شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

غیروں کی مشابہت : خبردار ہوشیار اس سے بچو

غیروں کی مشابہت سے بچیں۔ جی ہاں بالکل ایسا کریں۔ اب دیکھیں نا غیر انٹیل کے پی سی استعمال کرتےہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کو استعمال نہ کریں۔ نہیں کرسکتے؟؟ چلیں ایسا کریں جہاں سٹکر لگا ہوتا ہے "انٹیل انسائڈ" وہاں پر "ساختہ پاکستان " کا سٹکر لگا دیں۔ جہاں بھی انگریزی میں کچھ پرنٹ ہوا ہو اسے چھری سے کھرچ دیں۔ اس طرح آپ یقینًا غیروں کی مشابہت سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ٹھہریے ۔ یہ سب کچھ تو غیر بھی استعمال کرتے ہیں بھئی ونڈوز وغیرہ ۔ تو ان کی مشابہت سے بھی بچیں ۔ غیر لائسنس لے کر اور پیسے لگا کر اسے خریدتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ونڈوز کے چوری شدہ ورژن خریدیں جو سستے بھی مل جاتے ہیں۔ اس طرح آپ یقینًا غیروں کی مشابہت سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ سب استعمال ہی کیوں کریں۔ کمپیوٹر غیروں کی ایجاد، سافٹ ویرز ان کی ایجاد۔ اس طرح تو ہم غیروں سے مشابہہ ہورہے ہیں۔ اس لیے اٹھیں اپنے پی سی کو بند کریں اور اٹھا کر گلی میں پھینک دیں۔ مبارک ہو آپ غیروں کی مشابہت سے بچ گئے۔ آپ فلاح پانے والوں میں سے ہوگئے۔ ارے یہ کیا آپ ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔ چاہے اس پر کیو ٹی وی اور پیس ٹی وی ہی دیکھتےہیں۔ چلیں چلیں اسے بھی اٹھائیں اور گلی میں پھینکیں۔ بھئی یہ بھی غیروں کی مشابہت ہے۔ یہ جو نادان لوگ ہر وقت ان چینلوں پر بولتے رہتے ہیں یہ تو منافق ہیں۔ سچے مسلمان تو ہم ہیں جو ہر لحظہ غیروں کی مشابہت سے بچنا چاہتے ہیں۔ ارے آپ موٹر سائیکل چلا رہے ہیں؟؟ اسے ون ویل پر چلائیں ورنہ اتریں اس سے ۔اتریں اتریں ۔ آگ لگائیں کمبخت کو یہ تو غیروں کی مشابہت ہوگئی۔ بھئی ہمیں منع کیا گیا ہے اس سے۔ ہاں جی بالکل کوئی دن ون بھی نہیں منانا ہم نے۔ آخر جی غیروں کی مشابہت ہے یہ۔ کوئی یوم آزادی اور 14 اگست نہیں آگے سے ۔ منانا ہے؟؟ چلیں ہم ان کی طرح نہیں مناتے۔ غیر تو اپنے ان دنوں میں عہد کرتے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں گے اپنے جذبے تازہ کرتے ہیں۔ہمیں کیا۔ ہمیں کونسا حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ ہم تو ایسے اپنا دن نہیں منائیں گے۔ ہم تو گھوڑے تیار رکھنے کا عزم نہیں کریں گے۔ بھئی ہم مسلمان ہیں ہمیں ان دنوں سے کیا۔ ہمیں جذبہ تازہ کرنے سے کیا۔ہم تو ویسے ہی بھرے بیٹھے ہیں۔ اپنے آپ پر،اپنے ملک پر اور اپنوں پر۔ ہمیں ان دنوں سے کیا۔ ہم تو اسے اور ہی طرح منائیں گے۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکلوا کر، بتیاں لگا کر، اونچی آواز میں کار میں گانے چلا کر اور ٹی وی دیکھ کر اور حکومت کو گالیاں دے کر ہم یہ دن منائیں گے۔ یہ غیروں کی مشابہت تھوڑا ہوئی۔ یہ تو شیطان کی مشابہت بھی نہیں اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ لیکن ہمیں تو غیروں کی مشابہت سے بچنا ہے ناں۔ سو ٹھیک ہے۔ تو صاحبو ٹوٹ پڑو ہر اس چیز پر جو غیروں سے مشابہہ ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی چیز اچھی ہے یا بری ہمیں صرف اتنا پتا ہے کہ ہمیں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ ہمیں کونسا اچھی چیز اختیار کرلینے کا حکم ہے۔ مٹا دیں ہر وہ نقش جو غیروں سے ملتا جلتا ہوں۔ ہمیں اپنی الگ دنیا بسانی ہے۔ ان سب کافروں سے الگ۔ ان بے دینوں ملحدوں سے الگ۔ ہمیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دنیا الگ بسانی ہے ان سے ۔ دیواریں کھڑی کردو، منہ موڑ لو ہمیں ان سب سے بچنا ہے کہیں انجانے میں ان کی مشابہت نہ ہوجائے۔ عقلمند را اشارہ است۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جشن آزادی کے موقع پر

جشن آزادی کے موقع پر مجھے اپنا ہی لکھا ہوا ایک مضمون یاد آگیا۔ وہی دوبارہ پیش کررہا ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ اس مملکت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دے۔ اور تمام اہل وطن کو جشن آزادی مبارک۔ مجھےپاکستان سے کبھی اتنی الفت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ کو اس کا پس منظر بتاتا ہوں۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی گزرے رمضان کی بات ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا:شاکر مجھے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش خریدنا ہے اپنے لائبریرین سے کہہ کر منگوا دو میں عید پر گھر آیا تو لے جاؤں گا۔ میں نے حسب وعدہ کتاب وقت مقرر سے پہلے منگوا کر رکھ لی۔ میں ازلی کتابوں کا بھوکا۔ ایک کتاب سامنے پڑی ہو اور اسے پڑہوں نا چناچہ میں نے ایک یا دو نشستوں میں وہ ساری کتاب چاٹ ڈالی۔ اس سے پہلے میں نے ممتاز مفتی کو کبھی نہیں پڑھا تھا۔ کبھی کبھار رسالوں میں ڈائجسٹوں میں اس کی تحریروں سے اقتباسات چھپتے رہتے تھے. میں اسے صوفی ٹائپ بندہ سمجھتا تھا۔ یہ کتاب پڑھی تو پتا لگا یہ بندہ تو مولویوں کے خلاف ہے۔ مولویوں کی مخالفت ہر نوجوان کی طرح میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ اقتباسات اپنے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں۔ اللہ کو حلق کے نچلے پردوں سے اس طرح نکالتے ہیں کہ اللہ ہا بن جاتا ہے۔ جیسے ان کا اللہ ہمارے اللہ سے مختلف ہو جیسے اس نے سر پر بھاری ": "سا جبہ دستار اور یہ بڑی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہو میں بہت ہنسا تھا اس کے اللہ کو اللہ ہا کہنے پر ۔ پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اس بات پر مولاناؤں کی محافل میں بیٹھتا تھا یہ سب سنتا بھی تھا مگر کسی نے اتنی جرأت کبھی نہیں دکھائی تھی۔ میں نے سوچا بندہ یہ اپنی برادری کا لگتا ہے اسے پڑھنا چاہیے۔ میں نے اگلے دن ہی اپنے لائبریرین سے ممتاز مفتی کی کتابوں کی فرمائش کر دی۔ ایک دوافسانوں کے مجموعے پڑھے،اچھا لکھا تھا نفسیات موضوعِ بحث ہوتی تھی مگر وہ چیز نہیں جو میں چاہتا تھا۔ میں تو اس بات کہ تلاش میں تھا کہ یہ بابوں ،مولویوں اور اسلام کی بات چھیڑے۔ پھر میرے لائبریرین نے مجھے علی پور کا ایلی پڑھنے کے لیے دی۔ اس میں بابوں کا کچھ ذکر تھا۔ پڑھ تو میں نے لی مگر اس نے میرے کئی طبق روشن کردیے۔خصوصٌٌا عورتوں کے بارے میں مفتی کے مشاہدات اور ارشادات۔ یہ سب بھی پہلی بار سنا تھا۔ خیر اسی ناول میں پہلی بار میں نے شعوری طور پر نصاب سے ہٹ کر تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا۔ اس بارے میں مفتی کے مشاہدات جانے :اورپھر جیسے جیسے ان پر سوچا یقین کیجیے مجھے ان سے ایک فیصد بھی اختلاف محسوس نہ ہوا۔ مفتی کہتا ہے ہندو بڑی شائستہ قوم ہیں۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اچھے انسان ہیں اور کاروباری تو بہت ہی اچھے ہیں ۔مگران کو جب بھی موقع ملے یہ مسلمانوں کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی اس خوبی کا میں معترف ہوں کہ انتقام کو ہماری طرح ایک ہی بار ظاہر نہیں کر دیتے اسے دل میں چھپا کر رکھتے ہیں سینت سینت کر پھر جب موقع ملتا ہے تو مسلمانوں پر کاری وار کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔آل انڈیا کانگرس کی کمیٹی کی قرار داد کے وہ الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں :یہ کہا گیا ہے کہ انڈیا جیسا ہے جہاں ہے ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اور اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے اسکی اصل کی طرف لوٹائیں۔ پھر مفتی چھرا بازی کے واقعات بارے سناتا ہے جو اس جیسے برائے نام مسلمان کے اندر کو بھی جنجھوڑ دیتے ہیں اور اسےیہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ اسی طرح ناول میں کچھ بابوں کا بھی ذکر ہے۔ دلی کے حاجی صاحب اور پاگ بابا۔ اور پھر بڈھا جو مفتی کا انتظار کر رہا ہے۔جس کے بارے میں پاگ بابا اسے بتاتا ہے۔ اس کے بعد مفتی کی آپ بیتی کا دوسرا حصہ الکھ نگری پڑھی اور یہاں سے پاکستان کے بارے میں میری سوچ میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ الکھ نگری تھوڑی سی مفتی نامہ اور باقی پاکستان نامہ اور پاکستان کے حوالے سے بابے نامہ اور شہاب نامہ ہے۔ مفتی الکھ نگری میں پاکستان اور قدرت اللہ شہاب کے گرد ناچتا ہے دیوانہ وار ناچتا ہے لوگوں کو بتاتا ہے دیکھو یہ جو پاکستان نظر آرہا ہے یہ ایسے ہی نہیں ہو گیا اس کے پیچھے بڑے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ مفتی کو بڈھا مل جاتا ہے۔جسے وہ مرشد تو نہیں بناتا مگر اس کااحترام ضرور کرنے لگتا ہے۔ مفتی جیسا اڑیل احترام بھی ڈنڈے کھا کر کرتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ بابا اس پر رونا مسلط کر دیتا ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے چلتے پھرتے مفتی بھوں بھوں کر کے رونا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے بندے کے ہاتھوں وقوع پذیر ہو رہا ہے جو اس دنیا میں موجود نہیں آخر مفتی ہار مان لیتا ہےاور بابے کےحلقے میں شامل ہوجاتاہے۔ پھر مفتی کو پاکستان بارے کئی باتوں کا پتا چلتاہے۔ جیسے بھائی جان جو کہ بڈھے کے مرید خاص ہیں اسے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے منصوبے کے روحانی طور پر چیف کوآرڈینیٹر بابا جی تھے۔ انھوں نے ریاست دکن کے نواب کو پیغام بھیجا تھا کہ آؤ تمہیں ایک اسلام ریاست کا وزیراعظم بنا دیں۔ پھر یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سے زیر عمل لایا گیا۔ مفتی ایک دن بیٹھے بیٹھے بھائی جان سے پوچھ لیتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا تو اسے بتایا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دے اس کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں۔ وہ بس یہ خیال رکھے کہ کوئی کام ایسا تو نہیں کر رہا جس سے پاکستان کو نقصان پہچنے کا احتمال ہے۔ یہاں سے مجھے پتا چلا کہ پاکستان کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں ۔ پھر میں بھی مفتی کی طرح پاکستان کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ مجھے اس سے محبت تو پہلے سے ہی تھی مگر اب کچھ اور قسم کی ہے۔ کیونکہ میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے محبت ہے اس لیے مجھے بھی اس سے محبت ہے۔ میں جب یہ سوچتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے پاکستان کو بنانے کا اذن ملا تھا تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جسے وہاں سے اجازت مل جائے اسے کیا چاہیے۔ خیر ذکر مفتی کا ہو رہا تھا تو اسی طرح چلتے چلتے مفتی شہاب کو داستان میں گھسیٹ لیتا ہے۔ بڈھا،بھائی جان اور بڑی بڑی ہستیاں قدرت اللہ شہاب کا ذکر احترام سے کرتی ہیں۔اور پھر مفتی قدرت اللہ شہاب کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔پاکستان سے تو اسے محبت تھی ہی اور یہ محبت شہاب کے توسط سے دوہری ہوجاتی ہے۔ پھر اسی دوران اس پر کئ انکشافات ہوتے ہیں ۔پاکستان کی ترقی بارے،پاکستان کی عظمت بارے اور وہ اپنی تحریروں میں جابجا پاکستان کا ذکر اس طرح کرتا ہے جیسےپاکستان کوئی بزرگ ہے۔ صاحبو سچ پوچھو تو مفتی کی ان ہی تحریروں نے میرے گوڈوں میں پاکستان کا عشق اس طرح بٹھا دیا ہے جس طرح گھٹیا کے مریضوں میں درد بیٹھ جاتے ہیں۔ مفتی جابجا اس طرح پاکستان کی عظمت کی کلیاں ٹانکتاہے اور اس کی آنے والی شان کے بارے میں راگ الاپتا جاتا ہے کہ میں مسحور ہو تا جاتا ہوں اور اب میرا یہ حال ہے کہ کوئی پاکستان کے بارے میں خدشے کا اظہار کرتا ہے تو مجھے وہ بچہ محسوس ہوتاہے میرا جی کرتاہے کہ چیخ چیخ کر اسے بتاؤں فکر نہ کرو اس کی فکر کرنے والی ہستیاں ہیں تم بس اپنے آپ کو ٹھیک کرلو۔ مفتی شہاب کے ساتھ فیصل آباد کے ایک قصبے میں ایک بزرگ سے ملنے جاتا ہے تو وہ برزگ دو ڈھائی سو لوگوں کے مجمع میں کہتے ہیں لوگو ایک دن ایسا آئے گا جب یواین کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا تم وہ دن دیکھوگے ہاں ہم نہیں ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو تم میری قبر پر آکر تھوکنا مفتی کا ایک دوست ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں ہالینڈ جاتا ہے وہاں ایک اسلامی نایاب کتب کی لائبریری میں دوران ریسرچ اس پر کھلتا ہے کہ حضرت بری امام رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے قدموں میں ایک عظیم اسلامی مملکت کا شہر آباد ہوگا۔بری امام کا مزار تو آپ جانتے ہیں نا اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں جس کی طرف جانے والی سڑک سی ڈی اےوالوں نے توڑ دی تھی اور وہاں جانے والے ٹانگوں کا اسلام آباد سے گزرنا منع ہے۔ مفتی حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر بھی کرتا ہے جب انھیں انگریز جنگ آزادی کی ناکامی پر گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کی وہ ریاست جو انھوں نے پنجاب میں قائم کی تھی ختم ہوجاتی ہے تو بوقت گرفتاری مجمع سے ایک مجذوب باہر آکر انھیں تسلی دیتا ہے کہ نوے سال بعد اسی سرزمین پر ایک عظیم اسلامی مملکت قائم ہوگی۔ پھر پینسٹھ کی جنگ جس میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ چھوٹے قد والے سرخ اور سفید لباس والے اور سفید گھوڑوں والے اور برق پاش تلواروں والے بھی لڑے۔ پاکستان کی ایک خاتون جو کہ عرصے سے مدینہ میں روضہ رسول کے قریب مقیم تھیں دیکھتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح روضہ مبارک سے باہر آۓہیں کہ ان کی زلفیں پریشان ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاکستان جہاد کے لیے جارہے ہیں۔ مفتی اس طرح کی کئی باتیں کرتا ہے۔ پھر ایک شاہ صاحب کا تذکرہ جو صاحب کشف ہیں بتانے ہیں کہ انڈیا پاکستان میں ایک بڑی جنگ ہوگی لاکھوں لوگ مارے جائیں گے پھر پاکستان کو عروج حاصل ہوگا۔ سبز آنکھوں والا ایک حکمران جو شاید افریقہ یا یورپ سے ہے آۓ گاا ور سب کو سیدھا کر دے گا پھر پاکستان اسلامی دنیا کو لیڈ کرےگا۔ اس قسم کی بے شمار حکائتیں۔جو ممتاز مفتی بیان کرتاچلا جاتا ہےاور میرے جیسا بندہ جو پاکستان کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس چکا ہےپڑھ پڑھ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ سب آپ سے شئیرکرنے کامقصد کیا ہے؟ یہ کہ آپ لوگ نراش نہ ہوں۔ ہمت نہ چھوڑیں ۔ اس ملک کی فکر کرنے والے موجود ہیں ہمیں بس یہ کرناہے کہ اسکی ترقی کے لیے کام کریں ثمر اللہ دے گا۔ بس بیج ڈالنے کی ضرورت ہے پھل تو آنے کو بے تاب کھڑا ہے۔ ہمارے اس ملک نے آگے چل کر ایک ذمہ داری اٹھانی ہےایک ععظیم مقصد پورا کرنا ہے اور وہ ہے اسلامی دنیا کی قیادت۔ جانےیہ عظمت اسے کس کے طفیل ملے گی مگر ساتھ ہم جیسوں کی بھی چاند ہوجائے گی۔ اس لیے مایوسی نہیں بس کام کرنا ہے پاکستان کے لیے اس کی ترقی کے لیے۔ ے کو عظمت ملےگی انشأءاللہ ضرور ملے گی جانے کس کی برکت ترقی اب بھی تو کم نہیں۔ پاکستان جس کا ایک نام ہے۔ باوجود بے شمار اندورنی بیرونی خطرات کےباوجود یہ پھلتا جارہا ہے پھولتا جارہا ہے۔ اسکے دشمنوں کے اندر جل رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہ پاکستان ترقی کر ہا ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے اس لیےکبھی وہ ہمیں اندر سے بلوچستان اور اس جیسے کئی دوسرے طریقوں سے تنگ کرتے ہیں تو کھبی براہ راست وار کرتے ہیں مگر دشمنوں کے واویلے کے باوجود کیا پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا۔ کتنے عرصے سے یہ لوگ اسلامی بم اسلامی بم چِلا رہے تھے اب اسلامی بم ان کےسروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اور وہ صرف پیچ وتاب کھا سکتے ہیں۔ میزائل ٹیکنولوجی میں بے مثال ترقی، کروز میزائلوں کی طرف قدم اور خلا کی تسخیر کے منصوبے۔ اس مملکت کی عظمت کے گواہ ہیں۔ کام صرف اتنا ہےکہ انفرادی سطح پر اپنے آپ کو درست کر لیں پھر جب اللہ کا کرم ہوگا تو دنیا دیکھے گی کرم تو اس کا اب بھی ہےمگر ہماری کوتاہیاں اس کا اثر موڑ دیتی ہیں اسکی رحمت کو ناراض کردیتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکستان سے محبت نہیں عشق کرنے کی توفیق دے۔ اتنا عشق کہ ہمیں ہر طرف پاکستان ہی نظر آئے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان سوچیں باقی سب بعد میں ۔ ہم میں جذبہ نہیں قدرت اللہ شہاب کے بقول جنون پیدا ہوجائے اپنےملک کے لیے تعصب پیدا ہوجائے فخر پیدا ہوجائے پھر انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں ۔ جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان ہے ہاں عظیم پاکستان ہے۔ اللہ کریم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم پر اور ہمارے ملک پر اپنا رحم و کرم نازل کرے اور کرتا رہے آمین یا رب العٰلمین۔

