شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

عيد اور ہماري ذمہ دارياں

اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ اس کے بعد جس چیز کا ہم کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔ مگر اس بارکچھ خاص ہے۔ عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بےگھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے۔ کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔ ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔ اگر یہ ہی مقدر میں ہے تو ہم کیوں نہیں۔ اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شائد ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے والے آپ ہیں۔ اپنے اپنوں کی مدد نہیں کریں گے تو غیر کیا خاک توجہ دیں گے۔ ابھی وقت نہیں ہوا کہ ہم امدادی سرگرمیوں سے منہ موڑ لیں ۔ ابھی تو کئی علاقوں تک خیمے نہیں پہنچ سکے ۔وہاں کے روزانہ فضائی آپریشن کا خرچہ ہی اتنا ہے کہ ہماری دی گئی امداد دنوں میں اڑ جائے گی۔ آسان لفظوں میں پُھنک جائے گی۔ یہ تو ایسا گڑھا ہے کہ بھرنے کے لیے اس طرح کے کئی گنا جذبات کی ضرورت ہے۔ اس لیے میری ایک درخواست۔ “فطرانہ“ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقہی ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔ اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔ مجھے امید ہے میرے قارئین اس بات پر توجہ دیں گے کہ اس بار عید ذرا سادگی سے منا لی جائے،عید کیک نا لایا جائے،اچھے اچھے کھاناے ڈھیر سارے کی بجائے ایک دو ڈش پکا لی جائیں،کہیں گھومنے نہ جایا جائے ،اپنا اور اپنے گھر والوں کا فطرانہ اور ہو سکے تو اپنے بچوں کی رضامندی سے انھیں بتا کر احساس دلا کر انکی عیدی بھی یہ سب ان کو دیا جائے جن کا ہم پر حق ہے۔ یاد رکھیے گا یہ ان پر احسان نہیں یہ ان کا آپ پر حق ہے مسلمان کا مسلمان پر حق ہے نیز یہ آپ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کریں گے اور کسی کے لیے نہیں۔ اللہ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اس آزمائش میں پورا اترے کی توفیق دے۔ آمین یا ربّ العٰلمین۔

1 comments:

11/04/2005 08:26:00 PM Shoiab Safdar Ghumman said...

آپ کو عید مبارک ہو۔۔۔۔

Post a Comment