہ مہریں کب ٹوٹیں گی ٹوٹیں گی بھی یا نہیں۔ میرے جیسا دین کے معاملے میں جاہل بھی ایک سیدھا سا فیصلہ دے سکتا ہے کہ یہ ایسے نہیں ایسے ہے متعلقہ آیت میں صرف نکاح کے بارے میں یہ حکم ہے کہ باپ کی منکوحہ سابقہ یا موجودہ بیٹے پر حرام ہے پتہ نہیں اس سے انھوں نے زنا بالجبر کس طرح جوڑ لیا ہے۔ انتہائی واضح اور غیر مبہم طور پر وہاں جب بتا دیا گیا ہے پھر یہ ہچر مچر پتا نہیں کیوں ۔ فلانے کا فتوٰ ی یہ تھا فلانے کا یہ تھا ہوگا۔ ان کی اپنی عقل انھوں نے جو صحیح سمجھا کہہ دیا اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی عقل استعمال ہی نہیں کرنی ۔ اوپر سے اسے ہی اسلام کہلانے پر مصر۔ عجیب لوگ ہیں ۔ دین کو اتنا مشکل بنا دیا ہے ان لوگوں نے کہ وحشت ہوتی ہے۔ پھر میرے جیسے جب سر اٹھاتے ہیں تو آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں نئی نسل اپنی مرضی کا اسلام چاہتی ہے۔