جشن آزادی کیسے منائی جائے گی

اگست کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ محفل پر ایک دوست نے پوچھا کہ جشن آزادی کس طرح منائیں تو یہ فی البدیہہ "نظم نما" جواب میں وارد ہوئی۔ جو بلاگ پر بھی پیشِ خدمت ہے۔ جشن آزادی کیسے منائیں۔ سوال تو اچھا ہے۔ ادھر تو یہ ہوگا۔ جھنڈیاں لگیں گی۔ جھنڈے لگیں گے۔ (ساتھ والوں‌ سے غیر اعلانیہ شرط لگا کر کہ بانس اور جھنڈا دونوں کس کے بڑے ہیں) بچے سٹکر خریدیں گے۔ بڑے بیج لگائیں گے۔ ٹی وی والے ترانے گائیں گے۔ 14 اگست والے دن وطن کی محبت میں سرشار نواجوان۔۔۔۔ موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائے۔ ٹنڈوں پر جھنڈے بنوائے سائنلنسر کی بانسریاں نکلوائے۔۔ پورے شہر میں گشت فرمائیں‌ گے۔۔ اس کے بعد جھنڈے یا تو اتر جائیں‌ گے یا بارشوں‌ میں گل جائیں گے۔ جھنڈیاں کئی دنوں تک کوڑے کے ڈھیروں‌ پر یا پیروں تلے رلتی پھریں گی۔ جذبے ٹھنڈے ہوجائیں‌ گے۔ اور مادر وطن بھی ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کر پھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گی کہ شاید۔۔۔۔ شاید ۔۔۔ کوئی اٹھے اور اس قوم کی تقدیر بدل دے ۔ اس ملک کی تقدیر بدل دے جس کی نگاہیں 60 سالوں سے اس انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔

جشن آزادی کیسے منائی جائے گی

اگست کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ محفل پر ایک دوست نے پوچھا کہ جشن آزادی کس طرح منائیں تو یہ فی البدیہہ "نظم نما" جواب میں وارد ہوئی۔ جو بلاگ پر بھی پیشِ خدمت ہے۔ جشن آزادی کیسے منائیں۔ سوال تو اچھا ہے۔ ادھر تو یہ ہوگا۔ جھنڈیاں لگیں گی۔ جھنڈے لگیں گے۔ (ساتھ والوں‌ سے غیر اعلانیہ شرط لگا کر کہ بانس اور جھنڈا دونوں کس کے بڑے ہیں) بچے سٹکر خریدیں گے۔ بڑے بیج لگائیں گے۔ ٹی وی والے ترانے گائیں گے۔ 14 اگست والے دن وطن کی محبت میں سرشار نواجوان۔۔۔۔ موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائے۔ ٹنڈوں پر جھنڈے بنوائے سائنلنسر کی بانسریاں نکلوائے۔۔ پورے شہر میں گشت فرمائیں‌ گے۔۔ اس کے بعد جھنڈے یا تو اتر جائیں‌ گے یا بارشوں‌ میں گل جائیں گے۔ جھنڈیاں کئی دنوں تک کوڑے کے ڈھیروں‌ پر یا پیروں تلے رلتی پھریں گی۔ جذبے ٹھنڈے ہوجائیں‌ گے۔ اور مادر وطن بھی ہمیشہ کی طرح ایک ٹھنڈا سانس لے کر پھر کسی مسیحا کے انتظار میں لگ جائے گی کہ شاید۔۔۔۔ شاید ۔۔۔ کوئی اٹھے اور اس قوم کی تقدیر بدل دے ۔ اس ملک کی تقدیر بدل دے جس کی نگاہیں 60 سالوں سے اس انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔

اردو نستعلیق فانٹ ایک خواب جس کی تعبیر دور نہیں

دنیا دیوانوں سے خالی نہیں۔ اب دیکھیے نا اردو میں ہر کوئی ڈھول پیٹتا ہے کہ نستعلیق نہیں ہے مارے گئے لٹے گئے اردو کا حسن ماند پڑ گیا نسخ استعمال کرکرکے۔ مگر ہے کوئی مائی کا لعل جس نے نستعلیق خط بنانے کا سوچا ہو کبھی۔ وہی بات صاحب کہ باتیں اور ‫واویلہ تو سب ہی کرلیتے ہیں۔ مگر عمل کم کم ہی ہے ہم میں۔ کچھ دوست مجھ سے متفق نہ ہوں شاید۔ یقینًا نہیں ہونگے یہ قوم ابھی سوئی نہیں ابھی اس میں بڑے بڑے گوہر نایاب موجود ہیں۔ اس کا درد رکھنے والے موجود ہیں۔ تو صاحبو جو درد رکھتے ہیں۔ جو انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ اردو کی مانگ جو نستعلیق بنا ادھوری ہے بھر دی جائے۔ وہ ذرا قدم بڑھائیں۔ آئیں آگے بڑھیں ان غلطیوں کی تلافی کا ایک موقع ہے۔ ایک منصوبہ جس کا مقصد اردو کے لیے ایک آزاد مصدر نستعلیق فونٹ اردو نستعلیق بنانا ہے شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ وہ صاحب بھی دیوانے ہیں جو آواز دے کر اس طرف بلا رہے ہیں اور وہ بھی دیوانے جو لبیک کہہ رہے ہیں۔ آئیے آپ بھی ان دیوانوں میں شامل ہوجائیے کہ یہ دیوانگی فرزانگی سے بدرجہا بہتر ہوگی۔ اردو نستعلیق فانٹ پراجیکٹ آپ کی توجہ اور مدد کا منتظر ہے۔ اٹھئیے کہیں دیر نہ ہوجائے کہیں کل کو ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

گدھے۔۔۔۔

بہت دنوں بعد آج کچھ لکھنے کو دل کیا توپچھلے دنوں کی ایک خبر یاد آگئی۔ کچھ یوں تھی کہ "پاکستان میں گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے"۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے اس بارے میں استفسار کیا تو منہ بنا کر بولے " پھر کیا ہوا۔اگر غربت بڑھی سکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، مہنگائی بڑھ سکتی ہے تو گدھوں کی آبادی کیوں نہیں بڑھ سکتی۔کونسا قیامت آجائے گی اس سے" اور ہم سر ہلا کر رہ گئے بات ان کی بھی غلط نہیں تھی۔ بھلا گدھوں کی آبادی بڑھنے سے کیا ہوجائے گا۔ صاحبو گدھا بڑا ہی شریف جانور ہے۔ اتنا شریف کہ نہ جانے کتنے عرصے سے اس کو زندگی کے ہر شعبے میں بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے مگر مجال ہے اس نے کبھی چوں چاں کی ہو۔ گدھا ایک کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے۔ اس کے نام سے لے کر اس کی ذات تک ہر چیز قابل استعمال ہے۔ مثلًا "گدھا" ایک عمومی لقب ہے جو اکثر پاکستانی عوام و خواص کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑتا ہے اور مخالف کے کپڑوں پر کیچڑ کی طرح داغ لگا جاتا ہے۔گدھا آپ کسی کو غصے سے بھی کہہ سکتے ہیں اور پیار سے بھی۔ غصے میں کہیں گے تو اگلا بندہ یہ سوچ کر چپ رہے گا چلو گدھا ہی کہا ہے کچھ اور نہیں کہہ دیا۔ اگر پیار سے کہیں گے تو پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کون مائی کا لال ہے جو آپ کو کچھ کہہ سکے۔ گدھے سے ہمیں اپنے استاد محترم یاد آگئے۔ میٹرک میں ہمارے فزکس کے استاد تھے۔ بڑے باشرع اور عملی انسان تھے۔بات منہ میں ہوتی تھی اور ہاتھ مصروف عمل ہو بھی چکتے تھے۔ہمیں گدھا اور ایک مزید نحس جانور کے القابات سے بڑی بے تکلفی سے نوازا کرتے ساتھ میں ان کا ہاتھ چلتا تو یقین آجاتا کہ ہم گدھے ہی ہیں۔بس فرق اتنا ہوتا کہ بوجھ کی بجائے وہ ہم پر فزکس کے عجیب و غریب کے قسم کے فارمولے لادنے کی کوشش کرتے۔خیر اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے انھی کے ڈنڈے اور گالیوں کی برکت ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ فزکس میں حرکت کی تین مساواتیں ہوا کرتی تھیں۔(کرتی تھیں اس لیے کہا ہوسکتا ہے جب لوگوں نے دیکھا کہ نیوٹن خود بھی مرمرا گیا ہے اور اس کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی نہیں تو انھوں نے سوچا ان مساواتوں کو تو بنّے لگاؤ۔ خیر ہمارے ہاں تو یہ کام پٹواری جائیداد کے کاغذوں کے ساتھ اس احسن اور فنکارانہ طریقے سے کرتے ہیں کہ اصل وارث بیچارہ ساری عمر مقدمہ لڑتے لڑتے مر جاتا ہے مگر کاغذات کی تبدیلی غلط ثابت نہیں کرپاتا۔لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔) گدھا باربرداری کے کام آتا ہے۔ اس پر جتنا مرضی وزن لاد لو اس کا کام ہے بس چلتے جانا۔ بس اس کی ذرا سی تفریح یہ ہے کہ کسی دوسرے گدھے یا گدھی کو دیکھ کر اسے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ گدھا ون مین شو کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور مالک کے ساتھ گدھا گاڑی بھی چلاتا ہے۔ گدھا گاڑی کو کچھ ستم ظریف چاند گاڑی بھی کہتے ہیں مگر آفرین ہے جو کبھی گدھے نے برا منایا ہو ہمیشہ ڈھینچوں کرکے اپنی رضامندی کا اعلان ہی کیا ہے۔ گدھا گاڑی سے یاد آیا یہ گاڑیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی ہے جس کا سٹیرنگ اور بریک ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے پوچھا گدھا گاڑی میں ایکسلریٹر کیوں نہیں ہوتا تو انھوں نے رازدارانہ انداز میں بتایا " ہوتا ہے" ہم حیران رہ گئے یہ کیسے ہوسکتا ہے گدھا گاڑی کا ایکسلریٹر ہو اور نظر نہ آئے۔ ہم نے پھر عرض کیا اگر نشاندہی فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ بڑے نخروں کے بعد حاسد نے بتایا گدھے کی "دم" اس کا ایکسلریٹر ہوتی ہے۔ ہم ان کی وسیع العلمی کے قائل ہوگئے۔ اسی بحر حیرت و احترام میں ہم نے جب پوچھا کہ کبھی گدھے کا یہ پرزہ استعمال کرنے کا اتفاق بھی ہوا تو حاسد ناراض ہوگئے کہ اب تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ ہم نے بڑی مشکل سے یقین دلایا اس میں بھلا مذاق کی کیا بات ہے۔ تو انھوں نے جوابًا جو واقعہ سنایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے یہ کوشش کی تھی تاکہ اپنے نظریے کو عوام کے سامنے ہمراہ ثبوت پیش کرسکیں جواب میں انھیں دولتی کھانا پڑی تھی۔ خیر حاسد کے ارشادات تو چلتے رہیں گے کہتے ہیں ہاتھی زندہ لاکھ کا مرے تو سوا لاکھ کا۔ گدھے کے لیے بھی یہی ضرب المثل مشہور ہونی چاہیے تھی ۔ زندہ تو گدھا گاڑی میں مرگیا تو قصاب کی دوکان پر بکرے کے بھاؤ۔ پس ثابت ہوا کہ گدھا واقعی ایک شریف اور کثیر المقاصد جانور ہے جب تک زندہ رہتا ہے خدمت کرتا ہے جب مرجاتا ہے تب بھی کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔ صاحبو چلتے چلتے ایک لطیفہ سناتے چلیں۔ ایک ملک کے سربراہ کو ایک بار ان کے مشیروں نے باتوں ہی باتوں میں کہہ دیا کہ یہ قوم تو ہے ہی گدھی اور بے عقل۔ سربراہ مصر ہوگئے ثبوت پیش کرو۔ مشیران بولے حضور ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ابھی ثبوت مل جاتا ہے آپ بس جیسے ہم کہیں ویسے کرتے جائیں۔ سربراہ نے مشیروں کے کہنے کے مطابق کسی چیز کی قیمت بڑھا دی۔ چند دن گزرے کچھ احتجاج ہوا پھر خاموشی چھا گئی۔ مشیران بولے حضور دیکھا یہ قوم گدھی ہے۔ جتنا وزن ڈال لو کوئی مسئلہ نہیں۔ سربراہ اب بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ انھوں نے نرخ دوگنے کردیے۔ پھر کچھ چوں چاں ہوئی اور بات دب گئی۔ یہ بڑے لوگ بھی عجیب ہوا کرتے ہیں جس چیز کی ضد چڑھ جائے انھیں بس پھر نہ پوچھیں۔ انھوں نے نرخ چار گنا کرنے کا حکم دے دیا۔ بات پھر وہیں کسی کو کوئی فرق نہ پڑا معمولی احتجاج بھی نہ ہوا۔ سربراہ حیران رہ گئے۔ مشیران بولے حضور یہ قوم اس سے بھی زیادہ گدھی ہے۔ سربراہ بولے وہ کیسے۔ مشیروں نے عرض کی حضور ذرا ہمارے مشورے کے مطابق کیجیے ثبوت مل جائے گا۔ چناچہ اگلے دن سے متعلقہ چیز کی منڈیوں میں سرکاری اہلکار بیٹھ گئے۔ جو بھی چیز لینے آتا پہلے اسے دس چھتر کھانا پڑتے پھر چار گنا نرخوں پر چیز لے کر گھر جاتا۔لوگ کچھ پریشان ہوئے پھر عادی ہوگئے۔سربراہ پھر غصے میں آگئے۔ انھوں نے چھتروں کی تعداد دس سے بیس کردی۔بات پھر وہیں۔ چیز استعمال ہورہی تھی چھتر لگ رہے تھے اور یہ سب یونہی تھا جیسے عام سی بات ہو۔ آخر تنگ آکر انھوں نے چھتروں کی تعداد پچاس کردی۔ ایک کلو چیز ساتھ پچاس چھتر۔ اب تو ہر طرف رش۔ جہاں دیکھو لوگ لائن میں لگے چھتر کھارہے ہیں۔ چند دن لوگوں نے برداشت کیا پھر انھوں نے سوچا یہ تو بہت ہوگیا ایسے تو نہیں چلے گا۔ سب ایک وفد کی صورت میں سربراہ مملکت کی خدمت میں پیش ہوئے۔ سربراہ خوش ہوئے چلو میری قوم میں ابھی عقل والے موجود ہیں مگر انھوں نے جو درخواست کی ملاحظہ ہو۔ “عالی جناب کے حکم کے مطابق ہم چھتر تو کھا لیتے ہیں مگر اس سے ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے اس لیے درخواست ہے کہ چھتر مارنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد معقول حد تک بڑھائی جائے تاکہ عوام کو چھتر کھانے میں تکلیف نہ اٹھانا پڑے۔" وفد کے جانے کے بعد سربراہ مملکت محو حیرت تھے کہ مشیران بولے حضور ہم نہ کہتے تھے یہ قوم ہی گدھی اور بے عقل ہے۔ خیر یہ تو لطیفہ تھا ہم اس کا ذکر حاسد سے کر بیٹھے تو بڑے تلخ ہوکر بولے" وہ قوم کوئی اور نہیں پاکستانی قوم تھی۔" ہم حیران و پریشان وہ کیسے۔ تو جواب ملا " خود دیکھ لو کیا حالات ہیں اور ان کے لچھن کیا ہیں۔" تو صاحبو ہم نے تو جائزہ لے لیا اب آپ بھی جائزہ لیں اور سوچیں کہیں حاسد نے ٹھیک ہی تو نہیں کہا۔

آزاد مصدر کیا کیوں؟

اوپن سررس یعنی آزاد مصدر کا ذکر کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کے لیے نیا نہیں۔ لینکس کا نام بھی سب جانتے ہیں۔ آزاد مصدر ہے کیا؟ آزاد مصدر کا مطلب ہے سافٹ ویر کو اس طرح فراہم کرنا کہ صارف کو اسے استعمال کرنے اور تقسیم کرنے کی آزادی ہو معاوضہ ادا کرکے یا اس کے بغیر۔ ہر دو صورتوں میں ناشر کو صرف اپنے معاوضے سے غرض ہوگی نہ کہ اس بات سے کہ پروگرام کو کون آگے مزید تقسیم کررہا ہے یا اس میں مزید تبدیلیاں کرکے اسے اپنے نام سے شائع کررہا ہے۔ آزاد مصدر کے پیچھے ایک فلسفہ کار فرما ہے۔حقوق دانش کے غیز منصفانہ استعمال کو روکنا۔یہ کہاں کاانصاف ہے کہ چند لوگ ایک چیز بنا لیں پر اس پر اجاردہ دار بن بیٹھیں۔ آزاد مصدر کے تحت ہر سافٹ ویر اور اس کا رمزی ذریعہ یعنی سورس کوڈ انسانیت کی میراث ہے نہ کہ کسی مخصوص کمپنی، یا شخص یا اشخاص کی۔ اس نعرے کو لے کر کچھ دیوانے آگے بڑھے اور یونکس سے لے کر لینکس اور عبارتی مواجے سے لے کر تصویری صارف مواجے تک ایک لمبی داستان ہے جو آزاد مصدر کے تحت لکھی گئی۔ انٹرنیٹ پر اس وقت ہزاروں سافٹ ویر دستیاب ہیں جو آزاد مصدر اجازت ناموں کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔ چلیں یہ سب تو ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟ ہمارا یہ حال ہے کہ جب کمپیوٹر کی بات کی جاتی ہے تو جو چیز پہلے ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ہے مائیکرو سافٹ اور اس کا خدمتگار نظام یعنی ونڈوز۔ہماری سوچ صرف مائیکرو سافٹ تک ہی کیوں محدود ہوگئی ہے۔ چلیں تھوڑا آگے چلتے ہیں ونڈوز سے ہٹ کر کچھ مزید پروگرام بھی ہیں جن تک ہماری رسائی ہوجاتی ہے وہ ہیں مقبول عام ایڈوب بی فوٹو شاپ،کورل ڈرا اور اسی طرح کے دوسرے تیسرے پروگرام جو چوری شدہ ہیں اور تیس روپے کی سی ڈی پر با آسانی دستیاب ہیں۔ ہم چوری شدہ سافٹ ویر کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ آزاد مصدر کی صورت میں ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اکثر یہ سوال اپنے دوستوں حتٰی کہ اپنے بھائی سے بھی پوچھا پتا کیا جواب ملا؟ ‫” یہ لوگ ہمیں لوٹ کر کھارہے ہیں تو ان کو اتنا نقصان پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے۔” یہ ہے ہمارا نظریہ اس بارے میں۔ ذرا اس تحریر کو پڑحنا بند کیجیے اور ایک بار آنکھیں بند کرکے تسلی سے سوچیے کہ کیا یہ صحیح ہے۔ کیا یہ چوری ،چوری نہیں؟؟ ہاں یا نہیں میں جواب سوچیں گے تو یقینًا آپ کا جواب ہاں ہوگا۔ اگر ہاں تو پھر آپ میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اور اگر جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں تو کیا یہ سینہ زوری نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی سوچیے کیا آپ اس پر شرمندہ ہیں؟؟ اگر ہاں تو مبارکباد آپ ایک باضمیر جرات مند انسان ہیں اور اگر آپ آج غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو کل اسے دہرانے سے پرہیز بھی کریں گے اور میرا خیال ہے یہی ایک اچھے مسلمان کی نشانی بھی ہے۔اور اگر آپ اس سینہ زوری پر شرمندہ نہیں یا اس چوری کو سرے سے چوری ہی نہیں سمجھتے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے مجھے بے اختیار قرآن کریم کی آیت یاد آرہی ہے جس میں اندھے گونگے اور بہرے لوگوں کا ذکر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایس کیوں کرتے ہیں؟ صرف اپنی دنیاوی آسانی کے لیے مگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آخرت میں آپ سے اس کا سوال ہوگا۔ چلیں اس کو چھوڑیں دنیاوی بات ہی کرلیتے ہیں۔ آپ ایسا کرکے بالواسطہ سافٹ ویر کی دنیا پر اجارہ دار چند کمپنیوں کw فائدہ اور ایک اچھی اور بامقصد تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر کیسے؟؟ ایسے کہ پاکستان میں کمپیوٹر پر کیا چلتا ہے سب سے پہلے م س ونڈوز خدمتگار نظام۔ ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتے ہیں تیس روپے میں مل جاتا ہے اور ہم اس سے انگریزوں کو چونا لگا دیتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیے ہمارے پروگرامر جو آج نکل رہے ہیں وہ کس چیز کے ماہر بن رہے ہیں۔ کبھی اخبار پڑھیے گا مائیکرو سافٹ کا فلاں پروفیشنل ماشاءاللہ بچے نے بہت کم عمر میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ قسم کی خبریں ملیں گی۔ اب ذرا یہ بتائیے کیا یہ سب مفت میں ہوجاتا ہے؟؟؟؟ ظاہر سی بات ہے پیسے لگتے ہیں۔ م س کی مفت میں مشتہری اور مزید گاہک بننے کا رجحان اسے اس بات کی فکر ہی نہیں ہونے دیتا کہ پاکستان میں حقوق دانش کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔آپ اپنی دانست میں انھیں چونا لگاتے ہیں اور وہ بڑے پیار سے آپ کو چونا لگا رہے ہیں بڑے غیر محسوس طریقے سے آپ کے ملک سے زرمبادلہ اور ذہانت کو کھینچ رہے ہیں۔ ہمارا یہی رویہ ہارڈویر ساز کمپینیوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ صرف چند بڑی کمپنیوں کے لیے ہارڈویر بنائیں اور پھر آزاد مصدر خدمتگار نظاموں کی بات ہوتی ہے تو کمپیوٹر صارفین مطابقت نہیں رکھتا اور مشکل ہے جیسے الزامات لگا کر بری ہوجاتے ہیں۔ کیا پروگرامنگ صرف م س اور اس جیسی چند بڑی کمپنیوں کی میراث ہے؟؟؟ نہیں۔ یہ ہمارا آپ کا وہم ہے۔کبھی اس کنویں سے نکل کر دیکھیے پروگرامنگ کی دنیا بہت وسیع ہے۔ آزاد مصدر کا فلسفہ ہے کہ آپ کو خود بھی کچھ نہ کچھ پروگرامنگ آنی چاہیے۔ یہ کسی پروگرامر اور کسی م س جیسی کمپنی کا ہی کام ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے سی ڈی پر ونڈوز مل جائے اور آپ اسے نصب کرکے استعمال کرنا شروع کردیں۔ کمپیوٹر صارفین کو اس “پیشہ ورانہ پن” نے انتا تن آسان کردیا ہے کہ چند کلک کرنا انھیں عذاب محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں کمپیوٹر صارفین ہیں ہی کہاں ہمارے ہاں تو فلموں کے شوقین،گیموں کے شوقین کمپیوٹر صارف بنے بیٹھے ہیں۔ ایک تعمیری چیز کو انتہائی غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ آزاد مصدر ہر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پہلی چیز تو یہ قانونی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو آپ استعمال کررہے ہیں اس پر آپ کا حق ہے بغیر کسی معاوضے کے اور آپ اسے بغیر کسی ڈر کے آگے تقسیم کرسکتے ہیں اور ہاں اگر کہیں معاوضہ وصول کیا بھی جاتا ہے تو انتہائی کم ۔ دوسرے آزاد مصدر کے تحت جاری ہونے والے پروگرام کسی بھی طرح خریدے جانے والے پروگراموں سے کم نہیں۔ مزید آزاد مصدر خدمتگار نظاموں اور ان کی آبادیوں میں شمولیت سے صارفین کو پروگرامنگ کی شدھ بدھ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تعمیری انداز میں کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ تو پھر کیوں نہ ایک اچھی چیز کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگرچہ پہلے چند قدم ضرور لڑکھڑاہٹ ہوگی مگر اس کے بعد آپ سنبھل جائیں گے۔ آپ سے یہ مطالبہ نہیں کہ ابھی سے ونڈوز کو گھر سے باہر پھینکیں اور لینکس کی کوئی تقسیم نصب کرکے بیٹھ جائیں۔ مگر بسم اللہ تو کریں ونڈوز کے لیے ہی بے شمار آزاد مصدر سافٹ ویر موجود ہیں آپ موجودہ پراگراموں کے ساتھ انھیں بھی استعمال کریں اور آہستہ آہستہ چوری شدہ سافٹ ویر کے استعمال کو ختم کردیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں۔ یہ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے اور اخلاقی و قانونی لحاظ سے ذمہ داری بھی۔

شاکر صاحب شاعر صاحب

آج بہت دنوں بعد اپنے بلاگ پر لکھنے کو دل چاہا ہے۔احباب نے میرے بلاگ پر بہت سی چیزوں کے بارے میں پڑھا سوائے میرے۔آج میرے ہاتھ کوئی موضوع نہیں آیا تو دل کیا کچھ اپنے بارے لکھوں۔ اپنے بارے میں کیا لکھتا کچھ ایسا خاص تو نہیں ہے جو دوسروں سے مجھے ممتاز کرے۔خیر یادوں کے کباڑخانے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک دو چیزیں ملیں جنھیں آپ سے شئیر کرنے کو جی چاہا۔ زندگی میں ہر کسی پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے اپنے “ہونے“ ک احساس ہوتا ہے۔ایک گانا ہے شاید آپ نے بھی سنا ہو “مینوں چڑھیا سولہواں سال۔۔۔۔“۔یہ سولہواں سال ہی شاید وہ وقت ہوتا ہے۔مگر مجھ پر سولہواں سال دو سال لیٹ آیا۔شاید یہ بھی میری طرح سست واقع ہوا۔عمر عزیز کے اٹھارہویں سال مجھے احساس ہوا کہ “میں ہوں“۔زندگی حسین لگنے لگی۔ اپنے آپ کو سنوارنے کو دل چاہا۔ہر چیز نکھری نکھری اور انوکھی لگنے لگی۔ خاص طور پر محبت نے مجھے ان دنوں بہت متاثر کیا۔ہر چیز سے محبت اللہ سے اس کے بندوں سے اس کی مخلوق سے اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے بے تحاشا محبت محسوس ہونے لگی۔اور پھرایک اور احساس کوئی بہت بہت ہی خاص ہو۔کوئی محرم۔کوئی جس کے ساتھ دل کا رشتہ ہو۔انھی دنوں مجھ پر اپنی ایک اور صلاحیت کا انکشاف ہوا۔ یونہی ایک دوست کی دیکھا دیکھی ایک دن نظم لکھنے بیٹھ گیا۔ایک بے تکی آزاد سی نظم لکھ کر اسے بلا مبالغہ کئی بار پڑھا۔ہر بار اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا یہ میں نے لکھی ہے کتنی پیاری ہے۔وغیرہ وغیرہ قسم کے سینکڑوں خیالات دل میں آتے۔شاید اللہ نے بھی جب احسن تقویم انسان کو پیدا کیا اسے بھی اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا ہوگا۔ محبت،کسی محبوب کی تڑپ اور ادب سے لنگڑی سی واقفیت نے تمام لوازمات پورے کردیے۔ اس کے بعد پھر میرے اندر کے شاعر نے ایسی انگڑائی لی کہ باقی سب صلاحیتوں کو سلا دیا۔ہر روز ایک نظم یا غزل کا نزول ہوتا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں نفس مضمون کے اعتبار سے تو شاید قابل قبول ہوں پر تکنیکی اعتبار سے بے تکی بے ڈھنگی اور بے بحری بھی تھیں۔ان دنوں کمپیوٹر نیا نیا استعمال کرنا سیکھا تھا اور میرے لیے کمپیوٹر پر اردو کے نام پر ایک ہی چیز تھی ان پیج ۔سو آدھ آدھ گھنٹا لگا کر نظم پہلے لکھتا پھر اس کی تزئین کرتا پھر اس کو گِف بناوٹ میں محفوظ کرتا۔ تو یہ تھا شاکر جو ایک شاعر بھی تھا۔تھا اس لیے کہا کہ آج کل اتنی فرصت نہیں۔زندگی کے چودہ سالوں کی محنت پھل پانے چلی ہے۔سو کچھ لعن طعن کچھ مرضی سے اپنے آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔اب کیسی شاعری اب تو یہ حال ہے کوئی شعرکہنے کی کوشش کروں تو ایک مصرع شعر کا اور دوسرا مصرف ایڈوانس اکاونٹنگ کی انٹری سے نکلتا ہے۔کاسٹ اکاؤنٹنگ،پاکستانی معاشیات،بزنس لاء آج کل یہی اوڑھنا بچھونا ہیں۔ مورخہ چھ جون سنہ2004‫ء سے میرے بی کام پارٹ ٹو کے امتحان شروع ہورہے ہیں‬۔تاریخ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی سالوں سے یہی چلی آرہی ہے اور ڈیٹ شیٹ + رولنمبر سلپ کی آمد بھی جلد ہی متوقع ہے۔ایک مہینے کی ٹینشن کے بعد کہیں خلاصی ہوگی۔دعا کیجیے گا سخت گرمی میں یہ امتحان زیادہ امتحان نہ بنیں۔اب شاید جولائی میں آپ سے مخاطب ہوسکوں۔اور ہاں جاتے جاتے میری دوسری نظم (پہلی کچھ زیادہ ہی آزاد ہے یعنی قافیہ ردیف بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے اس میں۔)،جو میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔نظم اس لیے کہ اس میں آزاد کا بہانہ چل سکتا ہے غزل میں نہیں۔اور میری تو ‫‬ساری شاعری بے بحری ہے۔
جب غم کا اندھیرا چھایا ہو جب درد کا بادل آیا ہو جب آنکھوں میں نمی سی ہو جب خوشیوں میں کمی سی ہو جب حزن سا ہر سو پھیلا ہو جب موسم بہت اداس ہو جب ایسے ہی سلگتے سلگتے لگ گئی بہت ہی پیاس ہو جب درخت بھی ویراں ہوجائیں جب پت جھڑ کا موسم ہو جب چھاجوں مینہ برستا ہو جب ساون کی رِم جھم ہو کہیں چمبیلی مہکی ہو کہیں کوئی چڑیا چہکی ہو تب کہیں، کہیں کوئی آس ہو کوئی بہت،بہت ہی خاص ہو جب تصور میں آجائے سارے درد بھلا جائے چھاجائے غموں پر خورشید بن کر نئی صبح کی نوید بن کر

کیا زندگی ہے ہماری

صبح کا وقت تھا۔میں اپنے روزمرہ کام کے سلسلے میں جارہا تھا۔ابھی محلے میں ہی تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی گلی کے سامنے دو بابے لڑ رہے تھے۔ میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے وہ بزرگ ۔ ‮میرے کانوں میں صرف اتنا پڑا کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: “چل وہابی۔۔۔” آگے ایک نحس جانور کا نام ہے مگر میں اسے دوہرانا نہیں چاہتا۔عقلمند را اشارہ است۔میرے دوست سمجھ گئے ہونگے۔ خیر وہ بات تو ختم ہوگئی تو ختم ہوگئی مگر میرے جیسے فاسق و فاجر کے لیے ہزاروں سوال چھوڑ گئی۔وقت گزر جاتا ہے۔خیر وقت گزر گیا جمعہ کے دن ہمارے مولوی صاحب نے صفیں درست کرتے ہوئے ایک مسئلہ سنایا اور سمجھیے کہ پھر سے اس واقعے کو تازہ کردیا۔ ‮مولوی صاحب فرما رہے تھے:” امام کے قریب اگلی صفوں میں کھڑے ہونے کا حق ان لوگوں کے پاس ہے جو باشرع ہوں“۔ باشرع ہونے کو تو آپ جانتے ہیں نا۔ آج کل معیار ہے کہ فٹ بھر لمبی ڈاڑھی، شلوار گٹوں سے اونچی،ہاتھ میں تسبیح جو ہر وقت چلتی رہے چاہے چغلی ہی کیوں نہ کی جارہی ہوکسی سے،شلوار قمیض کی جگہ اگر کرتا شلوار ہو تو مزید باشرع ہونے کی سند مل جاٰئے گی آپ کو۔ مگر یہ سب سن کر مجھے جو خیال آیا وہ وہی واقعہ تھا جس کا ذکر میں شروع میں کرچکا ہوں۔دو بزرگ جو صبح کے وقت جب کہ فجر کا وقت بھی شاید ابھی باقی تھا،پرندے اپنے رب کی حمد و ثنا میں مصروف تھے اور وہ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ظاہر ہے"اسلام“کی خاطر ہی لڑرہے ہونگے۔اور ایک نے دوسرے کو گالی دی تھی ساتھ ہی اس کے مسلک کا ایسے لیا تھا جیسے ہندوؤں میں شودر کا نام برہمن حقارت سے لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔میرے سامنے ان کی فٹ فٹ بھر لمبی ڈاڑھیاں جھولنے لگتی ہیں، ان کا باشرع حلیہ میری آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتا ہے اگر سنت رسول پر عمل کرکے انسان اتنا شقی القلب ہوجاتا ہے تو میں باز آیا ایسے کسی بھی عمل سے۔ مگر ٹھہریے کیا میرے اور آپ کے نبیؐ سائیں جن کے ہم نام لیوا ہیں کیا ان کی سنت ان کی سیرت ان کا عمل ان کا کردار یہ ہی تھا۔کیا ان کے صحابہ بھی اسی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑا کرتے تھے جیسے آج یہ ‮”باشرع‬” لوگ ایک دوسر ے کو کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو کیوں یہ سب،کیوں ہر جگہ ان کی اجارہ داری ہے۔کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے انھوں نے اسلام کا؟؟ کیا اسلام ان کی وجہ سے چل رہا ہے؟؟ کیا یہ اللہ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں؟؟ کیا باشرع ہونے سے ان کو مسلمان ہونے کی سند جاری ہوگئی ہے کہ جاؤ جو مرضی کرو؟؟؟ اگر نہیں تو پھر کب تلک یہ ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے آخر سحر کب ہوگی۔