علماءے دين

ایک متنازعہ موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں یا شاید حالات نے کردیا ہے۔ عنوان آپ کے سامنے ہے یعنی “علمائے دین“۔ میں نہ ہی کوئی طنز کا تیر چلاؤں گا نہ ہی ان کی تعریف کروں گا۔ بلکہ اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ کچھ مسائل بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر اپنی محدود عقل کے مطابق ان کا حل پیش کرنے کی جسارت بھی کروں گا۔ میرا لکھا غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ میرا علم خام ہے اس لیے میرے قارئین کو حق حاصل ہے کہ مجھے ٹوک دیں میں بصد احترام ان کی تنقیدوتصحیح پر لبیک کہوں گا۔ بات شروع کرتے ہیں۔ علماء کیا ہیں۔ آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہر شعبے کے سپشلائزڈ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے متعلقہ شعبے کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ جیسے ایک فزکس کے ڈاکٹر کو میں چیلنج نہیں کر سکتا کہ میرا علم اس سے کم ہے۔ آخر اس نے سالوں اس علم کے حصول میں لگا دیےہیں۔ کچھ تو ہوگا نا اس کے پاس جو اس کو مجھ سے ممتاز کرتا ہے ۔ اسی طرح علمائے دین ایسے لوگ ہیں جو دین کے معاملے میں سپیشلائزڈ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دین کا صحیح پتا ہے ۔ ان لوگوں نے سالوں اس بات کی تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیے ہیں کہ فلاں آیت کب نازل ہوئی،اس کا پس منظر کیا ہے، فلاں حدیث کب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے موتی بن کر بکھری اور اس کا پس منظر کیا تھا۔مختصرًا ان معلومات پر ان لوگوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو تھی بات کہ علماء کا مقام کیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں ان کااسلام کے لیے کیا کردار ہے۔ یہ بات میں مانتا ہوں کہ ہر زمانے میں ایک ٹولہ ایسا رہا ہے جو درباری تھا سرکار کا کھا کر حق نمک ادا کرتا تھا ان لوگوں کو علمائے سوء کہتے ہیں ۔ یہ بات بھی میں مانتا ہوں کہ صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیھم کا کردار اسلام کو پھیلانے میں انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر دین کو محفوظ کرنے کے لیے جن لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں،رات کا چین اور دن کا سکون برباد کیا،حق بات کہنے کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ان میں علماء بھی ہیں۔ اصل میں دین کے معاملات کو علماء ہی چلا سکتے ہیں۔ صوفیا کا تبلیغ میں اہم کردار ہے رہا ہے اور رہے گا مگر عام لوگ براہِ راست صوفیا سے متعلق نہیں ہوتے۔ صوفیا کا ایک مخصوص اسلوب ہوتاہے وہ بات کچھ اور کرتے ہیں اور مطلب کچھ اور ہوتا ہے جسے صاحبِ نظر ہی پہچان سکتاہے ۔ دوسرے صوفیا کرام اللہ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں ظاہر ہے وہ جو کچھ دیکھیں گے،محسوس کریں گے وہ ہی بیان کریں گے اسی کی نصیحت کریں گے اکثر اوقات یہ باتیں عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں(صوفیا باطن کو اہمیت دیتے ہیں ہم آپ ٹھہرے دنیا دار اس لیے ان کی باتیں جو ان کے لحاظ سے ٹھیک ہیں ہمارے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہوتیں کیونکہ ان کا ایک مقام ہے اس مقام کے اپنے تقاضے ہیں۔ اسکی مثال ایسے لے لیں ایک بازی گر جو رسے پر چل رہا ہے اور ایک بندہ جو نیچے زمین پر۔ صوفیا رسے پر چلنے والے بازیگر کی طرح ہیں اپنی زندگی بلکہ اپنا ایمان تک خطرے میں ڈال کر اللہ کو پہچاننے کی کوشش کوئی دیوانہ ہی کر سکتا ہے اور سچ پوچھیں تو کئی لوگ اس رسے سے گر کر اپنے ہوش خرد بھی گنوا بیٹھے تاریخ کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اس لیے تفصیل میں نہیں جارہا جبکہ ہم عام لوگ سیدھی سادھی تشریح چاہتے ہیں ہمیں بازی گر سے کیا واسطہ ہم تو زمین پر چل رہے ہیں ہمارے تقاضے بھی مختلف ہیں) ۔ اس لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو دین کی باتیں بتائے ان اصولوں کے مطابق ان راوایات کے مطابق ان واقعات کے مطابق جو اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں۔چناچہ اس کل وقتی کام کو علماء بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں بہ نسبت صوفیاکے۔ اگلی بات مذہب کی تبلیغ میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ صوفیا کا اپنا انداز ہے وہ کسی کے منانے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں(یا ان کے ہاتھوں سرزد کرادیا جاتاہے) جو عقل تسلیم نہیں کرسکتی اس طرح سائل اسلام کی حقانیت جان کر مسلم ہو جاتاہے۔ علماء دلیل سے بات کرتے ہیں عام خوبیاں خامیاں گنواتے ہیں اور پھر نتیجہ کے طور پر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں مگر ایک مختلف انداز میں۔(ہر مسلمان اسلام کا سفیر اور مبلغ ہے اور ہونا چاہیے اور ہم کوشش بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ہم سے اسلام کے بارے میں پوچھے تو اس کو مطمئن کریں مگر بات وہی آجاتی ہے ہمارا علم خام ہے۔ ہمارے مقابلے میں ان لوگوں کا علم زیادہ ہے اس لیے وہ بہتر طریقے سے یہ کام کرسکتے ہیں بلاشبہ اسلام کی تبلیغ میں عام مسلمانوں کابھی ہاتھ ہے تاہم اس وقت موضوع گفتگو کچھ ایسا ہے کہ میں اس ذکر کو مختصرًا یہیں ختم کرتا ہوں۔) دین کی تبلیغ کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اسلام کے شروع سے مختلف طریقے اپنائے گئے جو آخر کار ایک منظم نظام کی صورت میں سامنے آئے یعنی دینی مدارس۔ پہلے ان مدارس میں غیر دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جیسے سائینس ۔ قرونِ و:سطٰی کے مسلم سائنسداں اسکی واضح مثال ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں علوم عمرانیات اور پھر دینی علوم تک محدود ہوگئے۔ ایک اور خرابی جو پیدا ہوئی وہ ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر تھا۔ جب ہر کسی نے ریسرچ کی اپنی عقل کے مطابق جو بات اسے ٹھیک لگی اس نے اپنا لی جس سے مختلف مکتبہ فکر وجود میں آئے جنھیں مسالک یا فرقے کہاجاتاہے۔ اختلاف کوئی ایسی بات نہیں جسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک بار دو مختلف مسالک کے علماء آپس میں ملے تو نماز کے وقت دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنا طریقہ نماز چھوڑ کر دوسرے کا طریقہ نماز اپنا لیا۔ یہ احترام تھا محبت تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احترام نہیں رہا اب بات بہت مختلف ہوچکی ہے اب تو فرقے ایسے جزیرے ہیں جن کے مابین اختلافات کے سینکڑوں میل وسیع سمندر حائل ہیں۔ اب کچھ بات برِصغیر کے علماء کی اور یہاں کے دینی تعلیمی نظام کی۔یہ نظام انگریزوں کے دور میں انگریزی تعلیم کے خلاف رد عمل میں شروع ہوا جسے درسِ نظامی کہتے ہیں(میں پہلے عرض کر چکا ہوں میرا علم خام ہے اسلئے اگر یہاں غلطی پر ہوں تو درست فرما دیجیے گا۔) ایک طرف انگریزی تعلیمی نظام دوسری طرف درسِ نظامی۔ درسِ نظامی اصل میں دین کو بچانے کی ایک کوشش تھی مگر اس کوشش کے نتائج آج کل کچھ اچھے نہیں مل رہے۔ اس زمانے کے مطابق بھلے یہ ٹھیک تھی مگر آج کل جو دور چل رہا ہے یہ نظامِ تعلیم بدلنا چاہیے۔ بے شک اس بات میں کوئی شک نہیں اس نظام سے ہی وہ ہیرے نکلے جنھوں نے انگریز مشنری پادریوں کے ناطقے بند کردیے۔ جنھوں نے اس دور میں اسلام کو بچایا جب انگریز سرکار،انکے حمایت یافتہ مشنری اور ہندو قوم اسلام کو ہڑپ کرلینے کے چکر میں تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ انھی کی وجہ سے آج بھی سخت سردی میں فجر کی اذان وقت پر ہوتی ہے۔ بارش ہو،مینہ ہو ، سردی ہو گرمی ہو جنازہ یہی لوگ پڑھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ صداحترام ہیں۔ بے شک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین میں سےہیں (ظاہری علوم میں)۔ یہ ہم سے بر تر ہیں ہم وہ وقت گالم گلوچ یا خرافات میں گزارتے ہیں اور یہ لوگ وہی وقت قرآن کو سمجھنے اور حدیث رسول کو یاد کرنے اور اس کا علم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ قابل صداحترام ہیں یہ علم حاصل کرنے والے اور اس کے اساتذہ۔ بے شک یہ ہی لوگ ہیں جنھوں نے اردو کو اس بات کا اعزاز بخشا کہ اس میں دینی علوم کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو شاید ہی کسی زبان میں ہو شاید عربی میں بھی نہیں۔ ہر قابل ذکر دینی کتاب خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو کا اردو ترجمہ موجود ہے جو ان کاایک اور اعزاز ہے۔ مگر میں جو عرض کررہا تھا وہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ اس نظام میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مسالک کے پیچھے لگ کر علماء دین کی اصل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا معمول بن چکا ہے۔ ان کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں ہوتی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر مسلک کی الگ مسجد ہے اور ایک ہی محلے میں یوں کئی کئی مساجد ہیں۔ مسجد کے ساتھ لکھا ہے فلانی مسجد اہلحدیث،اہلسنت بریلوی،اہلسنت دیوبندی یا اہل تشیع ۔۔ انڈیا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اس قدر اختلافات ہوگئے کہ وہاں اہل تشیع نے آل انڈیا شیعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کرلیا ان کے خیال میں انکے دینی تقاضے اکٹھے رہ کر پورے نہیں ہورہے تھے۔ پاکستان میں مدارس کے پانچ وفاق قائم ہیں یعنی ہر مسلک کا الگ وفاق(اسے آپ یوں سمجھ لیں جیسے یونورسٹی جو امتحان لینے کی ذمہ دار ہو اور سلیبس وغیرہ بھی مہیا کرے ساتھ ہی سند بھی امتحان پاس کرنے کے بعد جاری کرے )۔ آپ میں بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اندازہ کیا جانتے ہیں کہ ان مدارس سےنکلنے والے طلبا دوسرے مسلک بارے کس قدر متعصب ہوتے ہیں۔ جہاں دو عالم اکٹھے ہوجائیں عام سے مسائل پر بحث شروع ہوجاتی ہے جن پرپہلے ہی ہر فرقے نے مخالفت اور موافقت میں درجنوں کتب تحریر کر رکھی ہیں۔ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہتا ہے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے آج کے دور میں جبکہ ہم دین کے پہلے سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کی وجہ میری ناقص عقل کے مطابق یہ ہے کہ ہم لوگ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دے ہے۔ بے شک تبدیلی کی مخالفت ہو رہی ہے تاہم تبدیلی ہونی چاہیے۔ دوسرے اس شعبے کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ماں باپ اپنے بچے کو صرف اسی صورت میں اس شعبے میں بھیجتے ہیں جب یقین ہوجائے کہ یہ اب کسی کام کا نہیں۔ تو سوچا جاتا ہے کہ آخرت ہی سنوار لیں۔ یا وہ بچے جو یتیم ہیں۔ دیانتداری سے بتایے اگر یہ شعبہ خیرات پر نہ چلے، یہ لوگ بھی فیس لیں ،ان سے فارغ التحصیل افراد کی معاشرے میں ویسی ہی مانگ ہو جو کسی ڈاکٹر یا انجینئیر کی ہے تو کیا اس کا معیار بہتر نہیں ہوگا۔ بالکل ہوگا۔ مگر اس شعبے کے حصے میں وہ طلبا آتے ہیں جو کچرا ہوتے ہیں کند ذہن ماں باپ کی نظر میں جن کی کھپت اور کہیں نہیں۔(یاد رہے میں عمومی بات کر رہا ہوں ایسے لوگ بے شک موجود ہیں جو اپنے بچوں کے دین کی تعلیم خصوصًا دلواتے ہیں۔) دیانتداری سے بتایے اس سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ہمارے دشمنوں کو ظاہر سی بات ہے۔ہم جو توانائیاں اس بات پر لگا رہے ہیں کہ فلانے کافر ہیں اپنے ہی بھائیوں کو ذلیل کر ہے ہیں کیا وہ ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہییں جو اسلام پر قدغن لگا رہے ہیں ۔ میری مراد جدید دنیا کے ان غیر مسلم نام نہاد مفکرین سے ہے جن کی کتابیں اس بنیاد پر بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کرتی ہیں کہ اسلام ایک غلط مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد۔(نیز نومسلموں کو بڑی دقت ہوتی ہے جب وہ مسلمان تو ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں اندر کے حالات کا پتا چلتاہے ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا مسلک کیا ہے۔ اس طرح اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔) علم کے محاذ پر،دلیل کے ساتھ میں یا میرے جیسے عام لوگ انھیں قائل نہیں کرسکتے انھیں شکست نہیں دے سکتے۔ انکے ساتھ بحث اور مناظرہ نہیں کرسکتے یہ کام علماء ہی کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں تقابل ادیان کا خصوصی علم سکھایا جاتا ہے انھیں منطق پر عبور حاصل ہوتاہے وہ دلیل دینا اور دی گئی دلیل کو رد کرنے کے قاعدے جانتے ہیں جو میں اور میرے جیسے جاہل نہیں جانتے۔ تو اس سب کاحل کیاہے۔ میری نظر میں اور میرے ناقص علم و عقل کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ +علماء اپنی توجہ فروعات سے ہٹا کر دین کے پھیلانے پر مرکوز کریں۔ بے شک ہر کوئی اپنے طریقے سے دین کو سمجھے اس پر عمل کرے مگر ایک دوسرے پر الزام دھرنا اب بند ہوجانا چاہیے۔ +دینی تعلیمی اداروں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طلباء دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم سے بھی مناسب حد تک لیس ہوکر نکلیں تاکہ انھیں معاشی زندگی میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ +انگریزی تعلیم کا بندوبست خاطر خواہ ہو کیونکہ اسی زبان میں اسلام کے خلاف زیادہ پروپیگنڈہ موجود ہے اور ہمارے سائیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تو فرمان ہے کہ جس نے دشن کی زبان سیکھ لی وہ اسکے شر سے محفوظ ہوگیا۔(یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دینی اداروں کو اس کا احساس ہونے لگاہے ایک اخبار میں کراچی کے ادارے میں پوسٹ گریجویشن کورس بارے اشتہار پڑھ کر خوشی ہوئی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لیے مبلغ تیار کیے جائیں اور اسکے لیے کم از کم تعلیم کی شرط گریجویشن،ساتھ انگریزی میں قابلیت بھی ضروری قرار دی گئی تھی۔) +علماء کو تقابل ادیان کی تعلیم دی جاتی ہے میں نہیں جانتا کہ اس میں اہم مذاہب کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں یا نہیں۔ میں اس سلسلے میں انڈیا کے معروف مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کی مثال دینا چاہوں گا جو اسلامی علوم کے ساتھ چاروں اناجیل اورہندوؤں کی کتب رامائن اور گیتا کے بھی عالم ہیں۔ اگر مدارس میں اس چیز کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو مسلم سکالرز دودھاری تلوار بن جائیں گے۔ +آج کل سائنس پسند ہونا فیشن میں ہے۔ مغربی لوگ ہر بات سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں دین کے بار ےخلاء بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر مدارس کے نصاب میں سائنس کا اس حد تک خصوصی علم شامل کر دیا جائے کہ فارغ التحصیل عالم لوگوں پر اللہ کی واحدانیت سائنس سے بھی ثابت کرسکے تو کیا کہنے۔ میں پہلے ہی ایک جگہ کہہ چکا ہوں کہ اللہ کی ذات سائنس سے ثبوت کی محتاج نہیں مگر یہ ان کی بہتری کے لیے اور انکو آسانی سے سمجھانے کے لیے ہوگا جو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔(اس سلسلے میں ترکی کے معروف سکالر ہارون یحیٰی جن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سائنس کی روشنی میں دلیلیں دے کر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں موجودہ ترکی کا معاشرہ جو سیکولر طرزوں پر استوارہے وہاں نوجوانوں میں اس طریقے سے اسلام کی تڑپ پیدا ہورہی ہے۔) +انتہا پسندی نے جتنا اسلام کو آج نقصان پہنچایاہے پہلے کبھی نہیں پہنچایا تھا۔ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ دوسرے کو دلیل دے کر قائل کیا جائے بم دھماکہ کرکے نہیں۔ اس لیے علماء کی تربیت میں یہ بات بھی شامل ہو کہ وہ جیو اور جینے دو کے اصول کو اہمیت دیں ۔ اپنی بات تمام سیاق و سباق کے ساتھ دوسرے کے سامنے رکھ کر پچھے ہو جائیں وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ آپ کا فرض پورا ہوگیا۔ ہمیں تو تعلیم ہی اس بات کی دی گئی ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا اختیار ہے ہمارا کام صرف بات پہنچا دینا ہے۔ +علماء کے ذہنوں میں یہ بات نہ بٹھا دی جائے کہ ٹی وی اور دوسرے جدید میڈیا گناہ ہیں۔آج کا دور پراپیگنڈہ کا دور ہے جس کا توڑ بھی پراپیگنڈہ ہے ۔ اسے مجبوری سمجھ کر ہی سہی مگر برداشت ضرورکریں اور استعمال بھی کریں ہمارا مطمع نظر اسلام کی اشاعت ہونا چاہیے اگر اسکے لیے ایک گناہ کرنا پڑتاہے تو کم از کم میں کر گزروں گا۔ (میرا ذہن اس سے آگے اس بارے میں کورا ہو رہا ہے تجاویز کئی ایک ہونگی جو کہ دوست اس تحریر کے جواب میں یقینًا پیش کریں گے اس لیے میں بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔) آج کے دور میں اگر ہم دیکھیں تو اہل مغرب جیسے اس بات کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ذہنی سکون کا کوئی ذریعہ نصیب ہوجائے۔ اسلام اس کا واحد حل ہے مگریہ ان تک ایسے پہنچے کہ وہ اس سے محبت محسوس کریں اور اپنا لیں نہ کہ نفرت محسوس کریں۔ آج کے دور کے معروف سکالرز جیسے احمد دیدات،ہندوستان کے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ترکی کے ہارون یحیٰی(پاکستان کے ایک معروف سکالر کا نام بھول رہا ہوں شاید ڈاکٹر حمید اللہ جن کے ہاتھ پر سینکڑوں فرانسیسیوں نے اسلام قبول کیا تھا) وغیرہ اسی لیے اسلام کے داعی اورنمائندوں کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ ان کی تمام توانائیاں اسلام کی حقانیت غیر مسلموں پر ثابت کرنے پر مرکوز ہیں نہ کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مزید مسلمان کرنے پر۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر متعصب مغربی میڈیا بھی انتہائی احترام سے کرتا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اپنے دین کو پھیلانے کی توفیق دے تاکہ یہ صدیوں سے نشاتہ ثانیہ کی منتظر نگاہیں قرار پاسکیں۔ آنے والا دور اسلام کا ہے یہ بات لکھ لیجیے مگر اس کے لیے عمل کی ضرورت ہے۔ تو آئیے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں ۔اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے۔

نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کوئی گاہک نا آیا تو ساتھ والے سے اخبار لے کرپڑھنے لگا۔ ابھی اخبار پڑھتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمعے کی نمازکا وقت قریب آگیا۔ تمام مساجد کے سپیکروں سے مولاناؤں نے وعظ نشر کرنے شروع کردیے۔ ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے “ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔ “اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“ اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔ “یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے: “واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“ اور ساتھ ہی پھر نعرے “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“ اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی “کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“ اور پھر وہی نعروں کی سیریز “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“ “حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“ وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔ “امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“ “روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“ “اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“ “بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“ اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔ دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔ “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔ “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک عام سا لڑکا تھا ۔ نہ خدو خال میں کوئی انوکھا پن تھا نہ باتوں میں۔ وہی لاابالی سا انداز جو ایک نوجوان کا خاصہ ہوتاہے۔ اپنی جوانی کا جوش بلکہ زعم دنیا جیسے کوئی حقیر ترین شے ہو۔ مگر دوسرے ہمجولیوں کی طرح ایک چیز کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا۔ وہ چیزتھی صنف مخالف۔ جب اپنے دوستوں کے منہ سے ان کے معاشقوں کی تفصیل سنتا۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش میں وہ کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر داستان سناتے جیسے راجہ اندر کے جانشین ہوں۔ اس کا دل یہ سن سن کر مچل اٹھتا۔ “آخر ایسا کیا ہے جو سب ایک ہی ڈگڈگی بجائے چلے جاتے ہیں ۔ لڑکی لڑکیاں لڑکی۔۔۔۔۔“ جب اس نے اپنی عمر سے ذرا بڑے اور بزعم خود پرانے پاپیوں سے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو پہلے تو وہ سب خوب ہنسے۔ پھر طنز سے ایک نے جواب دیا“نہ نہ یہ بچوں کے کرنے کا کام نہیں۔“ اسکے ساتھ ہی سب پھر قہقہے لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔ آخر عمر کچھ آگے بڑہی تو اسے آگاہی ہوئی یہ سب تو اس کی فطرت ہے۔ جیسے مقناطیس کے مخالف سرے کشش رکھتے ہیں ایسے ہی انسانوں میں بھی اپنی مخالف جنس کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ “اسی لیے یہ سب ہوتا ہے۔“ اس نے سوچا۔ پھر اس کے دل میں خواہش بیدار ہوئی کوئی ایسا ساتھ ہونا چاہیے جس کا اظہار وہ بھی اپنے دوستوں میں فخر سے کرسکے۔ مگر فطرتًا بزدل تھا۔ آسانی کا قائل۔ پکا پکایا کھانے کا عادی۔ چناچہ اس نے انٹرنیٹ سے یاری لگالی۔ اس وبا نے اسے صرف اتنا فائدہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک لڑکی آگئی۔ اب وہ بھی اپنی عمر اور اپنی عمر سے چھوٹوں میں یہ بات بڑی بے نیازی سے اپنی لمبی لمبی چیٹ کا تذکرہ کر جاتا۔ لڑکے اس کی طرف حیرت مسرت اور رشک سے دیکھتے تو جیسے نفس کے غبارے میں ہوا بھر جاتی اور وہ پھٹنے کے قریب ہوجاتا۔ شاید اس کی بنیادی خواہش یہ ہی تھی۔ کہ اپنے آُپ کو بھی نمایاں کیا جائے۔ “کیا بات کرتے ہو اس سے“ کسی نے ایک دن پوچھ ہی لیا تو اسی بے نیازی سے جواب دیا“بھائی دکھ سکھ کہہ لیتے ہیں کچھ وہ کچھ ہم ۔ دل کا غم ہلکا ہو جاتاہے۔“ وقت بھلا رکا ہے چناچہ وقت چلتا رہا۔اس کا تعلق دوستی سے محبت میں بدل گیا مگر وقت اس کو چلتے چلتے ایک داغ دے گیا۔ انٹرنیٹ پر بے وفائی عام سی بات تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چناچہ اب وہ اپنے تئیں مجنوں بن گیا۔ لیلی کے عشق میں پاگل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بکھرے بال،بے ترتیب ڈاڑہی اور لباس سے بے پرواہی۔ اسی دور میں شاید وہ ہمیشہ رہتا مگر ایک دن یوں ہی نہر کنارے بیٹھا جب بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا تو ایک اسی جیسا آدمی پاس آ کر بیٹھ گیا۔ بے ترتیب بال،چیتھڑوں میں ملبوس ناخن میل سے بھرے۔ “کیا ہے بے کیوں اتنا اداس ہے“ آنے والے کا لہجہ بھی اس کے لباس کی طرح تھا۔ “تمہیں کیا اپنا کام کرو جا کر“ وہ بے نیازی سے بولا اور اپنے پرانے شغل میں لگ گیا نہر کے پانی پر نظریں جما کر جیسے کچھ تلاشنے لگا۔ “سالے عاشق ہے۔ تبھی یہ حال کیا ہوا ہے“ اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ “تمہیں کیسے پتا چل گیا یہ سب بابا“ اب کے اس کا لہجہ عجز سے بھرا ہواتھا۔ “ہاہاہاہاہا ساری ہوا نکل گئی بس اتنا ہی دم تھا“ بابا اب ہنسا تھا۔ “چل بتا دے سنادےجوتیرے ساتھ ہوا“ پھوڑے پر نشتر لگے اوراوہ بہے نہ۔ وہ تو جیسے بھرا بیٹھا تھا۔ سب سنا چکا تو بابا بولا“بے تو نے اس سے رشتہ داری کیوں نکالی تھی“ “بابا ایک دوست کی ضرورت تھی کسی غم خوار کی“ “ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا“ بابا یہ سن کر بے اختیارہنسنے لگا بے تحاشا جب ہنس ہنس کر تھک گیا تو بولا “غم خوار کی ضرورت تھی۔ہاہاہاہا غم خوار ابے یوں کیوں نہیں کہتا کہ اندھا ہو گیا تھا۔“ اس کے بعد پھر وہ ہنسنے لگا تھا۔ “ابے اگر غم خوار کی ضرورت تھی تو جس نے پیدا کیا ہے کیا وہ مرگیا۔ اس کے کہتا وہ تیرا دکھ درد نہ سنتا۔ ہاہاہاہاہا پر تو نہیں مانے گا تیرے اندرتونفس نے ادھم مچایا ہوا تھانا تجھے غم خوار کی نہیں نمائش کی ضرورت تھی۔ ابے کبھی اس کی طرف بھی تو توجہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر دیکھ تیرے غم کیسے ہلکے کرتا ہے وہ۔ہاہاہاہاہاہا پاگل“ بابے پر پھر ہنسی کا دور پڑا تھا اور پھر وہ ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درخت گھاس اور آتی جاتی گاڑیاں لوگ سب قہقہے لگا رہے ہوں اور چیخ رہے ہوں پاگل پاگل پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قبرُو