عجب سی یہ چیز محبت ہے۔۔

عجب سی یہ چیز محبت ہے۔۔ “ہاہاہاہاہاہا،سالے محبت کو ہوّا بنایا ہوا ہے۔۔“ ابے ادھر آ۔۔ جی استاد یہ پڑھ ۔۔۔ہاہاہاہا۔سالے کہتے ہیں محبت زندگی بدل دیتی ہے۔۔ہاہاہاہاہا۔ ابے محبت کیا کنپٹی پر بندوق رکھ دیتی ہے کہ اپنے کو بدلو۔۔ یہ سالے لکھاری بھی یونہی چھوڑتے ہیں۔۔ “استاد ایک بات کہوں“ “بول بے،تیرے کو ادھر میں نے اسی لیے بلایا تھا۔“ “استاد کبھی تیرے کو سر درد ہوا؟؟“ “ابے الو کے چرخے میں نے تیرے کو محبت کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے بلایا ہے وہاں سے۔اور تو مجھے سر درد کی سنا رہا ہے۔ابے کیا تو ڈسپرین بیچتا ہے۔۔۔ہاہاہاہا“ یہ کہہ کر استاد خود ہی اپنی بات کو انجوائے کرنے لگا۔ حمید نے ہمت نہیں ہاری“ استاد بتا نا۔“ “ابے میری جان کے دشمن کئی بار ہوا ہے سردرد۔ میں کیا آسمان سے اترا ہوں یا مجھ پر اللہ میاں نے سر درد حرام قراد دے دیا ہے۔“ “تو استاد سردرد جب ہو تو تب اس کا احساس ہوتا ہے۔ محبت بھی سر درد ہے جب ہو تب اس کا احساس ہوتا ہے اور جس کو نہیں ہوتی وہ اس پر ہنستا ہے۔“ “ابے دقراط کے سالے۔۔“ “دقراط نہیں استاد بقراط“ “ابے وہی وہ سالا بقراط،ابے بقراط کے سالے تو یہ فلسفہ کب سے بولنے لگا رے۔کام تو گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کرتا ہے اور مارتا بقراطیاں ہے۔“ “ارے استاد۔۔بڑی ودھیا خبر ہے میرے پاس سنے گا تو خوش ہوجائے گا۔“ “ابے موٹے اسی طرح آنا ہمیشہ دیکھتا نہیں کہ استاد میٹنگ میں ہے۔“ “ہیں؟؟ میٹنگ میں؟ استاد کس میٹنگ کی بات کرتا ہے۔“ “ابے یہ محبت کی میٹنگ ہے تو چپ رہ تیرے پلے یہ بات نہیں پڑے گی۔“ “پر استاد میری تو سن لے۔ ماں قسم ساری میٹنگیں بھول جائے گا۔“ “ہاں بول تو اپنی تل لے یہاں۔ ہم خاموش ہیں۔“ “استاد کیا زبردست فل فلوٹی آئی ہے اپنے محلے۔ خدا قسم دیکھے گا تو تُو بھی ایک بار ہل جائے گا۔ابھی اسے آئے دوسرا دن ہے اور آدھا محلہ اس کے پیچھے لگ گیا ہے۔ قسم سے استاد ایک چل تو سہی تیرا دل خوش ہوجائے گا۔“ “ابے کیا اول فول بک رہا ہے۔کیا گھاس کھا گیا ہے۔ابے عورت ہے کہ گڑ کی ڈلی ہے جو آدھا محلہ پیچھے لگ گیا ہے۔“ “استاد ایک بار چل تو سہی۔ وہ تو گڑ سے بھی میٹھی ہے۔“ یہ کہ کر موٹے نے ایک طویل چٹخارہ بھرا۔ “ابے سالے خوامخواہ میں سسپنس پھیلا رہا ہے۔چل بے حمیدے ذرا دیکھیں کیا چیز آئی ہے جس پر یہ موٹا بھی جھوم رہا ہے۔“ “وہ دیکھ استاد وہ جو سامنے پیلا سا مکان دیکھ رہا ہے نا۔وہیں آئے ہیں وہ اور اس کے گھر والے۔یہ دیکھ ادھر والی نکڑ پر سارے لونڈے اسی کے دیدار کو کھڑے ہیں۔“ “ابے ان کی تو۔۔۔،چلو بھئی بچو اب اپنے اپنے گھر چلو۔شاباش۔“ استاد کو دیکھ کر سب کائی کی طرح چھٹ گئے۔ “چل استاد یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔“ “ابے زیادہ ٹائم نہیں اپنے پاس۔تو جانتا ہے ناں اپن مصروف بندہ ہے۔“ “بس استاد زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ۔ ہر پانچ منٹ بعد تو وہ دروازہ کھول کر جھانکتی ہے۔“ “لے بھئی وہ نکلنے لگی ہے استاد ۔۔دیکھ پردہ ہلا اور یہ لے۔۔“ مگر استاد کہاں اس کو سن رہا تھا۔ وہ تو اس کی شکل دیکھ کر ہی سکتے میں آگیا تھا۔ “استاد کیا ہوا۔۔“ موٹے نے استاد کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرائے۔ “ابے یہ تو وہی ہے!“ “کون؟ کس کی بات کررہے ہواستاد؟“ “تیری استانی بے اور کون۔“ “ہماری استانی؟“ دونوں کے منہ سے اک عالم تحیر میں نکلا۔ “استاد تو نے صبح کہیں پھر بھنگ تو نہیں پی لی۔پر نہیں۔۔۔۔۔۔ بھنگ تو تُو نے سال ہوا چھوڑ دی ہے۔“ “اوئے حمید! آج استاد کو کیا کھلا دیا ہے۔یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہا ہے۔“ “ابے بکواس بند کرو۔یہ روز ملنے آتی مجھے۔تم اپنی ہانک رہے ہو۔“ “ہیں؟ کہاں استاد۔کب ملنے آتی ہے۔ تو تو ہماری نظروں کے سامنے رہتا ہے سارا دن“ “ابے رات کو ملنے آتی ہے؟“ “رات کو؟“ “پر استاد رات کو تو ایک ہفتہ ہوگیا تیرے ساتھ میں بھی ہوتا ہوں۔اوئے موٹے تو ٹھیک کہتا ہے استاد گیا کام سے۔“ “ابے کم عقلو یہ رات کو خواب میں ملنے آتی ہے روز۔اسی کم بخت کی وجہ سے تو میں نے بھنگ چھوڑ رکھی ہے سال بھر سے۔“ “ارے استاد۔ تو خوابوں پر بھی یقین رکھتا ہے؟؟“ “او بس یار رکھتا تو نہیں تھا پر تمہاری استانی نے آکر سیدھا کردیا ہے۔“استاد کا لہجہ اب استاد والا نہیں لگ رہا تھا۔ “اوووو۔یعنی استاد تو اندر ہی اندر عشق لڑاتا رہا اور ہمیں خبر نہ ہونے دی۔“ “ابے استاد اب بھنگ کیوں پیے گا اسے نشہ بن پیے ہی چڑھتا ہے تو بھنگ کیا ضرورت۔“ “پر استاد ایک بات تو بتا۔ تو نے اسے پہلی بار دیکھا کب تھا؟“ “یار بس یونہی راہ چلتے ایک بار نظر پڑی تھی۔سالی تب سے رات کو آنکھوں میں گھس آتی ہے۔“ “چل پھر استاد اس سے بات کر لے آج۔موقع اچھا ہے کہیں تو ساری عمر اس کے خواب ہی نہ دیکھتا رہے۔“ وہ سب اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ “اب اس کو باہر کس طرح نکالیں ۔۔۔“ حمید سوچ میں پڑ گیا۔ “اوئے ایسے نکالیں اور کس طرح۔“ استاد نے دروازہ کھٹکھٹادیا ۔تھوڑی دیر بعد ایک اماں نما چیز برآمد ہوئی۔ “ہاں بھئی کیا بات ہے۔کس سے ملنا ہے۔رض۔۔“ کہہ کر اپنی غلطی کا احساس ہوا تو رک گئی پھر بولی“ اسلم صاحب گھر پر نہیں۔“ “اماں جی ہمیں اسلم صاحب سے نہیں ان سے کام ہے جن کا ابھی آپ نام لے رہی تھیں؟“ “ہیں؟ رضیہ سے کام ہے؟؟“ اس بار اماں اپنی حیرت میں رضیہ کا نام بتا گئیں۔ “ہاں۔۔“ ابھی استاد اتنا ہی بولا تھا کہ پیچھے سے کراری سے آواز آئی۔ “کون ہے جو میرا نام اس طرح لے رہا ہے۔ تو یہ تُو ہے استاد غفورے۔ تجھے شرم نہیں آئی یہاں بھی میرے پیچھے آگیا۔سال بھر پہلے کی ڈانٹ تجھے بھولی نہیں لگتا ہے۔“ “وہ جی وہ بات یہ ہے کہ وہ۔۔۔“ استاد کی زبان سے لفظ نہیں نکل رہا تھا اور حمید اور موٹا استاد کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔جو ان کی ہونے والی استانی کے سامنے اس طرح ہکلا رہا تھا۔ “استاد تو ہمارا استاد ہے کچھ ہماری عزت کا خیال کر لے۔ تُو تو عورتوں کے سامنے انھی کی طرح ڈر رہا ہے۔“ حمیدے نے استاد کو غیرت دلانا چاہی جس کا یہ اثر ہوا کہ استاد کا ہکلانا بند ہوگیا۔ “وہ بات یہ ہے جی کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔“استاد نے ایک ہی سانس میں جیسے سبق سنا کر سر سے بوجھ اتار دیا۔ “کیا؟ شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابے اپنا حلیہ دیکھا ہے شادی والا۔چل بھاگ جا۔پہلے اپنے آپ کو بنا شادی والا پھر بات کرنا۔ اور سن یہ میرے اماں باوا کا کام ہے۔ انھی سے بات کرنا۔“اتنا کہہ کر رضیہ اندر غائب ہوگئی اور استاد اپنی سوچوں میں گم ایک طرف چل پڑا۔ “اررررےے۔۔۔ استاد۔ہمیں تو لیتا جا۔“ حمیدا چلایا۔ پر استاد اپنے آپ میں گم تھا۔ “استاد گیا کام سے“ موٹے نے استاد کے ہم قدم ہوتے ہوئے کہا۔ “ابے کام سے نہیں گیا کام کی سوچ رہا ہوں۔“اتنے میں جھورے نائی کی دوکان آگئی اور استاد اس میں داخل ہوگیا۔ جب اس نے اپنے لمبے لمبے پٹے جھورے کو کاٹنے کو کہا تو جھورے کے ساتھ ساتھ حمیدے اور موٹے کی آنکھیں بھی حیرت سے ابل پڑیں۔ “استاد تو آج ہمیں حیران کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے۔“موٹے نے آخر حیرت سے باہر آکر کہا۔ “ابے وہ تیری استانی کیا کہہ رہی تھی پہلے شادی کے قابل بن پھر آگے بات کرنا۔ اس نے اتنے مان سے کہا ہے تو کیا اب بات نہ مانوں۔“ “لے بھئی استاد تُو تو گیا کام سے۔اب ذرا یہ بتا تو پہلے محبت پر ہنس کیوں رہا تھا۔“حمید نے پوچھا۔ “بس یار وہ تو ایسے ہی اندر کی آواز دبانے کے لیے تھا۔ورنہ محبت کا ہارن تو کب کا میرے اندر بج رہا تھا۔ میں ہی اسے راستہ دینے کو تیار نہیں تھا۔اب موٹے نے فل فلوٹی کے بہانے تیری استانی سے ملا دیا ہے۔اب کیا پردہ تم سے اور اپنے آپ سے۔“ استاد کے لہجے میں کچھ پانے اور کچھ کھونے کی حسرت ہلکورے لے رہی تھی۔ “لے بھی حمیدے اپنا استاد تو شہید محب ہوگیا۔چل تو میں کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈیں۔“ “ابے ٹھہرو۔۔“ استاد نے دبکا مارا تو غفورے نائی اور اسکے گاہکوں سمیت سب ہل گئے۔ “ابے کدھر جاؤ گے ۔اب اگر میں سدھر رہا ہوں تو کیا تم کو خراب رہنے دوں گا۔خبردار جو کسی نے مجھ کو آج سے استاد کہا۔غفور بھائی کہا کرو۔اور موٹے تم کو اب موٹے کے نام سے نہیں اصلی نام سے سب پکاریں گے۔شکیل ہے اس کا اصلی نام۔ سن لیا تم لوگوں نے؟؟“ “سن لیا جی۔سب نے یک آواز ہوکر کہا۔ “اوئے حمید اگر اب مجھے تو چرس کے سوٹے لگاتا نظر آگیا تو وہیں تیری چھترول شروع کردوں گا۔ خبردار جو دوکانداروں سے بھتہ وصول کیا اب تو۔اور ہاں اگر تم میری بات سے متفق نہیں تو جاسکتے ہو۔ مگر اس محلے میں تمہاری بدمعاشی نہیں‌ چلے گی اب۔“ “ٹھیک ہے استاد جیسے تو کہے۔ ہمیں تو تیرے ساتھ ہی رہنا ہے۔“حیمد اور شکیل نے اداس سی آواز میں کہا۔ اب کی بار استاد نے مشفقانہ لہجہ اپنایا۔“اوئے میرا بیاہ ہولینے دو پھر تم دونوں کا بھی کروا دوں گا۔پہلے اچھی طرح کام سیکھ لو پھر کہیں تم دونوں کو ایک ورکشاپ کھلوا دوں گا۔“ “ٹھیک ہے استاد۔۔“ ابے کہا نہیں کہ استاد نہیں‌ غفور بھائی۔ “ٹھیک ہے غفور بھائی جیسے آپ کہیں“ حمید نے سر جھکا کر کہا اور استاد نے اسے اور شکیل دونوں کے اپنے آدھے کٹے بالوں سمیت اٹھ کر گلے سے لگا لیا۔

ہمیں ہوش کب آئے گا۔۔۔

لو میاں حکومت کو بھی ہوش آہی گیا۔ کیا ہوا کس ہوش کی بات ہورہی ہے۔ استاد اپنی حکومت نے عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے ایک وفد بھیجنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ ہاں بھئی ان کی بڑی مہربانی کہ انھوں نے وفد بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ورنہ ان کا کیا کرلیتے ہم۔ ہاں بھئی ان کا کیا کرنا ہے کرنا تو اپنا ہی ہے۔ پاگل کتے کی طرح اپنی ہی دم چبا ڈالیں گے ہم اور کیا کرسکتے ہیں۔ ہاں یار۔اوئے سنا ہے اپنی اپوزیشن نے ساتھ جانے سے انکار کردیا ہے۔ اوئے ان لوگوں نے بھی اپنے نمبر بنانے ہیں۔یہ اسلام کے نہیں اسلام آباد کے خواہشمند ہیں۔ خیر اب یہ تو تیرے اندر حکومت کی زبان بول رہی ہے نا۔ اچھا بھئی استاد پھر ملتے ہیں۔ رب راکھا۔ (چند دن کے بعد) ہاں بھئی کیا حال ہیں استاد۔کوئی نئی تازی سنا یار۔ نئی تازی یہ ہے کہ اپنا وفد یورپی یونین کے دفتروں کی خاک چھان کر واپس آگیا ہے۔ ہیں؟؟ خاک چھان کر۔اوئے وہ پاکستان کا کوئی سرکاری محکمہ تو ہے نہیں ۔پھر یہ لوگ خاک کس طرح چھانتے رہے ہیں۔ او یار یہ پوچھ۔ کتوں والی کی ہے انھوں نے ان کے ساتھ۔ہمارے وزیر موصوف گئے تھے ساتھ وفد کے۔ سنا ہے وہاں صرف ان کے ساتھ ڈائریکٹر کی سطح کے لوگوں نے بات کی ہے۔ اوئے سچی؟؟ یار یہ تو بہت ماڑی گل اے یار۔ اوئے ان کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔ یہاں ایسے بیان دے رہے تھے جیسے وہاں رستم جہاں کا دنگل جیتنے جارہے ہیں۔ اب بڑے آرام سے بیٹھے ہیں۔ وہاں سے انھوں ‌نے ٹھنڈے کرکے بھیجے ہیں۔ یار یہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔ اور کس کے ساتھ ہو پیارے۔ ہمارے کام ہی ایسے ہیں۔ اب دیکھ لو ساری قوم سُسری کی طرح سو گئی ہے نا۔ صابن کی جھاگ طرح کی ان کی عقیدت اب بیٹھ گئی ہے۔ اور نیچے سے میل کی طرح ان کی اصلیتیں ظاہر ہوگئی ہیں۔دوغلا پن تو ان کے اندر خود ہے ۔ ہاں یار۔ اسی لیے ہر طرف سے ہمیں ہو جوتے پڑتے ہیں۔ رب سے بھی اور اس کے بندوں سے بھی۔ لے اور سن۔۔۔ اب کیا ہوگیا۔ یہ دیکھ آج کی اخبار میں۔۔ لکھا ہے: “ایک اخباری خبر کے مطابق عراق کے وزیر تعمیرات جاسم محمد جعفر نے یہ بیان دیا ہے کہ عراق میں ہونے والے مزار بم دھماکے انتہائی تربیت یافتہ افراد کی کاروائی ہیں۔جاسم محمد جعفر نے دھماکوں کے فورًا بعد امام حسن عسکری اور امام نقی کے مزاروں کا دورہ کیا تھا انھوں بتایا کہ مزار کے چاروں ستونوں میں سوراخ کرکے دھماکہ خیز مواد بھرا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔“ سنا بھئی شہزادے ۔ ہے نا موج۔ اور یہ مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ یار پر میڈیا والے تو خودکش حملے کا شور مچا رہے ہیں۔ او میرے بھولے بادشاہ وہ تو ایسے ہی ‌کریں‌ گے۔آخر امریکہ بہادر کو تیل بھی تو چاہیے نا۔ بات تو تمھاری ٹھیک ہے استاد پر ہماری عقلوں‌ پر پردے کیوں‌ پڑے ہوئے ہیں۔ اور پائیا ابھی تو نے سنا پڑھا ہی کیا ہے یہ سن: “ سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے مطابق ہالینڈ کی حکومت نے بنیاد پرستی ماپنے کے لیے ایک ٹیسٹ وضع کیا ہے۔“ پتا ہے وہ ٹیسٹ کیا ہے؟ کیا ہے؟؟ نئے امیگرینٹ کو عریاں فلم دکھائی جائے گی۔جس میں دو ہم جنس پرست آپس میں بوس و کنار کر رہے ہیں اور ایک لڑکی مکمل عریاں ان کے ساتھ فلم میں‌ موجود ہے۔ اس فلم پر کسی شخص کے اشتعال کا اندازہ لگا کر اس کی بنیاد پرستی کا درجہ مقرر کیا جائے گا۔ کیوں بھئی استاد کیسی رہی؟؟ او یار یہ تو بڑے روشن خیال بنتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی ان کی روشن خیال کو بطور فیشن اپنا رہے ہیں۔ شہزادے ایسے ہی ہوتا ہے ابھی تُو آگے آگے دیکھ ہوتا کیا ہے۔ ابھی تو ابتدا ہوئی ہے۔ وڈے سائیں کہہ دیا نہ کہ یہ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔ تو دیکھ لے میرے بھائی اس کی صداقت پرکھ۔ابھی تو اور ایسے کئی نمونے تیری میری نظر سے گزریں گیں۔ پر ہمیں ہوش کب آئے گا؟؟ جب پانی سر سے گزر گیا ویر میرے ہوش تب آئے گا۔اگر آپ پاکستان سے بلاگ تک رسائی نہیں حاصل‌کرسکتے تو یہ ربط استعمال کریں۔

بس عشق محبت۔۔۔۔۔۔

امجد اسلام امجد کہتا ہے:
محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں‌ہوتا
محبت عجب لفظ ہے اور اس سے زیادہ عجب عمل۔ محبت کیا ہے۔ کیا کسی نے جانا کہ محبت کیا ہے؟ محبت کوئی نہ نہ جان سکا۔ کوئی جان گیا تو بیان نہ کرسکا۔ محبت ہر کسی کے لیے ایک مختلف چیز۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھیں تو محبت یہ ہے کہ بس اللہ ہی اللہ ہو۔ ہر طرف اسی کا پرتو لگے ہر عمل اسی کے لیے ہو۔ اس کے عشق میں تھیا تھیا کرتے زندگی گزر جائے۔ ابوبکر،عمر،عثمان و علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کو دیکھو تو محبت حبِ رسول ص ہے۔اللہ کے رسول ص کے عشق میں اپنا سب کچھ قربان کردو۔ اپنا گھر بار،اپنی جان تک۔ عجب چیز ہے یہ محبت ۔ کسی کو کنارے لگا دیا اور کسی کو سولی چڑھوا دیا۔ لیکن ٹھہریے محبت کی بھی قسمیں ہیں۔ جو محبت بیان کی گئی ہے یہ محبت وہ محبت نہیں‌ جو ہم آپ سوچتے ہیں محسوس کرتے ہیں۔ یہ محبت کسی کسی کو ہی نصیب ہوئی ہے۔اللہ سے محبت اور اس کے نبی ص سے محبت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ ایک محبت وہ بھی ہے جسے دنیا عشق مجازی کے نام سے جانتی ہے۔عشق کیا ہے۔ محبت جب بے خود ہو جائے تو عشق بن جاتی ہے۔اور عشق مجاز کے روپ میں‌ جلوہ گر ہو یا حقیقت کے۔ عشق تو عشق ہے۔ عشق پھر چناب کی لہریں ‌اور کچا گھڑا نہیں دیکھتا، عشق پھر سولی اور کفر کے فتوے نہیں دیکھتا۔مجاز پر لوگوں نے بہت لکھا مگر ہمارا مقصد حقیقت کے عشق سے ہے۔ عشق دیوانہ کردیتا ہے۔اسی لیے ہوشمند پناہ مانگتے ہیں عشق سے۔پی کر سنبھلنے کا ظرف کسی کسی کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے ہوشمندوں نے ہر زمانے میں عشق کو برا جانا۔ محمد ص کا ظرف کسی کے پاس نہیں اور نہ کبھی ہوگا۔ اللہ کے عشق میں پور پور غرق اور اپنے امتیوں کے لیے ایک مثال بھی۔ دیکھو انھوں نے اللہ سے عشق کیا اور ایک کامل انسان ہونے کا مظاہرہ بھی کیا۔ ان کے بعد جب دل جلوں نے اس راہ عشق پر قدم رکھنا چاہے تو کسی کے پر جل گئے،کوئی ہوش خرد سے بے گانہ ہوگیا اور کسی نے انا الحق کا نعرہ لگایا۔مگر عشق کہاں باز آتا ہے، خار تھے،راستے دشوار تھے، مگر عشاق پھر بھی نہ باز آئے۔ عشق کا اپنا ہی مزہ ہے، جس کے منہ کو اس کی چاٹ لگ جائے اس کے لیے دنیا بے معنی ہوجاتی ہے۔محبوب کا وصال ہی اس کے لیے سب کچھ ہوتا ہے،کھانا، پینا سونا جاگنا۔ اپنا آپ وار کر بھی وہ خود کو نفع میں محسوس کرتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں ہی جنت پا لیتے ہیں۔ میرے آپ جیسے جنت کی تلاش میں نمازیں پڑھتے،سجدے کرتے،گوڈے پیشانیاں سیاہ کرتے رہ جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ بازی لے جاتے ہیں۔ مگر کیوں؟؟ عشق ہم بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارا عشق دنیا ہے،جنت ہے جنت میں ملنے والی ستر ستر حوریں‌ ہیں۔ ہم اس لیے اس کے سامنے ماتھا رگڑتے ہیں کہ ہمیں کاروبار میں وسعت مل جائے،ہماری پریشانیاں‌ ختم ہوجائیں،یا پھر ہمیں آخرت کی اچھی زندگی نصیب ہوجائے۔جنت اور جنت کی نعمتیں ہمارے پیش نظر ہوتی ہے، جن کے پس منظر میں‌ ان کا پیدا کرنے والا اوجھل ہوجاتا ہے۔ مذہب عشق میں اس کے ساتھ کسی کو جنت کی خواہش کو،جہنم سے ڈر کو، دنیا کے فائدوں کو لانا شرک ہے۔عشق یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کیوں وہ تو بس یہ دیکھتا ہےکہ یہ ہے اور اسے اس نے پیدا کیا ہے۔بلھے شاہ کہتا ہے:
نہ میں پاکاں‌ وچ پلیداں نہ میں موسٰی نہ فرعون بلھیا کی جاناں‌ میں‌کون
عشق کیا جانے وہ کون ہے،وہ کونسا ہوشمند ہے جو حساب کتاب جوڑتا پھرے۔اسے تو بس محبوب سے غرض ہے، روکھی مل گئی اس نے کھالی،مرغ مسلم مل گیا اس نے کھا لیا۔کچھ نہ ملا تو دیدار محبوب سے لذت حاصل کرلی۔کسی عاشق کو بخار چڑھ گیا۔ بارگاہ محبوب میں عرض کی یاباری تعالٰی بخار بہت تنگ کرتا ہے اگر اتر جائے تو ۔۔۔ ۔ جواب آیا: بندہ ہمارا اور بخار بھی ہمارا تو کون ہے بولنے والا۔ عشق میں پھوں پھاں نہیں چلتی، کیوں،کیا کیسے عشق کرنے والے نہیں جانتے۔ وہ حساب نہیں لگاتے کہ یہ کام کیا تو اتنا ثواب ملے گا۔یہ کام کیا تو اتنی نیکیاں ڈپازٹ ہوجائیں گی ۔آج کی نمازیں‌ پوری ہوگئیں‌ یعنی فرض ادا ہوگیا۔ یعنی نماز نہ ہوئی بیلنس شیٹ کا حساب کتاب ہوگیا۔ صاحبو ہوشمند نہیں جھلے بن جاؤ۔ اسی میں فائدہ ہے۔عشق میں غرق ہوجاؤ اپنا آپ اس کے سامنے مار دو۔ اسے پا لو گے جس نے اسے پا لیا اس نے سب کچھ پا لیا۔عبادت کرو تو صلہ نہ مانگو تمھاری ہماری کیا مجال کہ کچھ مانگ سکییں۔ ہاں اس کی رحمت،فضل اور کرم مانگو۔ نہیں یہ بھی نہیں اس سے مانگو مولا تو ہمیں مل جا۔ جب وہ مل گیا تو سب مل جائے گا۔ دعا ہے کہ ہمیں ایسی نمازیں‌ اور عبادت نصیب ہوجائے جس کے بارے میں ارشاد کا مفہوم یہ ہے: “احسان یہ ہے کہ تو اللہ کو دیکھے ورنہ یہ محسوس کرے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ اگر آپ پاکستان سے بلاگ تک رسائی نہیں حاصل‌کرسکتے تو یہ ربط استعمال

کچھ سنا تم نے۔۔

بھئی پاکستان واقعی ترقی کررہا ہے وہ کیسے؟ او بھئی اس نے امریکہ بہادر کے نقش قدم پر چلنا شروع جو کردیا ہے۔ رب چاہا تو وہ دن دور نہیں‌جب اپنا پاکستان بھی سپر پاور ہوگا۔ ہیں!!!! پر اس نے کس معاملے میں‌امریکہ بہادر کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا ہے۔ پہلے بھی تو اسے چلانے والے اسی کےکہنے پر چلاتے ہیں؟ او بھائیا اس بار انھوں‌ نے کچھ نیا کرنے کی سوچی ہے۔ ہر بار بندوق اور فوج سے تو کام نہیں‌چلتا نا۔ اس بار انھوں‌نے پیار والا کام کرنے کی ٹھانی ہے۔ واہ جی واہ۔ یعنی ہماری حکومت کو بھی ہوش آگیا!!۔ پر انھوں‌نے کیا کیا ہے؟؟ بھئی وہ اپنا ایف آئی اے نامی ایک ادارہ ہے نا۔ ہاں‌! وہی جو امریکہ بہادر کی ایف بی آئی کا ہم نام ہے۔پر یار ہم نام ہے مگر ہم کام کچھ نہیں۔ یہ تو ان کے پاسنگ بھی نہیں۔ یہ تو ذرا اونچے درجے کی پاکستان پولیس ہی‌ہیں۔ او بھائی اسی ادارے نے تو کام دکھایا ہے!! سچی!!‌پر کیا ہے وہ بھی تو بتاؤ؟ انھوں‌ نے سوچا کہ اگر ایف بی آئی والے امریکہ میں‌ انٹرنیٹ کو چیک کرسکتے ہیں تو یہ ادھر پاکستان میں‌کیوں‌نہیں‌کرسکتے۔ ہیں!!!! بڑی بات ہے بھئی۔ یعنی ان کو بھی جدید ٹیکنولوجی کا استعمال آگیاہے۔ تو اورکیا۔ آگے سنو۔ ان لوگوں‌نے پتہ کیا کیا؟؟ کیا؟؟ ان لوگوں‌نے انٹرنیٹ‌پر ایک ویب سائٹ‌کو بلاک کردیا۔ پر کیوں؟ او یار وہاں‌ ہمارے رسول‌ص کے خلاف کچھ لوگوں نے توہین کی جسارت کی تھی۔ اچھا! تو ایف آئی اے والوں‌نے اپنے اسلام کا بھی ثبوت پیش کردیا۔ یعنی دین بھی دنیا بھی ہم خرمہ و ہم ثواب۔ واہ جی واہ۔ پر سنا ہے کچھ لوگ اس وجہ سے رولا بھی ڈال رہے ہیں‌کہ یہ ناجائز ہے۔ اوئے ان کی کون سنتاہے۔ اجی یہ پاکستان ہے۔ امریکہ بہادر نے اگر پابندیاں لگانے کے لے پیٹریاٹ ایکٹ پاس کروایا تھا تو ہم اس کی تقلید میں‌ ایسے کام بلا کسی ایکٹ کے کرسکتے ہیں۔ آخر پہلے بھی اس اندھیر نگری بھی کوئی ایکٹ نام کی چیز ہے؟؟؟ بات تو تمھاری سولہ آنے ٹھیک ہے یار پہلے کیا ہے یہاں‌ایکٹ نام کا۔ یہ لوگ تو بے وقوف ہیں‌ایویں‌رولا ڈال رہے ہیں۔ واقعی ایویں‌رولا ڈال رہے ہیں۔ خود ہی دو چار دن میں‌صبر کر جائیں گے جیسے توہین رسالت‌ص کے معاملے میں پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ہیں۔ اگر آپ پاکستان سے بلاگ تک رسائی نہیں حاصل‌کرسکتے تو یہ ربط استعمال کریں۔