شہرمیں وہ رات بہت بھیانک تھی جب بڑے قبرستان میں ایک قبر کے پاس دینو گورکن کو وہ بچہ ملا تھا۔ کسی کے گناہ کی نشانی تھا یا کسی غریب کا پالنے والے سے شکوہ دینو نے اسے اولاد سمجھ کر گلے سے لگا لیا۔ دینو ان پڑھ تھا نا کوئی نام نہ سوجھا تو اس کا نام قبرُو ہی رکھ دیا دینو کے سارے بچے حتٰی کہ ماں جسے وہ بھی ماں ہی کہتا اسے قبرُو ہی کہتی تھی۔ قبرو دینو کے دوسرے بچوں کے ساتھ پلابڑھا۔ اسے ان لوگوں سے زیادہ نواز دیا گیا تھا جو اس کے ارد گرد تھے۔ گورکن کا تو کام ہوتا ہےقبر کھودنا اوربس۔ اور کیا پر دینو قبر کھودتا اور قبرو اسکے بعد جنازے کے ساتھ آنے والوں کے چہرے کھودتا اور کھوجتا۔ ایک چیز جو اسے سب میں مشترک ملتی وہ عجیب سا ڈر تھا۔ خوف ساتھا۔ سب میت کو دفن کر کے ایسے بھاگتے جیسے پیچھے کتے لگے ہوں۔ قبرو کے خیال میں کتے ہی ایسی چیز تھے جو بھاگنے پر مجبور کر سکتے تھے خود اس سے قبرستان کے کتوں نے کئی بار دغا کیا تھا پہچاننے کے باوجود اسکے پیچھے دوڑتے جس سے وہ ڈرجاتا۔ اس کے خیال میں لوگ بھی شاید اسی قسم کی کسی وجہ سے ڈرتے ہونگے۔ ایک دن اس نےدینو سے پوچھ ہی لیا “ابا! یہ سب لوگ جو جنازے کے ساتھ آتے ہیں اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہوتے ہیں“ دینو ششد رہ گیا۔ اتنا سا بچہ اور مشاہدہ اس نے ٹالنے کی کوشش کی پر قبرو اپنی ہٹ کا پکا تھا۔ جان کو آگیا تو دینو گورکن کو بتانا پڑا کہ لوگ قبرستان کے کتوں سے نہیں موت سے ڈرتے ہیں۔ “پت موت بڑی ظالم شے ہے۔ بڑے بڑے اسکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتےہیں“ دینو حقے کے کش لگاتے ہوئی کسی گہری سوچ سے بولاتھا۔ اور قبرو کی چھوٹی سے دنیا میں بھونچال آگیا تھا۔ موت؟ کیا موت بھی کوئی چیز ہے موت کیا ہے ابا۔ پھر دینو نے اسے بتایا موت کامطلب ہے سب ختم اور پھر قبر ۔دینو کی باتوں سے قبرو جان گیا کہ لوگ ڈرتے ہیں موت سے اور موت کی ان نشانیوں سے جنھیں قبریں کہتے ہیں۔ “پرمجھےکبھی کسی قبر نے کچھ نہیں کہا“ قبرو حیرت سے سوچ رہا تھا وہ تو بڑے پیر سائیں کی کچی قبر جس پر جھنڈے لگ ہوئے تھے سے اکثر گھنٹوں باتیں کرتا رہتا تھا۔ اسے تو ایسے لگتا جیسے اس کی باتوں کا جواب بھی دیا جا رہا ہو۔ “پریہ لوگ کیوں ڈرتے ہیں۔“ وہ پھر سوچنے لگا۔ مگر اس کا ذہن اس کو مطمئن نہ کرسکا۔ وقت گرزتا گیا اور دینو بھی قبر میں چلا گیا اب گورکنی کا کام اس کے بڑے بیٹے نے سنبھال لیا تھا۔ قبرو کے ساتھ وہ اب بھی ویسے ہی تھے جیسے دینو کی زندگی میں ۔ مگر قبرو کا دل اب آلنے سے اڑنے کو کرنے لگا تھا۔ شاید ان قبروں سے اکتا گیا تھا۔ بڑا قبرستان جہاں ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں حد نگاہ تک قبریں اب ان قبروں سے اس کی دوستی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ پھر ایک دن قبرو نے اڈاری ماری اور بڑے قبرستان کو چھوڑ دیا۔ جب وہ اپنی چھوٹی سے دنیا سے باہر نکلا تو حیران رہ گیا دنیا میں یہ سب بھی ہے ۔ اس نے حیرت سے سوچا اتنے سارے لوگ اور عجیب عجیب سی سواریاں۔ قبرو حیران تو ہوا مگر سیکھنے بھی لگا۔ قبرو دنیاکے طور طریقے سیکھ گیا مگر ایک بات نہ سیکھ سکا ۔ اس کے خیال میں یہاں بھی سب اسکے دوست تھے جیسے بڑے قبرستان میں تھے بڑے پیر جی ، انکے مرید اور وہ ایک منے کی قبر۔ سب دنیا والے اس کی نظر میں ایسے ہی تھے۔ مگر جب ایک جیب کترے کے جرم میں اسے جیل ہوئی تو وہ حیران رہ گیا۔ “یہ سب بھی ہوتاہے ؟“ وہ تو معصوم تھا اس نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا جیب کترا تو نکل گیا تھا وہ تو میٹھی باتوں کے جال میں آگیا اس کے خیال میں یہ بھی اس کا دوست بن گیا تھا یہی وجہ تھی جب بس میں ایک مسافر نے شور مچایا “میری پونجی“ اور ایک خوش پوش سے لڑکا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑا کر بولا “دوست ذرا پکڑنا“تو وہ خوشی سے پھول گیا یہاں بھی ایک دوست بن گیا۔ مگر بعد میں اسے جیب کترنے کے الزام میں مار بھی ملی اور پھر جیل۔ جیل سے نکلا تو قبرو پھر اپنے آلنے کی طرف اڑا۔ دنیا والے قبروں سے خوف کھاتے تھے مگر قبرو اب دنیا والوں سے خوف کھانے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی پیر سائیں کی قبر کے پاس بیٹھ کر ڈھیروں رویا تھا۔انھیں سب سناتا رہا ان دنوں اسکے ساتھ جو بیتی تھی اور جب وہ خاموش ہوگیا تو جیسے پیر سائیں کی قبر سے جواب آیا تھا۔ “پتر! یہ موت اور قبر سے نہیں اپنی بد اعمالیوں اور اپنے اندر سے ڈرتے ہیں۔ یہاں آئیں گے تو ان کا سارا کچہ چٹھہ کھل جائے گا اس لیے ڈرتے ہیں منہ چھپاتے ہیں۔ پر کب تک! کب تک منہ چھپائیں گے لانے والا لے آتا ہے چاہے یہ ہزار نہ نہ کریں سب نے یہیں آنا ہے پتر۔یہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں قبروں سے نہیں وہ تواستعارہ ہے ایک نشانی ہے جس کو انھوں نے خود پر طاری کر لیاہے اپنے آپ سے تو نہیں ڈر سکتے نا اس لیے انھوں نے اپنی میں پر قبر کا پردہ ڈال لیا ہے۔“

زلزلہ زدگان کی بحالی کچھ تجاویز

زلزلہ زدگان کی بحالی اور دوبارہ بسانے کے سلسلے میں کافی کام ہورہاہے۔ فی الحال جس چیز پر توجہ مرکوز ہے وہ آئندہ سردیوں میں انھیں پناہ گاہ کی فراہمی ہے۔ اس کام کے لیے ہر تنظیم اور حکومت اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کچھ لوگ جست کی چادریں دے رہے ہیں کچھ لوگ شیڈ بنا کر دے رہے ہیں۔ بعض معروف این جی اوز نے فائبر کے بنے ہوئے گھر بھی تقسیم کیے ہیں اور حکومت فی گھر پچیس ہزار روپیہ تقسیم کر رہی ہے (اس میں اب اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے نیز اس رقم کی تقسیم کیں خردبرد کی شکایات بھی آرہی ہیں) اسی ذیل میں ملک کے ایک معروف روزنامے میں دو الگ الگ تجاویز پڑھیں تو دل کیا اسے آن لائن کر دیا جائے۔ دونوں تجاویر گھر بنا کر دینے کے سلسلے میں ہیں ۔ دونوں تجاویز باری باری پیش کرتا ہوں۔ 1۔ محمد اشرف جن کا تعلق ایک کرافٹ مین فیملی سے ہے لاہور کالج آف آرٹس کے طالبعلم ہیں نے کنٹینروں کی تجویز پیش کی ہے۔ انکے مطابق کنٹینر ایک تو زلزلہ پروف ہیں دوسرے آسانی سے اور فوری دستیاب ہیں تیسرے کم خرچ اور موسم جیسے نمی سرد ہوا کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں انسولیشن سے انھیں سردی گرمی پروف بنایا جاسکتا ہے نیز ایک اوسط خاندان کے لیے اسی ہزار (80,000) سے ڈیڑھ لاکھ (150,000)روپے تک کنٹیزکا حصول ممکن ہے جس کی عمر سو سال تک ہوسکتی ہےبشرطہ ہر سال اندر اور باہر سے اینیمل پینٹ کیا جاتارہے۔ پارلیمنٹ کی موجودہ قائم ہونے والی کمیٹی کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔ 2۔پانچ لوگوں کی ایک ٹیم جس میں ایک کارپینٹر باقی مزدور ہوں یا اس میں مناسب رد وبدل کر کے ایک ٹیم یعنی ایک یونٹ بنا لیا جائے (بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ آرمی انجینئرنگ کور کے ہوں چونکہ یہ نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اس لیے بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے) اور اس طرح کے ہزار یونٹ تجرباتی طور پر ان علاقوں جیسے نیلہ بٹ جہاں زیادہ تباہی ہوئی اور جلد برفباری اور سردی آنے کا امکان ہے تعینات کیا جائے اور ان کے گھروں کی مرمت اور تعمیر کروائی جائے پھرایک یونٹ ایک گھر بنانے میں جتنا وقت لیتا ہے اس کی اوسط لے کر مزید یونٹ مناسب تعداد میں تعینات کیے جائیں تاکہ جلد از جلد گھروں اور پناہ گاہ کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوسکے۔ تجاویز کئی ایک ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کو حکومتی اور نجی سطح پر ایک پالیسی کے طور پر اپنا لیا جائے تاکہ کام باآسانی اور بروقت ہوسکے ۔ اب حال یہ ہے کہ کوئی تنظیم خیمے فراہم کر رہی ہے، کوئی جستی چادریں اور کوئی فائبر کے گھر اور جست کے بنے ہوئے گھر۔ اس سلسلے میں مزید تجاویز دی جائیں تاکہ متعلقہ اداروں کے اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے۔