آپ کا نکتہ نظر

(منظر شروع ہوتاہے۔ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کیمرے کے سامنے ہاتھ میں مائیک لیے کھڑا ہے)ناظرین آپ کے پسندیدہ ٹاک شو کے ساتھ بےبس پاکستانی حاضر خدمت ہے۔ناظرین! آج کل تحفظِ ناموس رسالت کا بڑا چرچا ہے۔ اس سلسلے میں‌ ہڑتالیں، مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ آج کل اِن ہے۔ اس سلسلے میں‌ہم نے آج کا پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں‌ہم عوام سے ان کی آراء‌لیں‌ گے۔ تو آئیے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ (ایک پریشان حال سے آدمی پر کیمرہ فوکس ہوتا ہے)یہ دیکھیے ناظرین سامنے ایک پریشان حال سے صاحب کھڑے ہیں‌آئیے ان سے پوچھتے ہیں‌کہ ان کی اس بارے میں‌کیا رائے ہے۔ بےبس پاکستانی: اسلام علیکم پریشان حال: وعلیکم سلام بے بس پاکستانی:جناب آپ اتنے پریشان کیوں ‌ہیں۔ پریشان حال: (غصے سے، کچھ تنک مزاجی سے تیکھی آواز میں) تو اور کیا جشن منائیں ‌بھیا۔ خوشی سے کدکڑے لگاتے پھریں۔ آج ہڑتال ہے اور میں‌مزدور ہوں۔ ٹھیکیدار نے آج کام سے فارغ کردیا ہے۔ کہتا ہے ہڑتالیے دھمکی دے کر گئے ہیں‌کام بند نہ ہوا تو سب جلا دیں‌گے۔ ارےبھیا ہم کیا کریں۔ کہاں‌سے کھائیں۔ گھر میں‌ کھانے کو روٹی بھی نہیں‌ صبح‌ایک باسی روٹی کھا کر آئے ہیں۔ پریشان ہی ہونگے اور کیا کریں۔خدا غارت کرے ان ہڑتالیوں‌کو غریبوں‌آہ پڑے ان پر۔ بے بس پاکستانی:تو جناب آپ کو یہ نہیں‌پتہ کہ یہ ہڑتال کیوں‌ہورہی ہے۔ پریشان حال: پتہ ہے بھیا! پر کیا کریں۔ پیٹ میں‌روٹی ہو تو ہم بھی ان کے ساتھ نعرے لگائیں۔ادھر تو پیٹ کے لالے پڑے ہیں اللہ انھیں‌بھی غارت کرے جنھوں‌نے ہمارے نبی‌ص پر کیچڑ اچھالا پر بھیا ہم اور کیا کرسکتے ہیں‌۔ تُو بتا ہم اور کیا کرسکتے ہیں۔ بے بس پاکستانی: (لاجواب ہوکے) بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ آئیے ناظرین وہ چھابڑی والے صاحب سے اس بارے میں‌ رائے لیتے ہیں۔(کیمرے کا رخ اب ایک فٹ پاتھی ہوٹل والے کی طرف ہے جو بڑی آس سے آنے جانے والوں دیکھ رہا ہے) بے بس پاکستانی:اسلام علیکم چھابڑی والا:‌وعلیکم سلام!(گاہک سمجھ کے)‌کیا کھائیں گے صاحب ۔روٹی ہے،دال ہے، چاول ہے بڑے پائے آج نہیں‌ہڑتال تھی ناں‌اس لیے نہیں‌لگائے۔‌‌(آخر میں فدویانہ نظروں‌سے اس کی طرف دیکھنے لگتا ہے) بےبس پاکستانی: جناب ہم اصل میں‌ آج کی ہڑتال کے بارے میں رائے عامہ اکھٹی کر رہے ہیں‌آپ کی اس بارے میں‌کیا رائے ہے؟ چھابڑی والا: (کچھ مایوسی آمیز جھنجھلاہٹ کے ساتھ) بھائی ہم کیا کہیں۔ یہ تو ان لوگوں‌کے کام ہیں‌جن کے پاس پیسہ ہے۔ ہمیں‌تو اتنا پتا ہے بھائی کہ صبح چھ بجے سے منہ اٹھا کر بیٹھے ہیں‌اور ایک گاہک بھی نہیں‌آیا۔ ہر ہڑتال پر ایسے ہی ہوتا ہے۔ بھائی!‌ہمیں بھی غصہ ہے مگر ہمارے پیھچے درجن بھر کھانے والے ہیں‌ہم کیا کریں؟؟ ہماری آج کی دیہاڑی کون دے گا؟؟ اگر ہم رات کو بھوکے سوئے کل ہمارے پاس ریڑھی لگانےکے لیے بھی پیسے نہ ہوئے تو کون ذمہ دار ہے؟؟؟ بےبس پاکستانی: (کچھ خجل سا ہوکے کیمرے کی طرف دیکھتا ہے) ناظرین آپ نےان کی رائے سن لی آئیے اب ان صاحب کی طرف چلتے ہیں۔(کیمرہ ایک سٹوڈنٹ ٹائپ شخص پر فوکس ہوتاہے) بےبس پاکستانی: اسلام علیکم سٹوڈنٹ: وعلیکم سلام بے بس پاکستانی: جناب آپ کی کیا رائے ہیں‌ یہ جو آج ہڑتال ہورہی ہے اور جو پہلے ہوئی کیا یہ سب ٹھیک ہے۔ کیا احتجاج کا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ سٹوڈنٹ: ان ۔۔۔۔ کے بچوں‌ کی ایسی کی تیسی انھیں‌ ایسا سبق سکھائیں‌گے کہ ساری زندگی یاد رکھیں‌گے ۔ ارے بھائی دیکھتے جاؤ کیا کیا ہوتا ہے۔ آج تو دنیا کو پتہ چل جائے گا ابھی مسلمانوں میں‌غیرت ہے۔ سڑکوں‌پر ٹائر جلیں‌ گے۔ ان پولیس والوں ۔۔۔۔ کے بچوں‌کو بھی دیکھ لیں‌گے ہم اگر انھوں‌نے روکنے کی کوشش کی۔ اجی رسول‌ص پر تو جان بھی قربان ہے۔ بےبس پاکستانی: (ایسے غضب ناک سے لہجے سے گھبرا کر) شکریہ جناب آپ کی رائے کا۔آئیے آپ اب ایک اور صاحب کی طرف چلتےہیں۔ (کیمرہ ایک مصروف سے شخص پر فوکس ہوتاہے جو موبائل پر بات کررہا ہے) بےبس پاکستانی: اسلام علیکم شخص: ( موبائل پر بات بند کرکے) وعلیکم سلام۔ بےبس پاکستانی: جناب ہم آج کی ہڑتال کے بارے میں‌ رائے عامہ اکٹھی کررہے ہیں ۔ آپ کی اس بارے میں‌کیا رائے ہے؟؟ سخص: دیکھیں‌جی یہ جو جلاؤ گھیراؤ‌ یہ لوگ کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا نہیں‌ہونا چاہیے۔ ان کا تجارتی بائکاٹ کیا جائے تاکہ ان کےمفادات کو ضرب لگے اور انھیں‌ احساس ہو۔ بےبس پاکستانی: تو جناب آپ نے اس سلسلے میں‌کیا قدم اٹھایا؟ شخص: ہم نے لوگوں‌کو اس بارے میں‌آگاہی فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ یہ دیکھیں(ایک پمفلٹ نما پرچہ نکال کے) یہ ان پراڈکٹس کے نام ہیں‌ جو ان ممالک سے پاکستان میں‌آتی ہیں۔ہم لوگوں ‌میں‌احساس پیدا کر رہے ہیں‌ کہ ان کا بائکاٹ کریں۔ بےبس پاکستانی: (پرچے کو دیکھتے ہوئے) اس میں‌تو ایک یورپی ملک کی کمپنی کا نام بھی ہے۔ ویسے آپ کے پاس کونسا کنکشن ہے؟ شخص:‌میرے پاس ٹیلی۔۔۔(گڑبڑا کر) او جناب یہ میرا ذاتی معاملہ ہے آپ کو اس سے کیا؟؟(تیز تیز قدموں سے منظر سے نکل جاتاہے۔ کیمرہ کچھ دیر اس کا پیچھا کرتا ہے اور کےبعد دوبارہ میزبان پر فوکس ہوجاتاہے) بےبس پاکستانی: یہ تھی ناظرین ایک اور معزز شہری کی رائے۔ اب ہم ایک سیاست دان کے پاس آپ کو لے چلیں‌گے جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ (منظر بدلتا ہے ایک ڈرائنگ روم نظر آنے والے کمرے میں میزبان ایک معروف سیاستدان کے ساتھ بیٹھا ہے) بےبس پاکستانی: جناب معروف سیاستدان صاحب آپ نےاس ہڑتال کی کال دی ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ معروف سیاستدان: (ذرا کھنگار کر)‌دیکھیں‌جی ہماری تو وہی رائے ہے جو ہمیشہ سے تھی۔ یہ ایسا کام ان ذلیل لوگوں نے کیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مگر اب معاملہ حد سے بڑھ چکا ہے۔ موجودہ حکومت سے عوام تنگ آچکے ہیں۔ روٹی کپڑا کیا یہ حکومت اسلام کی مقدس ترین ہستی‌ص کی ناموس کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں‌کرسکی۔ آج عوام سڑک پر آکر یہ ثابت کردیں‌گے کہ حکومت حق پر نہیں‌انھیں‌اب اقتدار چھوڑنا ہوگا اور اسے دیانتدار لوگوں‌کو دینا ہوگا۔ بے بس پاکستانی: پچھلی ہڑتالوں‌میں‌ ہونے والے عوام کے مالی اور جانی نقصان پر آپ کی کیا رائے ہے؟؟ معروف سیاستدان: یہ بھی حکومت کی نا اہلی ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ سیکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔جب جذبات مشتعل ہوں‌تو ایسے تو ہوجاتاہے۔ (میزبان شکریہ ادا کرکے باہر آجاتاہے۔منظر بدلتا ہے اب پھر میزبان ایک سڑک پر کھڑا ہے) بےبس پاکستانی: ناظرین آپ نے ملک کےمعروف سیاستدان کا نکتہ نظر سنا۔ آئیے ہم آُپ کو سامنے کھڑ پولیس مین کی رائے سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ (کیمرہ ایک جواں سال پولیس کانسٹیبل پر فوکس ہوتا ہے جو ایک ہاتھ میں‌وائر لیس اور دوسرے ہاتھ میں ڈنڈا لیے سر پر ہیلمٹ رکھے ایک طرف بےزار سا کھڑاہے) بےبس پاکستانی: اسلام علیکم سپاہی: ‌وعلیکم سلام بےبس پاکستانی: جناب آج جو ہڑتال ہورہی ہے آپ کی اس بارے میں‌کیا رائے ہے؟ سپاہی: (کچھ بے زاری کے ساتھ) ہماری کیا رائے ہونی ہے جی۔ ہمیں‌تو ڈیوٹی کا حکم ملا تو حاضر ہوگئے چاہے ہماری ابھی چھٹیاں ختم نہیں ہوئی ‌تھیں۔ بےبس پاکستانی: کس چیز کی چھٹی پر تھے آپ جناب؟ سپاہی: او چھوڑو جی جس بھی چیز کی چھٹی پر تھے آپ یہاں‌سے جاؤ جی اب وہ دیکھو سامنے سے جلوس آرہا ہے۔انھیں‌ کنٹرول کرنے دو ہمیں۔ (کیمرہ جلوس پر فوکس ہوتاہے جس میں‌ لوگ نعرے لگاتے آرہے ہیں۔ جب جلوس آدھے کے قریب گزر جاتاہے تو میزبان ایک شخص ‌کو ہاتھ میں‌ ڈنڈا اٹھائے دیکھ کر روک لیتا ہے) بےبس پاکستانی: معاف کیجیے گا!۔ جناب آج کی ہڑنال کے بارے میں‌آپ کی کیا رائے ہے؟ ڈنڈا بردار:(ذرا غصے میں‌ہے ڈنڈا لہرا کر) او بھائی رائے کا ہمیں‌ نہیں‌ پتا ہمیں‌تو ہائی کمان سے آرڈرہے جو دوکان کاروبار کھلا ملے اس کا بیڑہ غرق کردو۔ او یہ ناموس رسالت کا معاملہ ہے جی اور جب ہم پُکھے پھر رہے ہیں‌تو ان کی یہ جرات کہ دکانداری سجائیں۔ (اتنا کہہ کر وہ ڈنڈا بردار آگے بڑھ جاتاہے کیمرہ اب دوبارہ میزبان پر فوکس ہے) بےبس پاکستانی: ناظرین ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہوا جاتا ہے مگر آخر میں‌ ہم آپ کو ضلع ناظم کے پاس لیے چلتے ہیں‌جو حکومتی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور دیکھتے ہیں‌کہ ان کی کیا رائےہے۔ (منظر بدلتا ہے ایک دفتر نما کمرہ جہاں ایک بارعب شخصیت کا مالک شخص میزبان کے ساتھ بیٹھا ہے) بےبس پاکستانی: اسلام علیکم ضلعی ناظم: وعلیکم سلام بےبس پاکستانی: ناظم صاحب آپ ضلع کے ہیڈ ہیں‌۔دوسرے آپ کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے۔آج کی ہڑتال کےبارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟؟ ضلعی ناظم: دیکھیں‌جی یہ اپوزیشن کے سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ ہمیں‌بھی اس غلیظ حرکت پر دکھ ہوا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں‌اقدامات بھی کیے ہیں‌۔ آپ میں‌سب جانتےہیں‌ حکومت اس سلسلے میں ‌کتنی سنجیدہ ہے ہر بین‌لاقوامی فورم پر ہم نے اس معاملے کو اٹھایا ہے۔اپوزیشن اس کو ایشو بنا کر اب سیاست کرنا چاہتی ہے۔ مگر ہم ایسا نہیں‌ہونے دیں‌گے۔ عوام کے جان ومال کا تحفظ ہر حالت میں‌یقینی بنایا جائے گا۔ بے بس پاکستانی:‌ آپ کا شکریہ۔ (منظر بدلتاہے میزبان ایک بار پھر ایک سڑک پر کھڑا ہے) بےبس پاکستانی: تو ناظرین یہ تھا ہمارا آج کا پروگرام “نکتہ نظر“ اگلی بارکسی اور ایشو کو لے کر آپ کی خدمت میں‌حاضر ہونگے۔تب تک کے لیے اجازت اللہ نگہبان۔ (کیمرہ کلوزہوجاتاہے) اگر آپ پاکستان سے بلاگ تک رسائی نہیں حاصل‌کرسکتے تو یہ ربط استعمال کریں۔

ابھی

اے عشق، ہمیں لاچار نہ کر فسوں نہ پھیلا، بے کار نہ کر ابھی تو لمبی اڑان باقی ہے ابھی وقت کی لگان باقی ہے ابھی راہوں سے خار چننے ہیں ابھی کچھ نئے خواب بننے ہیں ابھی کچھ گرمیءِخون باقی ہے ابھی دل میں جنون باقی ہے ابھی اپنی ہستی کو تلاشنا ہے اپنی ذات کا بت تراشنا ہے ابھی نئے افق تسخیر کرنے ہیں کچھ نئے تاج محل تعمیر کرنے ہیں ابھی چراغوں میں روشنی باقی ہے ابھی آنکھوں میں زندگی باقی ہے ابھی اپنوں کا بہت ادھیکار ہے ابھی قسمت میں کہاں پیار ہے سو،اےعشق تو ابھی وار نہ کر ابھی دنیا سے بے زار نہ کر