یہ ہمارے "سیاہ"ستدان

بنی اسرائیل پر بخت نصر نے حملہ کر دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل کا گلہ بان اپنی ہی بھیڑوں کی عزت لوٹنے میں مصروف تھا۔ پھر اللہ نے ان کا جوحال کیا وہ تاریخ جانتی ہے۔ ستر سال کی غلامی کے بعد انھیں آزادی ملی تھی
ہمارے حاکموں اور حاکمیت کے امیدواروں کو صرف اپنی پڑی ہے کسی طرح اپنی سیاست چمکا لیں۔ خود مدد نہیں کر سکتے تو کسی کو مدد کرتے ہوئے دیکھ بھی نہیں سکتے۔کشمیر اور سرحد میں متاثرین کا جو حال ہے وہ کون نہیں جانتا۔ جی کرتا ہے دھاڑیں مار مار کر روئیں ان کی حالت زار پر نہیں ان بے حسوں پر۔ جو ان کی مدد کرنے آنے والوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ کوئی اور ایشو نہیں تھا تو اس بات کو سر پر اٹھا کے ناچ رہے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے جو فوجی یہاں امدادی سرگرمیوں کے لیے آئے ہیں وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں یا بے حسی کی انتہا ہے۔ وہ ہزار کے لگ بھک فوجی کیا کر لیں گے وہاں۔ یہ جو دس لاکھ کی فوج ہم نے پال رکھی ہے جس کے اخراجات اپنا پیٹ کاٹ کر ہم پورا کرتے ہیں یہ بھاڑ جھونکنے کے لیے ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس کا کیا مقصد ہے کیا ہم اتنے ہی کمزور ہوگئے ہیں ان مٹھی بھر کو وہاں سے نہیں نکال سکیں گے۔ قارئین یہ سوچ رہے ہونگے کہ کتنا بے وقوف بندہ ہے اسے یاد نہیں کہ اس وقت اس فوج نے کیا کر لیا تھا جب افغانستان پر حملے کے لیے امریکیوں کو اڈے دیے گئے تھے۔ مگر میں پوچھتا ہوں اس وقت انھوں نے کیا کرلیا تھا جو آج دموں کے بل پر پھر ناچ رہے ہیں اس وقت بھی ناچ کر رہ گئے تھے ہوا وہی تھا جو فرد واحد نے چاہا تھا۔ تو اب کیوں اپنی انرجی ضائع کرتے ہیں ۔ انکی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم مدد کرنے والوں کا کباڑہ تو نہ کریں۔ مگر انکی تو ایک ہی رٹ ہے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لو۔ کونسی پارلیمنٹ یہ پارلیمنٹ ہے مچھلی منڈی بے وقوفوں کا میلہ ۔ہاہ یہ پارلیمنٹ ہے۔اور اوپر سے انکو اعتماد میں لو وہ جو امداد کے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ چاہیں مر جائیں وہاں یہ اس بات پر ایک ہفتہ لگاتے کہ یہاں نیٹو اور امریکی فوج آئے یا نہیں۔ آڈٹ کروایا جائے فنڈز کا اب جب حکومت نے اعلان کیاہے کہ عالمی اداروں سے اس کا آڈٹ کروائیں گے تو پھر اچھل رہے ہیں یہ سب عوام کو اندھیرے میں رکھنے کے لیے ہے۔سوال یہ ہے کہ پیسہ آپ کا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جن کا ہے ان کا حق بھی ہے کہ آڈٹ کریں جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف آپ کو امداد دے رہے ہیں تو جیسے چاہیں اس پر مانیٹرنگ کریں آپ اپنا کام کریں۔ خود جتنی توفیق ہوئی ہے سب جانتےہیں ۔ تصاویر اتروانا اور دورے کرنا بس اور کوئی کام نہیں۔ حاکم ہوں یا حزب اختلاف۔ دو ٹرک امداد کے اور پبلسٹی مفت کی۔ موج ہے نا۔جن کی آمدن کروڑوں میں ہے وہ امداد لاکھوں میں دے کر اور بونس میں دلاسے دے کر چپ ہوگئے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔جن کو اس طرح جگہ نہیں ملتی اخبار میں وہ اس طرح بناتے ہیں اور جو حاکم ہیں انکی تو موج ہے ایک دورہ کیا اور سرکاری ٹیلی وژن الاپنے لگا فلانے چوہدری نے آج یہاں کا دورہ کیا اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔ کرنے والے چپ چاپ اپنا کام کر رہے ہیں دریافت کرنے پر پتہ چلتاہے کہ انھوں نے کیا کیا کِیا ہے۔کبھی جماعت الدعوتہ،ایدھی اور تبلیغی جماعت کی کارکردگی دیکھیں اور پھر ان سیاستدانوں کے چیلوں کی حقیقت خود جان لیں گے۔ اب تو تعوذ ایسے ہونا چاہیے “یا اللہ ہم سیاستدان مردود سے تیری پناہ مانگتے ہیں“

محبت

اللہ سے محبت کیجئے جینا آسان ہو جائے گا۔ مگر آپ یہ ضرور پوچھیں گے کہ محبت کس طرح کی جائے ہم جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں نمازیں پڑہتے ہیں یہ محبت ہی تو ہے۔ صدقہ دیتے ہیں۔ زکٰوتہ دیتے ہیں یہ محبت ہی تو ہے۔ یہ محبت نہیں۔ کبھی سوچا آپ نے آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ آپ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ سے لالچ ہے۔ اللہ جی یہ کام نکلوادو تو اتنے پیسے صدقہ دوں گا۔ اللہ جی یہ کام کروا دو اتنے نفل پڑھوں گا۔ اور فرائض کی جہاں تک بات ہے تو ہمارے دلوں میں یہ لالچ بٹھادیا گیا ہے کہ آپ کو جنت میں حوریں اور دودھ،شہد شراب کی نہریں ملیں گی۔ ہم اسی لالچ میں نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جارہےہیں زکٰوتہ دیتے ہیں اور حج پر حج کرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے آپ رب کی عبادت کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ بیوپار اور کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تو بنیے کاکام ہے ہم مسلمان ہو کر ایسے۔ عجیب بات نہیں ۔ اللہ کہتا ہے میری طرف ایک قدم بڑھاؤ میں تمہاری طرف دو قدم بڑھاؤں گا۔ مگر اس قدم میں اخلاص تو ہو۔ جو بندہ جو چاہتا ہے اللہ اس کو دے دیتے ہیں ۔ جو دنیا کی آرزو رکھتا ہے اسے دنیا ملتی ہے اور جو جنت اور حوروں کی آرزو رکھتا ہےاسے بھی ہہ ہی ملیں گی۔اور جو اللہ کی خواہش کرتے ہیں کبھی سوچا انھیں کیا ملے گا۔ انھیں اللہ ملے گا۔ آپ ہم صوفی نہیں۔ ہم تو دنیا دار بندے ہیں۔ ہم کہاں اللہ کو پا سکتے ہیں ۔مگر کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ مانا کہ راہِ عشق میں ٹھوکریں بہت ہیں ۔ ہم یہ سب برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ بڑے لوگ تھے داتا صاصب اور خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیھم جیسے، جو اللہ کو راضی کرتے تھے۔ جن کو بخار چڑھتا تھا اور اللہ سے شفا کرنے کی دعا کرتے تو جواب آتا کہ بخار بھی ہمارا اور بندہ بھی ہمارا پھر تو کون بولنے والا۔ مگر ہم اللہ کو دوست تو بنا سکتے ہیں۔ اس سے اپنے لیے رحمت تو مانگ سکتے ہیں ۔ اس کو اپنے ساتھ تو رکھ سکتے ہیں ۔ کھانے میں ، پہننے میں ، چلتے پھرتے اور سوتے ہوئے اسے یاد تو رکھ سکتے ہیں۔ اللہ بہت رحیم ہے مانا کہ وہ جبار قھار بھی ہے مگر رحیم اور رحمان بھی تو ہے۔تو اسکو اپنی زندگی میں شامل رکھیے۔ نماز پڑھ کر اللہ کو مسجد میں نہ چھوڑ آیے۔ اسے اپنے ساتھ رکھیے۔ یہ احساس رکھیے کہ وہ آپ سے ساتھ ہے پھر دیکھیے جینے کا مزہ کس طرح آتا ہے۔ جب آپ اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے ساتھ شیئر کرنے کے عادی ہو جائیں گے تو وہ بھی آپ کی سننے لگے گا پھر یہ گلہ بھی ختم ہو جائے گا کہ اللہ سنتا نہیں ۔کوئی کام ہو گیا تو اس کا شکر کیجیے، نہیں ہوا تو پھر سے دعا کیجئے رحمت اللعالیمین صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کیجئے وہ کس طرح نہیں سنے گا ضرور سنے گا۔ اگر کام نہیں ہوتا تو اس سے صبر کی دعا کیجیے کہ کامیابی نہیں تو صبر دے دے۔ بخدا زندگی بالکل ایسے ہو جائے گی جیسے جنت ہو۔ کبھی آزما کر دیکھیے گا۔

عيد اور ہماري ذمہ دارياں

اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ اس کے بعد جس چیز کا ہم کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔ مگر اس بارکچھ خاص ہے۔ عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بےگھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے۔ کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔ ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔ اگر یہ ہی مقدر میں ہے تو ہم کیوں نہیں۔ اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شائد ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے والے آپ ہیں۔ اپنے اپنوں کی مدد نہیں کریں گے تو غیر کیا خاک توجہ دیں گے۔ ابھی وقت نہیں ہوا کہ ہم امدادی سرگرمیوں سے منہ موڑ لیں ۔ ابھی تو کئی علاقوں تک خیمے نہیں پہنچ سکے ۔وہاں کے روزانہ فضائی آپریشن کا خرچہ ہی اتنا ہے کہ ہماری دی گئی امداد دنوں میں اڑ جائے گی۔ آسان لفظوں میں پُھنک جائے گی۔ یہ تو ایسا گڑھا ہے کہ بھرنے کے لیے اس طرح کے کئی گنا جذبات کی ضرورت ہے۔ اس لیے میری ایک درخواست۔ “فطرانہ“ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقہی ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔ اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔ مجھے امید ہے میرے قارئین اس بات پر توجہ دیں گے کہ اس بار عید ذرا سادگی سے منا لی جائے،عید کیک نا لایا جائے،اچھے اچھے کھاناے ڈھیر سارے کی بجائے ایک دو ڈش پکا لی جائیں،کہیں گھومنے نہ جایا جائے ،اپنا اور اپنے گھر والوں کا فطرانہ اور ہو سکے تو اپنے بچوں کی رضامندی سے انھیں بتا کر احساس دلا کر انکی عیدی بھی یہ سب ان کو دیا جائے جن کا ہم پر حق ہے۔ یاد رکھیے گا یہ ان پر احسان نہیں یہ ان کا آپ پر حق ہے مسلمان کا مسلمان پر حق ہے نیز یہ آپ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کریں گے اور کسی کے لیے نہیں۔ اللہ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اس آزمائش میں پورا اترے کی توفیق دے۔ آمین یا ربّ العٰلمین۔

پراجيكٹ گٹن برگ كي طرز پر اردو ميں ايك منصوبہ

اردو ہم جس کو کہتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے اردو اور سائنس آجکل اردو کے چاہنے والوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ کریں یا نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہر چیز اردو میں ہو۔ استعمال چاہیں نہ کریں ۔ کمپیوٹر بھی سائنس میں شمار کیا جاتا ہے ۔ زندگی میں کمپیوٹر کے عمل دخل نے جہاں ہمیں اور پہلوؤں سے متاثر کیا ہے وہاں ہماری زباندانی پر بھی اثرات اور بڑے بد اثرات چھوڑے ہیں ۔ اس کی مثال یہ لے سکتے ہیں کہ رومن میں چیٹ کر کر کے اب میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ بعض اوقات شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید اردو میں لکھے اس لفظ کے ہجے ٹھیک نہیں حالانکہ ٹھیک ہوتے ہیں ۔ بات چلی تو عرض کرتا چلوں اردو کا ہاتھ سے لکھنا بھی چونکہ تقریبا عنقا ہوتا ہے، بعد از میٹرک تو اس کا حال بھی برا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہم پر اس وقت ہوا جب بی کام پارٹ ون کا اسلامیات کا پرچہ دے رہے تھے اور کسی سے لکھا نہیں جا رہا تھا اردو لکھنے کی عادت نہیں تھی ہاتھوں کو پچھلے ٣ سالوں سےتو کیا خاک لکھا جاتا نتیجتًا تمام لڑکے پرچہ دینے کے بعد دیر تک ہاتھ اور بازو ملتے رہے کہ درد ہو رہا تھا۔ خیر یہ تو بات سے بات تھی۔ ذکر ہو رہا تھا کمپیوٹر میں اردو کا ۔ کمپیوٹر کی بات ہو اور انٹرنیٹ کی نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اردو کا نام بھی کمپیوٹر کے لیے حرام تھا چند سال پہلے تک مگر اب کچھ نئی تکنیکوں اور کچھ ٹوٹکوں نے کمپیوٹر پر اردو لکھنا اردو پڑہنا ممکن بنا دیا ہے۔ جب یہ سب ہو گیا تو اردو کے چاہنے والوں کو ہوش آیا کہ اب انٹرنیٹ پر بھی بس ہر طرف اردو ہی اردو کر دیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اردو ویب آرگ کا قیام عمل میں آیا ۔ جہاں سے ناچیز کے اصرار پر ایک پراجیکٹ یا منصوبہ بسلسلہ اردو ای بکس شروع کیا گیا۔ اگرچہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل مریض کی طرح اس کی حالت نازک ہے مگر امید ہے کہ بہتری ہوگی۔ اردو ای بکس یوں تو موجود ہیں انٹرنیٹ پر مگر یہ سب تصویری اردو میں ہیں تحریری اردو میں نہیں ۔ تصویری اردو وقتی حل ہے مستقل حل نہیں چناچہ یہ منصوبہ جو اردو محفل کے اراکین کی طرف سے ترقی پذیر ہے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اردو کی کتابیں مہیا کی جائیں جو: ١۔تحریری اردو میں ہوں ٢۔مفت اور ہر ایک کے لیے ہوں ٣۔ خصوصًا اردو کی کلاسیکل کتابیں جن کے نایاب ہونے کا خدشہ ہے یا کم ملتی ہیں یا انھیں اردو میں ایک مقام حاصل ہےاور صاحبان ذوق ان کو سینت سینت کر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ٤۔اسلامی کتابیں جیسے قرآن بہ ترجمہ و تفسیرقرآن،احادیث کی کتب،سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتب، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وغیرہ۔ ٥۔اردو کی لغات جن سے اردو داں طبقے میں اردو کی صلاحیت بڑھے۔ ٦۔ایسی کتابیں جن کی کاپی رائٹ نہ ہو یہ ختم ہو گیا ہو ہو یا متعلقہ ادارہ انکی آن لائن اشاعت کی اجازت دے دے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہرممکن تعاون درکار ہے ہم فی الحال علمی تعاون مانگ رہے ہیں۔ اگر: ١۔ آپ کے پاس کوئی کتاب ان پیچ یا کسی بھی اردو اڈیٹر میں لکھی ہوئی موجود ہے، آپ اپنی غیر مطبوعہ تحاریر(بشرطیکہ معیار پر پوری اتریں ) یا اپنی یا اپنے ادارہ کی کسی کتاب کا کاپی رائٹ دے سکتے ہوں۔ ٢۔آپ کچھ وقت نکال کے ہمارے ساتھ اس کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہوں لکھنے کے سلسلے میں(اور انشاءاللہ مستقبل قریب میں تحاریر کی پروف ریڈنگ کے سلسلے میں جب کام کی رفتار زیادہ ہوگی) ٣۔آپ اس کام کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہمیں کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے ہوں کوئی تکنیکی بات جس سے اس منصوبے کو نکھارنے میں مدد ملے۔ ٤۔اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی بات، کوئی تعاون جو آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مفید ثابت ہو سکتا ہو اگر ہمیں فراہم کریں گے ہم بصد شکریہ اسے قبول کریں گے اور اسے آپکے نام کے ساتھ اپنے منصوبے میں شامل کریں گے۔ اس صدقہ جاریہ کا صلہ تو اللہ ہی دے سکتا ہے مگر دنیا میں جو خوشی اس سے آپ کو اور اردو کے چاہنے والوں کو ملے گی اس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔ اللہ کریم ہمیں توفیق دے ۔ خیر اندیش www.urduweb.org کی جانب سے‘دوست‘