21 فروری

21 فروری کا دن ہمیشہ کی طرح‌آئے گا اور گزر جائے گا۔ شاید کوئی نام نہاد عالمی دن بھی منایا جاتا ہو اس تاریخ‌کو مگر میں‌آج آپ کو اس دن سے ایک اور ہستی کے حوالے سے روشناس کرانے کی کوشش کروں گا۔ آئیے ذرا تاریخ میں‌چلتے ہیں۔ یہ آج سے کوئی چار سو سال پہلے کی بات ہے۔ گورے اپنی ریاستوں‌سے نکل کر پوری دنیا میں‌بحری راستوں‌سے پھیل رہے تھے۔ یورپ کے کئی ملکوں‌کے لوگ افریقہ بھی پہنچ چکے تھے جہاں‌انھوں‌نے اپنی نو آبادیاں‌قائم کرلی تھی۔وہ کالوں‌پر جانوروں‌کی طرح‌ ظلم کرتے اور انھیں‌جانوروں‌کی طرح‌ہی رکھتے۔پھر کولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا۔ گورے جوق در جوق اس نئے دیس میں‌ ہجرت کرنے لگے۔متمول گورے اپنے ساتھ اپنے غلام بھی وہاں‌ لے گئے۔ یہ کالے جنھیں‌افریقہ میں‌بھی بے دردی سے انکے حقوق سے محروم رکھا گیا اب انھیں‌نئی سرزمین پر ان کی مرضی کے خلاف لے جایا جارہا تھا۔انھیں‌بھیڑ بکریوں‌کی طرح‌جہازوں‌میں‌ٹھونس دیا جاتا۔ نامناسب خوراک،رہائش ناقص جس کے نتیجہ میں‌ راستے میں کئی مرنے لگے۔ گورے وحشی ایسے لوگوں‌ کو بڑے آرام سےسمندر میں ڈال دیتےجنھیں‌وہ شارک مچھلیاں‌ بسم‌اللہ کر کے کھالیتیں‌جو ان جہازوں کا تعاقب کرکے سیکھ چکی تھیں‌ کہ کھانایہیں‌سے ملتاہے۔ان سمندروں‌کا پیٹ‌بھرنےکے بعد یہ مظلوم جو آدھے سے بھی کم رہ جاتے کو نئی اور اجنبی سر زمین پر لاکھڑا کیا جاتااور ان کی زندگی پہلے سے بھی بدتر کر دی جاتی۔ ان سے بدترین مشقت لیجاتی اور نتیجے میں‌ صرف جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے چند لقمے خوراک کے۔یہ مظلوم لوگ جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے‌صحابی بلال رض کی نسل سے تھے،موٹے ہونٹوں‌اور بھدے پیروں‌اور کالے رنگ کے یہ لوگ جن کے دل گورے تھے جن میں‌میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور ان کے نام لیوا بھی موجود تھے جنھیں‌ان کتوں‌نے اسلیے قید کر لیا تھا کہ وہ صورت شکل میں کالے ہیں۔یہ لوگ جن میں ‌بلا تخصیص‌مسلم و غیر مسلم صرف کالے موجود تھے ان کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ اپنا آپ تک بھولتے گئے۔ انھیں‌یہ یاد تک نہ رہا کہ ان کی مادری زبانیں‌کیا تھیں۔وہ کس قبیلے یا قوم سے متعلق تھے بس انھیں‌یہ یاد تھاکہ گورا صاحب انھیں‌افریقہ سے لایا تھا ان سے غلامی کروانے کے لیے۔ اب آئیے بیسویں‌صدی کے شروع اور انیسویں‌صدی کے اواخر میں جب امریکہ میں آخر ان مظلوموں‌کی خدا نے سن لی اور غلامی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ مگر پھر بھی کوئی ان کی قومی شناخت نہ لوٹا سکا انھیں‌ نفرت اور حقارت سے گورے نے Nigerاور Negroکہنا شروع کر دیا۔اس معاشی اور معاشرتی استحصال کے بعد ان کے اندر ایک طرف کالوں‌کے اندر اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت اس حد تک گر گئی کہ صرف سوچا جا سکتا ہے۔ معاشرے کی تمام برائیاں‌ان کے اندر موجود تھیں،غنڈے،موالی،نشے باز یہ لوگ جنھیں‌اپنے دین دنیا کی کوئی خبر نہ تھی،اگر کسی چیز کی خبر تھی تو وہ یہ کہ اگر ان کے بالوں‌کے کنڈل ختم ہوجائیں‌اور رنگ کسی طرح‌تھوڑا سفید ہوجائے تو ان کا سٹیٹس معاشرے میں‌بلند ہو جائے گا۔ اس کاباپ پہلے طبقےسے متعلق تھا۔مارکس گاروی کا پیروکار یہ شخص کالوں‌میں‌اس بات کہ تبلیغ کرتا کہ انھیں‌ایک دن اپنے دیس افریقہ میں‌واپس جانا ہے۔اسی سلسلہ میں ایک رات اس کے گھر پر حملہ ہوا اور وہ مارا گیا۔اس کے بعد وہ اور اس کے دیگر سات بہن بھائی کچھ عرصہ اپنی ماں‌کے ساتھ پلے۔ اسکی ماں ویسٹ انڈین دوغلی تھی اور وہ کہتا ہے کہ میری ماں‌ کو ساری عمر اس خون سے نفرت رہی جو کسی گورے نے اس کی ماں‌کے ذریعے رگوں‌میں‌انڈیل دیا تھا۔ اس کا نمبر پانچواں‌تھا۔باپ کے مرنے کے بعد ان کی ماں‌ نے ان کی پرورش کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اخراجات حد سے باہر نکلنے لگے۔انھوں‌نے قرض لے کر گزاراہ کیا۔لیکن آہستہ آہستہ معاملات حد سے باہر نکلنے لگے اور ریاست کی فلاح‌ سے متعلق ادارے کے لوگ ان کے گھر آنےجانے لگے انھوں‌ نے نفسیاتی تشدد کر کر کے ان کی ماں‌کو بالآخر پاگل کر دیا۔ اب بچوں‌کے مختلف مخیر لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اسے بھی جو اپنے سرخ بالوں‌جو اسے ماں‌کی طرف سےملے تھے کی وجہ سے ریڈ پکارا جاتا تھا کو ایک مخیًر گھرانے میں دے دیا گیا۔اس کا نام میلکم لٹل تھا مگر اکثر اسے ریڈ‌ کہہ کر بلایا جاتا۔ وہاں‌اس نے آٹھ درجوں‌تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سب چھوڑ چھاڑ دیا۔ عام کالوں‌کی طرح‌وہ بھی اس کریز میں‌مبتلا ہوگیا کہ گوروں‌کی طرح‌اس کی بھی معاشرے میں‌عزت ہو۔ اس نے بوٹ پالش کرنے کی نوکری کی کلب میں۔اپنے بالوں‌کو کانک(کنڈل ختم کروانا)کروایا، کالے اس کے ہلکے سیاہ رنگ کو دیکھ کر رشک کرتے سرخ سے بال اس کی شان ہی اور بڑھا دیتے۔ اس زمانے میں میلکم نے اپنے آپ کو سنوارنے کے لیے قرضہ تک اٹھایا۔ وہ کلب کی تقریبات میں‌ شریک ہونے کے لیے ادھار پر سوٹ خریدتا۔ اس کی عمر یہی کوئی پندرہ سال کے قریب ہوگی جب کسی لڑکی سے اس کے تعلقات بنے۔دوستوں‌کے مشورے اور حالات کا رخ دیکھ کر وہ نیویارک چلا آیا۔ اس دوران وہ دوسرے ایک دو شہروں‌میں‌بھی کام کرچکاتھا۔ کام یہ ہی کہ کلبوں‌میں‌گوروں‌کے جوتے پالش کردینے یا بیرا گیری۔نیویارک آکر اس نے ہارلم کے علاقے کو‌ رہائش اور کام کے لیے چنا جو ان دنوں‌کالوں‌کا مرکز بن رہا تھا اور جہاں‌سے یہودی علاقہ چھوڑ چھاڑ‌کے نکل رہ تھے۔ یہاں‌کے کئی کلبوں‌میں‌اس نے کام کیا،آہستہ آہستہ وہ نشے کی طرف آیا اور ماری جوآنا اور اس قسم سے بھرے سگریٹ جنھیں‌ ریفرز کہتے بیچنے لگا۔اس نے طوائفوں‌ کے دلال تک کا کام کیا۔گورے جو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کالی طوائفیں‌مانگتے اور گوری عورتیں‌جو کالنے مردوں‌کی طلب گار ہوتیں۔آہستہ آہستہ وہ ہسٹلنگHustlingکی طرف متوجہ ہوا اور بیس سے بھی کم عمر میں‌یہ کام کرنے لگا۔بٹوہ چھین لینا،نقلی چیزیں‌ اصلی کہہ کے بیچ دینا،نشہ بیچنا،چوری کرنا،نقب زنی کرنا غرض‌اس نے ہر غلط کام کیا۔ آخری زمانے میں‌ اس نے اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا جس میں‌اس کا ایک دوست،ایک گوری لڑکی جو اس کی داشتہ بھی تھی اور اس کی بہن شامل تھے۔ لڑکیاں مکان میں‌جاسوسی کے لیےجاتیں‌اور یہ رات کو نقب زنی کرتے۔اس دور میں‌اس نے بے تحاشا نشہ استعمال کیا خود بتاتا ہے کہ وہ کام کے وقت غیر معمولی طور پر چست رہنے کے لیے بے تحاشا نشہ استعمال کرتا تھا۔ اسی دوران ایک دفعہ اس کی واقفیت گوری لڑکیوں‌کے ساتھ کھل گئی اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اس کے اپارٹمنٹ‌کی تلاشی کے بعد نقب زنی کے شواہد بھی ملے جس ک بعد اسے دس سال کی سزا ہوگئی۔اس کی سزا صرف دوسال بنتی تھی مگر وہ خود بتاتاہے کہ اس کا اصل جرم گوری لڑکیوں‌سے دوستی تھا جس کی اسےیہ سزا ملی۔ ان دس سالوں اس کی زندگی کو بدل دینے میں‌ اہم کرداد ادا کیا۔ اپنے بہن بھائیوں‌اور دوستوں‌کے کہنے پر اس نے جیل میں اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش شروع کردی۔ اسے ایک اصلاحی جیل میں‌منتقل کروا دیا گیا جہاں‌کتب خانے کی سہولت بھی موجود تھی۔وہاں اس نے انگریزی سیکھی،وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا ذخیرہ الفاظ چند الفاظ تھے جوغنڈہ گردی میں‌مستعمل عام اصطلاحات تھیں۔اس نے لغت کو یاد کیا اپنی انگریزی بہتر کی اس کے بعد کتب خانہ جو کوئی اس جیل کو وصیت میں‌عطیہ کر گیا تھا سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر گوروں کے مظالم واضح ہونے لگے۔اس دوران اس نے اپنے اندر مباحثے کی صلاحیت پیدا کی۔ جیل میں‌ بحث مباحثے ہوتے اور میلکم ان میں‌ حصہ لیتا اس چیز نہ آئندہ زندگی میں‌اس کی بڑی مدد کی۔پھر اس کا بھائی اس سے ایک دن ملا اور اسے ایلیا محمد(Elijah Muhammad) کے بارے میں‌بتایا جس کی تعلیمات کا وہ پیرو ہوگیا تھا۔اس نے میلکم کو بھی قوم اسلام(The Nation of Islam) میں‌شمولیت کی دعوت دی۔ میلکم بتاتا ہے کہ میں‌حیران رہ گیا کہ میرا بھائی صاف ستھرےلباس میں‌ملبوس تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ میں‌جھوٹ‌نہیں‌بولتا اور شراب نہیں پیتاسور بھی نہیں‌کھاتا کیونکہ مسلمان یہ سب نہیں‌کرتے۔اس کے بعد میلکم نے جیل سے ایلیا محمد سے خط و کتابت شروع کردی۔ اس خط و کتابت کے ذریعے اسے اسلام کی تعلیمات کا پتہ چلا اورجب1952 کے موسم بہارمیں وہ جیل سے باہر آیا تو سب سے پہلا کام جواس نے کیا وہ ایلیا محمد کی تعلیمات قبول کرنے کا اعلان تھا۔ ایلیا محمد ایک شخص‌ڈبلیو ڈی فارڈ‌کو خدا کہتا تھا جس نےاسے اپنا نبی مقرر کیا تھا۔ اس نے ایک تنظیم قوم اسلام کے نام سے قائم کی اور اپنے عقائد کالوں میں پھیلانے شروع کردیے مگر جب میلکم اس میں‌شامل ہوا تو یہ سب اتنا نہیں پھیلا تھا۔ وہ گوروں کا دشمن تھا انھیں سفید شیطان کہہ کر پکارتا اس سلسلے میں اس نے ایک دیو مالائی قصہ بھی گھڑ رکھا تھا جس کے مطابق اصل انسان کالے تھے مگر ان میں ملاوٹ کرکے گوری نسل پیدا کی گئی۔ایلیا محمد کی تعلیمات چند گمراہ کن عقائد کے علاوہ تمام کی تمام اسلامی تھیں مگر اس نے تحریف ضرور کر دی تھی۔ایلیا محمد نے کئی اسلامی ممالک کو دورے بھی کیے جن میں‌ایوب دورمیں‌پاکستان بھی آیا۔ وہ 1975 میں‌مرا۔ تو بات میلکم لٹل کی ہورہی تھی۔ میلکم نے تنظیم میں‌شمولیت کے بعد اس میں‌ایک نئی روح‌پھونک دی۔ یہاں‌آکر اسے پتا چلا کہ زندگی کیا ہے۔ ایک صاف ستھری اور بامقصد زندگی، تنظیم کے نظم و ضبط کو بیان کرتے وہ کہتا ہے کہ مسلمان جی جان سے ایلیامحمد کی تعلیمات کی پیروی کرتے تھے‌‌‌‌،ثمر اسلام(‌The Fruit Of Islam) کے نام سے تنظیم کا ایک شعبہ قائم تھا جو نظم و ضبط کا ذمہ دار تھا۔ میلکم جو کبھی گورے رنگ کا دیوانہ تھا اب گوروں سے نفرت کرنے لگا۔ بنیادی طور پر وہ ایک غیر معمولی انسان تھا،ایک پیچھے نہ ہٹنے والا شخص،ایلیا محمد نے اس کی تربیت کی اور میلکم اس کی تعلیمات کو پھیلانے لگا۔ وہ عام کالے کی نفسیات سے واقف تھا اس لیے انھیں باآسانی قائل کر لیتا کہ فلاح‌صرف ایلیا محمد کی تعلیمات میں‌ہی ہے۔ اس کی عمر اس زمانے میں تیس برس کے قریب تھی۔میلکم جسے اب تنظیم کی طرف سے ایکس کاخطاب مل گیا تھااتنی محنت کی کہ چند معبدوں سے اس نے تنظیم کےمعابد کی تعداد ساتھ ستر کردی۔ ایلیا محمد نے اسے اپنا وزیر بنا دیا۔ میلکم ایکس اس زمانے کے بار ےمیں‌بتاتا ہے کہ اسے آرام کرنے کا بھی ہوش نہ تھا وہ یہ کام بھی جہاز یا ٹرین میں‌ کرتا۔ 1956 میں‌اسے تنظیم کی طرف سے ایک شیور لیٹ ملی اس کی لگن کا اندزہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے پانچ ماہ کے عرصے میں‌ اس پر تیس ہزار میل کا سفر کیا۔ایلیا محمد کی قوم اسلام کو اس نے پورے امریکہ میں‌پھیلانے کا عزم کیااور اس کے لیے کام بھی کیا۔ اسی دوران نیویارک میں ایک جھگڑے کی وجہ سے یہ تنظیم پریس کی نگاہ میں‌آگئی جس کے بعد قوم اسلام کو پریس میں بھی جگہ ملنے لگی۔اس کے بعد میلکم ایکس ناراض‌میلکم ایکس کے نام سے مشہور ہوگیا کیونکہ وہ ہر مباحثے اور تقریر میں گوروں کو برملابرا بھلا کہتا اور کالوں‌کی موجودہ حالت کا ذمہ دار انھیں‌ٹھہراتا۔ اسی طرح‌قریبًا بارہ سال کام کرنے کے بعد ایک دن اس کی ساری خدمات کو نظر انداز کرکے اسے بودا سابہانہ کرکے تنظیم سے علیحدہ کر دیاگیا۔ایلیا محمد اس کی مقبولیت سے خائف تھا اس کے حاسدوں‌نےا س نے فائدہ اٹھایا اور تنظیم سے الگ کردیا گیا۔(ایلیا محمد پر ایک اپنی سیکرٹریوں سے ناجائز تعلقات کا الزام اس دوران لگ چکا تھا جسے امریکی پریس نے بہت اچھالا) اس دوران میلکم ایکس شادی بھی کرچکا تھا بیٹی ایکس ایک نرس تھی جس کےبطن سے اس کی چار بیٹیاں‌پیدا ہوئیں۔ پھر اسی دوران وہ تاریخی لمحہ آیا جب ایک کالے نے گورے کو باکسنگ کے میدان میں شکست دی اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ کیسئیس کلے سے محمد علی کلے بننے والا یہ شخص جب مقابلہ کررہا تھا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے میلکم ایکس وہاں‌موجود تھا۔اگرچہ میلکم ایکس قوم اسلام سے الگ ہوگیا تھا مگر محمد علی کلے اس تنظیم سے منسلک رہا بعد میں‌میلکم ایکس نے خود ہی اس سے ملنا کم کردیا تھا(بہت کم لوگ شاید یہ جانتے ہوں‌کہ محمد علی کلے نے جب اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اس سے مراد ایلیا محمد کی قوم اسلام کا تحریف شدہ اسلام تھا)۔ میلکم ایکس کو اس دوران پتا چلا کہ اس کے قتل کی سازشیں‌ہورہی ہیں۔ اس کے بہی خواہوں نے اسے خبردار کیا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ پھر اس کی ملاقات ڈاکٹر یوسف شورال سے ہوئی۔ جنھوں ‌نے اسے صحیح‌اسلام سے روشناس کرایا۔اس کے بعد میلکم ایکس نے حج کا ارادہ کیا اور براستہ قاہرہ جدہ کو روانہ ہوا۔وہاں‌اس کی ملاقات ڈاکٹر محمد شورابی سے ہوئی جنھوں‌نے اس کے تصور اسلام کی مزید تطہیر کی۔آخر اس نے جدہ کا قصد کی مگر اسے نومسلم اور امریکی ہونے کی وجہ سے روک لیا گیا۔ مسافر خانے میں اسے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا گیا وہ بتاتا ہےکہ جھکنا اور گھٹنےموڑ کر بیٹھنا اس کے لیے عذاب سے کم نہیں تھا اس دوران اس کا ٹخنہ بھی سوج گیا۔آخر ڈاکٹر عمر اعظم کو فون کرکے اس نے اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔جس کے بعد اسے سرکاری مہمان کا درجہ مل گیا۔ اس نے مطواف کی نگرانی میں حج ادا کیا۔ اس دوران اس کے گوارا مخالف جزبات پر مثبت اثر پڑا اور اسلام کی عالمی اخوت کا تصور مضبوط ہوا۔دوران حج اس نے امریکہ خطوط لکھے جنھیں‌پریس نے بھی کوریج دی۔اس کے خطوط سے اس کے رجحانات کی تبدیلی کا واضح‌پتا چلتاہے۔اس دوران قوم اسلام نے اس پر کئی مقدمات قائم کردیے تھے جو ان کی بدنیتی کی ثبوت تھے۔ حج کے دوران اس کی ملاقات شہزادہ فیصل سے بھی ہوئی ۔اس کے بعد اس نے کئی افریقی اور مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ جہاں‌کالوں کو درپیش مسائل کے بارے میں‌تبادلہ خیال کیا گیا۔ آخر میکلم ایکس واپس امریکہ پہنچ گیا۔وہاں جانے کے بعد اس نے اسلام کے صحیح‌ تصور کو پھیلانا شروع کردیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند یہ آئی اور یہ گوہر نایاب نہ جانے کتنے دلوں کو روتا چھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پرواہ نہیں‌کروں‌گا۔ 21 فروری 1965 کا دن تھا نیویارک میں‌ دی آڈیو بون بال روم اس کی تنظیم نے کرائے پر حاصل کررکھا تھا جہاں اس کا لیکچر تھا۔ جب وہ خطاب کرنے آیا تو ایک طرف سے آواز آئی “میری جیب سے ہاتھ نکالو“ لوگوں ‌کی توجہ اس طرف ہونے کی دیر تھی کہ اگلی قطار سے تین آدمیوں نے جو ریوالور اور شاٹ گن سے لیس تھے اس پر بے دریغ فائرنگ کردی۔ میلکم ایکس موقع پر ہی شہید ہوگیا۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میں‌جگہ دے عجب آزاد مرد تھا۔ساری عمر بے چین رہا جب برا تھا تب بھی اورجب اچھا تھا تب بھی۔ مرتے وقت اس کی عمر صرف چالیس سال سے کچھ عرصہ کم تھی۔اس کا جنازہ شیخ الحاج ہشام جابر نے پڑھایا اس کی قبر پرستاروں نےگورے گورکنوں‌کے کھودنے نہیں‌ دی اور اپنے ہاتھوں ‌نے ساراکام کیا۔اس کی قبرپرجو قطبہ لگایا گیا اس پر لکھا تھا “الحاج ملک الشہباز 29 مئی 1925تا 21 فروری 1965“ ایلیا محمد کے بعد نیشن آف اسلام کی تخت نشینی اس کے بیٹے والس محمد نے سنبھالی۔ یہ شخص اسلام کے بارے میں سنجیدہ نکتہ نظر رکھتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنی تنظیم کا نام ورلڈ کمیونٹی آف اسلام ان دا ویسٹ رکھا پھر بدل کر دی امریکن مسلم کردیا جس میں امریکی گورے مسلمانوں کو بھی داخلے کی اجازت تھی۔ والس محمد نے اسلام قبول کرلیا تھا جس کیوجہ سے ایلیا محمد کے کچھ پیروکار اس سےالگ ہوگئے لوئیس فرخان اس تنظیم کا سربراہ بنا۔اس شخص پر نسل پرستانہ ذہنیت کا الزام لگا اور میلکم ایکس کے قتل کے سلسلے میں‌مقدمہ بھی چلا۔اس نے کئی سال ایلیا محمد کے نظریات پھیلائے۔16 اکتوبر 1995 کو اس نے واشنگٹن میں‌ملین مارچ کا انعقاد کیا جسے دنیا میں‌کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ورلڈ فرینڈ شپ ٹور میں اس نے 20 کے قریب اسلامی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں‌ایران ،لیبیا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ کرنل معمر قذافی نے اسے 5۔2 لاکھ پونڈ کا انعام بھی دیا۔ بنگلہ دیش میں اس کا استقبال مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری مولانا شفیق لاسلام نے کیا جس سے مسلمانوں‌کی اس تنظیم کے عقائد سے بے خبری واضح ہوتی ہے۔ پاکستان میں‌البتہ راجہ ظفرالحق نے اس کے دورے کی اطلاع پاکر اس بارے میں‌پتا لگنے پر اسے بروقت منسوخ‌کردیا۔فروری 2002 میں لوئیس فرخان اور والس محمد میں‌اتحا د ہوگیا اور لوئیس فرخان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان کا اعلان کرتے ہوئے اہلسنت کا مسلک اختیار کیا۔ امریکہ میں‌اسلام کے پھلینے کی جدوجہد کا ایک محتصر سا احوال تھا آج ہمیں‌میلکم ایکس الحاج ملک الشہباز کا جذبہ درکار ہے اگر ہم نے اسلام کی اشاعت کرنا ہے ورنہ “مل گئے کعبے کو پاسباں صنم خانے سے“ کے مصداق اللہ تو اپنے دین کی اشاعت کے لیے ذرائع پیدا کر ہی دیاکرتاہے۔اللہ آپس کے اختلافات ختم کرکے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین (آج مورخہ 21 فروری 2006 خاکسار کی سالگرہ بھی ہے آج عمر عزیز کے21 سال گزر گئے۔ یہ ایک اور وجہ تھی کہ میں‌نے یہ تحریر آج کے دن لکھی۔)