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کلاس شروع ہوئی تو ایک لڑکے نے اٹھ کر پوچھ لیا سر یہ کہ رہا ہے کہ حضورصلی علیہ وسلم زندہ ہیں یا نہیں اور دوسرےنبی کا رتبہ شہید سے زیادہ ہے یا نہیں ۔ سر نے جواب دیا ایک دو لڑکوں نے اپنے عقیدے کے مطابق جواب دیا کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم درود شریف کا جواب دیتے ہیں یا ایک فرشتہ ہمارا درود ان تک پہنچاتا ہے۔ اور میں سوچتا رہا ہم سب یہ کن بحثوں میں پڑے ہوئےہیں۔ کیا عاشق اس بات کو سوچتا ہے کہ محبوب سامنے ہے یا نہیں۔ وہ تو عشق کیے جاتا ہے۔ عشق کیا جانے ان چیزوں کو اس کا تو دل مدینہ ہوتا ہے۔ اور جس کے عشق میں وہ سرتاپاغرق ہے وہ اسےنا جانے یہ کہاں لکھا ہے۔ ہم صرف بے معنی باتوں میں الجھے ہیں۔ عشق کر کے تو دیکھیں آپ ان چیزوں سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ عاشق کو تو محبوب کی رضا چاہیے اور یہ آپس میں لڑ لڑ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔

پاگل دل

آج بہت دن بعد دکھ برداشت سے باہر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بہت عزیز ہستی کو دکھ میں غرق دیکھ کر بے اختیار دل میں شکوہ ابھر آیا۔ “مالک کیا ہم اتنے ہی بے وقعت ہیں جو آئے روند کر چلا جائے ۔تُو تو سنتا ہے ہم نے تمہیں پکارا مگر ہماری کیوں نہیں سنتا! دکھ دینا تھا تو صبر دے دیتا یہ اتنا سارا دکھ کہاں لے جائیں“ دل اور بھی شکوہ کرتا نادان تھا نا مگر عقل نے روک دیا۔ “رک کیا کر رہا ہے۔ کفر بکتا ہے اللہ تم پر مہربان ہے بھلا وہ تمہاری کیوں نہ سنےگا“ دل پھر مچلا “مگر پھر یہ کیوں! کیا اسے سنتا نہیں کیا اسے دکھتا نہیں کوئی کتنی تکلیف میں ہے “ اس سے آگے سوچنے کی مہلت نہ ملی ۔ عقل نے ایک نیا زاویہ دکھایا۔ “کیا ہے تیرا دکھ اپنی من پسند چیز نہیں ملی تو اس کے احسان بھلا دیے ایک ایسی چیز کے لیے اس کے غضب کو آواز دیتا ہے جو سراسر دنیاوی ہے“ “تیرا دکھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ سے تو بڑا نہیں یاد کر جب انھوں نے کہا تھا ہمیں دکھ ہے مگر ہم رو نہیں سکتے۔ یاد کر وہ وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قاسم اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا تیرا دکھ اس سے بڑا ہےایک باپ کے دکھ سے جس کے سامنے اس کی اولاد چلی جائے وہ بھی بیٹا۔ اور پھر بھی وہ آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکنے دیتے کہ اللہ کی رضا اسی میں تھی“ دل اب پشیمان ہو گیا“ میرا غم تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ کو محسوس کیا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تو تھے ایک باپ بھی تو تھے انھوں نے کیا محسوس کیا ہوگا مگر پھر بھی اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔ “اور تو ایک دنیاوی چیز کے نہ ملنے سے بلک رہا ہے۔ ان کی حالت دیکھ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے گھر اجڑ گئے اولاد والے بے اولاد ہو گئے بچے یتیم ہو گئے اپنے دکھ کےساتھ انکے دکھ کو بھی تو رکھ کر دیکھ وہ بھی تو انسان ہیں وہ تو شکوہ نہیں کرتے وہ تو اب بھی شکر کرتے ہیں اور تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشکرا انسان“ عقل نے اب سختی اختیار کی تھی اور دل ۔۔۔۔۔۔دل اپنے دکھ کو اس دکھ کے سامنے ہیچ محسوس کر رہا تھاجو ہزاروں دل جھیل رہے ہیں۔ پھر عقل نے پیار سے سمجھایا “پاگل دنیا میں ہر چیز نہیں مل جاتی ۔ کہیں اپنی منوائی جاتی ہے کہیں اسکی رضا پر چلنا پڑتا ہے۔ نہ چلےگا تو پھر کیا کر لےگا چلا تو لے گا وہ تجھے اپنی رضا پر! تو اپنی رضا سے چل۔۔۔ مفت میں اسکے سامنے نمبر بن جائیں گے ۔۔۔یہ بھی تو سوچ جو تجھ پر بیتی ہے اس میں تیرا کتنا ہاتھ ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ میں اس کے حقوق پورے ادا کروں اپنے حقوق کی فکر ہے تجھے۔کبھی سوچا کتنا گنہگار ہے اور وہ تجھے ڈھیل دیے جا رہا ہے اور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔ “ دل و دماغ کی اس جنگ نے کئی عقدے سلجھا دیے۔ اگر دکھ جھیلنا ہے تو اپنے دکھ کا موازنہ دوسروں کے دکھ کے ساتھ کرو اپنا دکھ بھول جاؤ گے اپنے دکھ پر دکھی ہوتے شرم آئے گی اتنا ہیچ ہو جائے گا۔ پھر بے اختیار دل سے دعا نکلی “مالک! ہم خطاکار،سیاہ کار،گناہ گار! تیری رحمت کے طلبگار باوجود کہ اس کے لائق نہیں پھر بھی ہم پراپنا رحم کرم اور فضل فرما۔ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سے رحمت بھرا سلوک فرما۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں جو ہمارے بہن بھائیوں پر آئی ہے ان کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کو صبرِ جمیل عطاء فرما آمین یا ربّ العالمین “