جذبات

آج کام کم تھا تو اس نے وقت گزاري کےليے اخبار اٹھا لي ورنہ يہ اخبار ورکشاپ پر آنے والے گاہکوں کا دل بہلانے کا سامان ہي بنتي تھي اس کي نظر جب پہلے صفحے پر لگي سرخي ڈنمارک کے اخبار ميں رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے توہين آميز خاکوں کي اشاعت سعودي حکومت نے احتجاجًا سفير واپس بلا ليا پر پڑي تواس نے دل ہي دل ميں ان کو گالياں نکالتے ہوئے اس لمحے پر لعنت بھيجي جب وہ اخبار پڑھنے بيٹھا تھا اور دوبارہ دل ہي دل ميں استغفار کرتے ہوئے ايک کار کي طرف چل پڑابات اگر يہيں تک رہتي تو ٹھيک تھي مگر چند دنوں بعد جب پھر يہ سننے ميں آيا کہ کچھ اور يورپي اخبارات نےبھي يہ مذموم حرکت کي ہے اور اسے ڈنمارک کے اخبار کے ساتھ يکجہتي قرار ديا ہے تو اس کا خون کھول اٹھاحب رسول صلي اللہ عليہ وسلم بھي عجيب چيز ہے ميٹھي ميٹھي نرم نرم ہلکي آنچ جيسي محبت جس ميں دل سلگتے ہيں تو آنکھوں کو قرار آتا ہے ايسي ہستي جس کا خيال آتے ہي دل ميں بے پناہ رحمت کا تصور آجاتاہے رحمتہ اللعلمين صلي اللہ عليہ وسلم کا نام زبان پر آتے ہي دل ميں ٹھنڈ سي پڑجاتي ہے مگر بنانے والے نے يہ عجيب بات ان صلي اللہ عليہ وسلم کے عاشقوں ميں رکھ دي ہے کہ جب بھي ان صلي اللہ عليہ وسلم کي شان ميں کسي نے نازيبا الفاظ استعمال کيےمحبت کا رنگ بدل گياجيسے سمندر ميں اچانک سکون سے طغياني آجائے،جيسے شمع بھڑکتے ہوئے الاؤ ميں بدل جائے جيسے دھيمے دھيمے جلتے کوئلوں پر کوئي تيل سے بھري بوتل انڈيل دے يوں عشاقان رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے اندر آگ سي لگ جاتي ہے پھر بڑے بڑوں کو اپنا ہوش نہيں رہتا تاريخ شاہد ہے جب بھي ايسا کوئي واقع پيش آيا کسي عام سے مسلمان نے گستاخِ رسول صلي اللہ عليہ وسلم کو جان تک سے ختم کرديا۔غازي علم دين شہيد عام سا کسان تھا جب اس نے يہ سنا کے اس کے آقاومولا صلي اللہ عليہ وسلم پر کسي نے الزام تراشي کي ہےتو اس نے وہ کارنامہ سرانجام ديا آج دنيا اسے غازي علم دين شہيدرحمتہ اللہ عليہ کے نام سے جانتي ہےاس کے ساتھ بھي ايسے ہي ہوا پہلي بار جب توہين رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں پڑھا تو کہيں سے خون نے جوش مارا تھا مگر عام دنيا دار کي طرح اس نے اس بات کو کوئي خاص اہميت نہ دي چونکہ واقع پرانا ہوچکا تھا دوسري بار جب اخبار ميں يہ خبر چھپي تو اس کے اندر جيسے بھانبڑ جل اٹھے تھے جي کرتا تھا سب کچھ تہس نہس کردے خون کي گرمي کنپٹي پر محسوس ہورہي تھي اسي حالت ميں وہ بابے علیے کے پاس دوکان بند کرکے چلا آيا بابا اس کے چہرے سے ہي سمجھ چکا تھا کہ کوئي خاص بات ہے قريب آکر اس نے اخبار بابے کي چارپائي پر پھينکي اور موڑھے پر بے دم سا ہوکر گرگيا بابے نے ملائمت سے پوچھا: "کيا ہوا رشيد کيوں اتنے بھرے ہوئے ہو"بابے کے اتنے پوچھنے پر وہ جيسے پھٹ پڑا"بابا بھروں نا تواور کيا کروں کدھر گئي ہے ہماري غيرت وہ کتيا کے جنے اب اتنے شير ہوگئے ہيں کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي توہين کرنے سے باز نہيں آرہےبابا ہماري غيرت کہاں مر گئ ہے"آخر ميں اس کي آواز جيسے تھک سي گئي تھي "ميں جانتا ہوں پتر جو کچھ ہورہا ہے صبح ہي مجھے مجو سبزي والے کا لڑکا خبريں سنا کر گياہے پتر يہ ہماري بدقسمتي ہے کہ ہميں فاسق فاجر حکمران ملے ہيں جو ايسے معاملے ميں چوں چاں کرنے کي بھي صلاحيت نہيں رکھتے" بابے نے جيسے ٹھنڈا سانس بھر کے کہا بابا باقيوں کي تو آنکھيں اور کان ہيں کيا انڈيا کي فلموں اور بليو پرنٹوں نے ان کے دلوں پر بھي مہر لگا دي ہے.جو عام لوگ بھي غيرت سے عاري ہوگئے ہيں يہ کيوں نہيں اٹھتے" "پتر ان کي غيرت ابھي نہيں مري غيرت زندہ ہےياد رکھ پتر مسلمان کي غيرت کبھي نہيں مرتي صرف سو جاتي ہے مگر جب مسلمان کي غيرت جاگتي ہےتو پھر ايسا عذاب بن جاتي ہے جس سے کفار کے گھر تک جل جاتے ہيں اس ليے يہ لوگ ايسے حربے استعمال کررہے ہيں کہ مسلمانوں کي غيرت سوئي رہے ابھي تو کسي کو پتا نہيں لگا ايک آدھ دن ٹھہر جا پھر تجھے اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ غيرت زندہ ہے يا مرگئي" بابے کے لہجے ميں زمانے بول رہےتھے پھر واقعي جيسے جيسے اس قبيح حرکت کا پتا لوگوں کو چلتا گيا ہر طرف احتجاج شروع ہوگيا پرچم نظر آتش کرنا پتلے نظر آتش کرنا اور ان ملکوں کے خلاف نعرے بازياں ہر اخبار انھي خبروں سے بھرا ہواتھامسلم دنيا کے حکمرانوں کو بھي جيسے ہوش آگيا تھا انھوں نے بھي اس کے خلاف بيانات دينے شروع کرديے تھےسفيروں کو بلا کر احتجاج کيا جارہا تھا رشيد اگلے دن بابے علیے کے پاس آيا تو اس کے چہرے پر تھوڑي سي خوشي چمک رہي تھي" بابا تو ٹھيک کہتا ہےابھي ہماري غيرت نہيں مري" پھر اس نے اخبار بابے کے آگے کرديے يہ ديکھ ہر جگہ احتجاج ہورہا ہے اور بابا اس کے لہجے ميں موجود حددرجہ اطمينان پر مسکرا ديا جيسے بڑے بچوں پر مسکرادياکرتے ہيں" پتر غيرت مري نہيں مگر غيرت سو گئي ہے اگر يہ سب کچھ آج سے بيس تيس سال پہلے ہوا ہوتا تو اب يہ حال نہ ہوتا يہ ديکھو اس شہر ميں بھلا کسي کو پتا چلا کو کوئي جلوس نکلا ہے ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم کے تحفظ کے ليےجہاں نکلا بھي ہے وہاں لاکھوں کي آبادي سے سينکڑوں اور ہزاروں ميں نکلا ہے پتر يہ ثبوت ہے اس بات کا کہ غيرت سوگئي ہے" بابے نے دورکہيں نظريں جمائے کہا اور رشيد يہ سب سن کر پھر مرجھا سا گيا"بابا کہتا تو تُوٹھيک ہے اب مجھے ہي لے لے ميں دوکان پر بيٹھا ہي ان کو گالياں نکالتا رہا ہوں مگر ميرا حوصلہ نہيں پڑ اکہ اپنے يار دوستوں کو کوئي چھوٹا موٹا جلوس نکالنے پر رضامند کرتا"رشيد کے لہجے ميں تاسف تھا بابا پھر جيسے مسکرايا"پتر قصور تيرا بھي نہيں دوکان بند رکھے گا تو کھائے گا کيسےا ور ايسے کام کرتے ہوئے تو اپنا ہوش نہيں رہتا کاروبار کہاں ہوگا پتر يہ صديوں کي سوچ ہے جس کا نتيجہ تم آج ديکھ رہے ہو ان لوگوں نے آج سےصديوں پہلے يہ منصوبے بنائے تھے کہ مسلمانوں کو ايسے کاموں ميں الجھا دو کہ انھيں فرصت ہي نہ ملےمسلمان کيا کہيں بھي ديکھ لے ہر جگہ ہر کسي کواپني پڑي ہے اپنے کھانے کمانے کي اور اس کے بعد اپني ذات کي تفريح کي اوردنيا داري کي اس کے بعد بھلا وقت بچتا ہےکہ وہ کسي اور طرف ديکھے سارا سارا دن گدھوں کي طرح کام کاج کرنے کے بعد دو وقت کي روٹي ملتي ہے اس کے بعد بندے کا ذہن ہي اس قابل نہيں رہتا کہ کسي اور طرف دھيان دے يا سوچے پتر وہ بڑے چاتر تھے جنھوں نے يہ سب سوچا تھا اور يہ اس سے بھي بڑے چاتر ہيں جوا اس پر عمل کر رہےہيں" " بابا وہ چاتر ہيں تو ہم بھي کسي سے کم نہيں يہ ديکھ"اس نے ايک تصوير بابے کے سامنے کي"تہران ميں جيالوں نے ڈنمارک کا سفارت خانہ جلا ديا" رشيد کے لہجے ميں بيک وقت فخر اور افسوس شامل تھا"کاش يہ ہم نے بھي کيا ہوتامگر يہاں تو صرف ريلياں نکال رہے ہيں اور بس۔۔۔ اور يہ بھي ديکھ مسلمان تاجروں نے يورپي مصنوعات کے بائيکاٹ کا اعلان کرديا ہے" رشيد نے ايک اور سرخي بابے کي آنکھوں کے آگے نچائي "ميرے بھولے پتراس پر کل بات کريں گے آج مجھے کہيں جانا ہے کل تيرے سارے سوالوں کا جواب دے دوں گا" بابے علیے نے کہا اور اٹھ کر اپنا تہبند صحيح کرنے لگااگلے دن رشيد دوکان سے کام کرنے کے بعد فارغ ہوکر حسبِ وعدہ ہاتھ ميں اخبار ليےبابے علیے کے پاس پہنچ گيا دعا سلام کے بعد اس نے بڑے پرجوش لہجے ميں اسے احتجاج کے پوري دنيا ميں پھيلتے اور تہران ميں ايک اور سفارت خانے پر حملے کے بارے ميں بتايا بابا علیا بڑے دھيان سے اسے سن رہا تھا جب بات ختم کر چکا تو بولا"پتر يہ بھي تو بتا نا کہ ڈنمارک کي حکومت نے معافي کے بعد معاملہ ختم کرديا ہے اپني طرف سے مسلمانوں کے بڑوں نےانھيں پرامن رہنے کي اپيليں کرنا شروع کر دي ہيں اور کہنے والے اسے بھي انتہا پسندي کي ايک شکل قرار دے رہے ہيں" او پتر سفارت خانے اور پرچم جلانے سے کچھ نہيں ہوگا اب وہ جو چاہتے تھے انھيں حاصل ہوگيا ہے اصل بات يہ ہے کہ وہ ديکھنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں ميں ابھي کتني غيرت باقي ہے سوانھوں نے ديکھ ليا اور اس کو بھي نشےکا ٹيکہ لگانےکا بندوبست کريں گے پتر دو ہي باتيں ہوسکتي ہيں يا تو انھوں نے صرف نتيجہ ديکھنے کے ليے مسلمانوں کو چھيڑا ہےيا پھر کوئي ايسا واقعہ رونا ہونے والا ہے جس کي طرف سے وہ مسلمانوں کي توجہ بٹانا چاہتے ہيں" رشيد نے جلدي سے کہا"پر بابا يہ بھي تو ديکھ کے اب وہ ايسي حرکت دوبارہ نہيں کريں گے انھيں پتا چل گيا ہے کہ ناموس رسالت صلي اللہ عليہ وسلم پر جان قربان کر دينے والے موجود ہيں ابھي "پتر پرچم جلا دينے سے يا پاؤں تلے روندنے سے انھيں کچھ نہيں ہوگاتجارتي تعلقات منقطع کرو گے تو بھي اپنا ہي نقصان کروگے تمہاري آدھي سے زيادہ برآمدات انھي ممالک کو ہوتي ہيں ان کے بغير کيا کروگے تمہارے لوگ بھوکے مريں گے يہ بھوک بڑي ظالم شےءہے پتر اس ميں تو رب بھي بھول جاتا ہے بس يہ ياد رہتا ہےکہ ايک پاپي پيٹ لگا ہوا ہےجسے بھرنا ہے پتر وہ زمانے گئے جب آسمان سے من و سلوٰي اترا کرتا تھا اب تو کرتوت ہي ايسے نہيں کچھ کام کي چيز ہوگي تو آسمان والا بھي کرم کرے گا ناہم لوگ تو کوڑا کرکٹ ہيں پتر جو اسلام کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہيںاگر ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے تو عقل سے کام لينا ہوگا پتر“ "کيسي عقل بابا؟“ "رشيد جو بابے کي باتيں سن کر سوچ ميں پڑا ہوا تھا چونک کر بولا "پتر جذباتي ہونے سے بات نہيں بنے گي اللہ کہتا ہے نا کہ وہ مکر کرہے رہے تھے اور اللہ بھي اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے تو پتر ان کے ساتھ مکر کرنا پڑے گا يہ ہنگامے سب سرد ہوجائيں گے بڑي حد يہ ايک مہينہ اور چل جائيں گےمعافي تلافي ہوگي اور بات ختم ہو جائے گي پر بات يہ ہے کہ بات ختم نہيں ہوني چاہيے مکر کرنےوالے لوگ ہيں پتريہ کافر ہندو. يہ بات کو دل ميں چھپا ليتے ہيں پتر کِينےکو اپنے دل ميں رکھتے ہيں ہماري طرح نہيں کہ کچي پنسل مٹانے والي ربڑ کي طرح اسے سرے سے صاف کر ديا نہيں پتر يہ اس کو دل ميں رکھتے ہيں اور جب موقع ملتا ہے بھرپور وار کرتے ہيں ان سے اسي بات کو ہم نےاپنانا ہے پتر اس بات کو بھولنا نہيں دل ميں ان کا کھاتہ کھول کر ان کي طرف ادھار ميں يہ حساب درج کرلينا ہے، بول کيا يہ بات ايسي ہے کہ اسے بھول جائيں يا معافي تلافي سے سب ٹھيک ہوجائے؟؟"بات کرتے کرتے يکدم بانے علیے نے سواليہ انداز ميں رشيد کي طرف ديکھا "نہيں بابا نہں ہم کيسے بھول سکتے ہيں ہم يہ کتيا کے جنے ہمارے آخري سہارے ہمارے آقا ومولاصلي اللہ عليہ وسلم کي عزت پر حرف اٹھائيں اور ہم صرف ان کي معافي لے کر شانت ہوکر بيٹھ جائيں يہ کيسے ہوسکتاہے ہم بھلا ايسا ہونے دينگے"رشيد جيسے جوش بھرے لہجے ميں بولا "يہ ہي بات ہے پتر پر اسي ليے تو کہہ رہا ہوں کہ مکر سے کام لينا ہے ان کا حساب دل ميں لکھتے جاؤ ان کي جانب ايک ادھار کھاتہ کھول کر يہ کبھي ہمارے دوست نہيں ہوسکتےمگر اوپر سے ان کے ساتھ دوستي نبھاؤ اپنے مفادات پورے کرو جب موقع ديکھو کہ اب يہ جوتے تلے ہيں انھيں گندي نالي کے کيڑے کي طرح مسل دو يہ ہي تمہاري سوچ ہوني چاہيے اب پتر ورنہ جذباتيت چند دنوں ميں ٹھنڈي پڑ جاتي ہے اسي جذباتيت کے ہاتھوں ہم مارکھاتےہيں اس ليے ٹھنڈے ہوکر ان کے بارے ميں سوچو اور ايسا وار کروکہ صديوں تک اپنے زخموں پر بلبلاتے رہيں"