شاکر کا بلاگ

Avatarشاکر کا بلاگ میری بلاگنگ کے سلسلے میں پہلی کاوش ہے امید ہے قارئین کو پسند آۓ گا مجھے اپنی راۓ سے مطلع کیجیے گا

علماءے دين

ایک متنازعہ موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں یا شاید حالات نے کردیا ہے۔ عنوان آپ کے سامنے ہے یعنی “علمائے دین“۔ میں نہ ہی کوئی طنز کا تیر چلاؤں گا نہ ہی ان کی تعریف کروں گا۔ بلکہ اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ کچھ مسائل بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر اپنی محدود عقل کے مطابق ان کا حل پیش کرنے کی جسارت بھی کروں گا۔ میرا لکھا غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ میرا علم خام ہے اس لیے میرے قارئین کو حق حاصل ہے کہ مجھے ٹوک دیں میں بصد احترام ان کی تنقیدوتصحیح پر لبیک کہوں گا۔ بات شروع کرتے ہیں۔ علماء کیا ہیں۔ آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہر شعبے کے سپشلائزڈ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے متعلقہ شعبے کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ جیسے ایک فزکس کے ڈاکٹر کو میں چیلنج نہیں کر سکتا کہ میرا علم اس سے کم ہے۔ آخر اس نے سالوں اس علم کے حصول میں لگا دیےہیں۔ کچھ تو ہوگا نا اس کے پاس جو اس کو مجھ سے ممتاز کرتا ہے ۔ اسی طرح علمائے دین ایسے لوگ ہیں جو دین کے معاملے میں سپیشلائزڈ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دین کا صحیح پتا ہے ۔ ان لوگوں نے سالوں اس بات کی تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیے ہیں کہ فلاں آیت کب نازل ہوئی،اس کا پس منظر کیا ہے، فلاں حدیث کب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے موتی بن کر بکھری اور اس کا پس منظر کیا تھا۔مختصرًا ان معلومات پر ان لوگوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو تھی بات کہ علماء کا مقام کیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں ان کااسلام کے لیے کیا کردار ہے۔ یہ بات میں مانتا ہوں کہ ہر زمانے میں ایک ٹولہ ایسا رہا ہے جو درباری تھا سرکار کا کھا کر حق نمک ادا کرتا تھا ان لوگوں کو علمائے سوء کہتے ہیں ۔ یہ بات بھی میں مانتا ہوں کہ صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیھم کا کردار اسلام کو پھیلانے میں انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر دین کو محفوظ کرنے کے لیے جن لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں،رات کا چین اور دن کا سکون برباد کیا،حق بات کہنے کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ان میں علماء بھی ہیں۔ اصل میں دین کے معاملات کو علماء ہی چلا سکتے ہیں۔ صوفیا کا تبلیغ میں اہم کردار ہے رہا ہے اور رہے گا مگر عام لوگ براہِ راست صوفیا سے متعلق نہیں ہوتے۔ صوفیا کا ایک مخصوص اسلوب ہوتاہے وہ بات کچھ اور کرتے ہیں اور مطلب کچھ اور ہوتا ہے جسے صاحبِ نظر ہی پہچان سکتاہے ۔ دوسرے صوفیا کرام اللہ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں ظاہر ہے وہ جو کچھ دیکھیں گے،محسوس کریں گے وہ ہی بیان کریں گے اسی کی نصیحت کریں گے اکثر اوقات یہ باتیں عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں(صوفیا باطن کو اہمیت دیتے ہیں ہم آپ ٹھہرے دنیا دار اس لیے ان کی باتیں جو ان کے لحاظ سے ٹھیک ہیں ہمارے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہوتیں کیونکہ ان کا ایک مقام ہے اس مقام کے اپنے تقاضے ہیں۔ اسکی مثال ایسے لے لیں ایک بازی گر جو رسے پر چل رہا ہے اور ایک بندہ جو نیچے زمین پر۔ صوفیا رسے پر چلنے والے بازیگر کی طرح ہیں اپنی زندگی بلکہ اپنا ایمان تک خطرے میں ڈال کر اللہ کو پہچاننے کی کوشش کوئی دیوانہ ہی کر سکتا ہے اور سچ پوچھیں تو کئی لوگ اس رسے سے گر کر اپنے ہوش خرد بھی گنوا بیٹھے تاریخ کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اس لیے تفصیل میں نہیں جارہا جبکہ ہم عام لوگ سیدھی سادھی تشریح چاہتے ہیں ہمیں بازی گر سے کیا واسطہ ہم تو زمین پر چل رہے ہیں ہمارے تقاضے بھی مختلف ہیں) ۔ اس لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو دین کی باتیں بتائے ان اصولوں کے مطابق ان راوایات کے مطابق ان واقعات کے مطابق جو اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں۔چناچہ اس کل وقتی کام کو علماء بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں بہ نسبت صوفیاکے۔ اگلی بات مذہب کی تبلیغ میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ صوفیا کا اپنا انداز ہے وہ کسی کے منانے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں(یا ان کے ہاتھوں سرزد کرادیا جاتاہے) جو عقل تسلیم نہیں کرسکتی اس طرح سائل اسلام کی حقانیت جان کر مسلم ہو جاتاہے۔ علماء دلیل سے بات کرتے ہیں عام خوبیاں خامیاں گنواتے ہیں اور پھر نتیجہ کے طور پر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں مگر ایک مختلف انداز میں۔(ہر مسلمان اسلام کا سفیر اور مبلغ ہے اور ہونا چاہیے اور ہم کوشش بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ہم سے اسلام کے بارے میں پوچھے تو اس کو مطمئن کریں مگر بات وہی آجاتی ہے ہمارا علم خام ہے۔ ہمارے مقابلے میں ان لوگوں کا علم زیادہ ہے اس لیے وہ بہتر طریقے سے یہ کام کرسکتے ہیں بلاشبہ اسلام کی تبلیغ میں عام مسلمانوں کابھی ہاتھ ہے تاہم اس وقت موضوع گفتگو کچھ ایسا ہے کہ میں اس ذکر کو مختصرًا یہیں ختم کرتا ہوں۔) دین کی تبلیغ کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اسلام کے شروع سے مختلف طریقے اپنائے گئے جو آخر کار ایک منظم نظام کی صورت میں سامنے آئے یعنی دینی مدارس۔ پہلے ان مدارس میں غیر دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جیسے سائینس ۔ قرونِ و:سطٰی کے مسلم سائنسداں اسکی واضح مثال ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں علوم عمرانیات اور پھر دینی علوم تک محدود ہوگئے۔ ایک اور خرابی جو پیدا ہوئی وہ ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر تھا۔ جب ہر کسی نے ریسرچ کی اپنی عقل کے مطابق جو بات اسے ٹھیک لگی اس نے اپنا لی جس سے مختلف مکتبہ فکر وجود میں آئے جنھیں مسالک یا فرقے کہاجاتاہے۔ اختلاف کوئی ایسی بات نہیں جسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک بار دو مختلف مسالک کے علماء آپس میں ملے تو نماز کے وقت دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنا طریقہ نماز چھوڑ کر دوسرے کا طریقہ نماز اپنا لیا۔ یہ احترام تھا محبت تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احترام نہیں رہا اب بات بہت مختلف ہوچکی ہے اب تو فرقے ایسے جزیرے ہیں جن کے مابین اختلافات کے سینکڑوں میل وسیع سمندر حائل ہیں۔ اب کچھ بات برِصغیر کے علماء کی اور یہاں کے دینی تعلیمی نظام کی۔یہ نظام انگریزوں کے دور میں انگریزی تعلیم کے خلاف رد عمل میں شروع ہوا جسے درسِ نظامی کہتے ہیں(میں پہلے عرض کر چکا ہوں میرا علم خام ہے اسلئے اگر یہاں غلطی پر ہوں تو درست فرما دیجیے گا۔) ایک طرف انگریزی تعلیمی نظام دوسری طرف درسِ نظامی۔ درسِ نظامی اصل میں دین کو بچانے کی ایک کوشش تھی مگر اس کوشش کے نتائج آج کل کچھ اچھے نہیں مل رہے۔ اس زمانے کے مطابق بھلے یہ ٹھیک تھی مگر آج کل جو دور چل رہا ہے یہ نظامِ تعلیم بدلنا چاہیے۔ بے شک اس بات میں کوئی شک نہیں اس نظام سے ہی وہ ہیرے نکلے جنھوں نے انگریز مشنری پادریوں کے ناطقے بند کردیے۔ جنھوں نے اس دور میں اسلام کو بچایا جب انگریز سرکار،انکے حمایت یافتہ مشنری اور ہندو قوم اسلام کو ہڑپ کرلینے کے چکر میں تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ انھی کی وجہ سے آج بھی سخت سردی میں فجر کی اذان وقت پر ہوتی ہے۔ بارش ہو،مینہ ہو ، سردی ہو گرمی ہو جنازہ یہی لوگ پڑھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ صداحترام ہیں۔ بے شک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین میں سےہیں (ظاہری علوم میں)۔ یہ ہم سے بر تر ہیں ہم وہ وقت گالم گلوچ یا خرافات میں گزارتے ہیں اور یہ لوگ وہی وقت قرآن کو سمجھنے اور حدیث رسول کو یاد کرنے اور اس کا علم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ قابل صداحترام ہیں یہ علم حاصل کرنے والے اور اس کے اساتذہ۔ بے شک یہ ہی لوگ ہیں جنھوں نے اردو کو اس بات کا اعزاز بخشا کہ اس میں دینی علوم کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو شاید ہی کسی زبان میں ہو شاید عربی میں بھی نہیں۔ ہر قابل ذکر دینی کتاب خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو کا اردو ترجمہ موجود ہے جو ان کاایک اور اعزاز ہے۔ مگر میں جو عرض کررہا تھا وہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ اس نظام میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مسالک کے پیچھے لگ کر علماء دین کی اصل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا معمول بن چکا ہے۔ ان کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں ہوتی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر مسلک کی الگ مسجد ہے اور ایک ہی محلے میں یوں کئی کئی مساجد ہیں۔ مسجد کے ساتھ لکھا ہے فلانی مسجد اہلحدیث،اہلسنت بریلوی،اہلسنت دیوبندی یا اہل تشیع ۔۔ انڈیا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اس قدر اختلافات ہوگئے کہ وہاں اہل تشیع نے آل انڈیا شیعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کرلیا ان کے خیال میں انکے دینی تقاضے اکٹھے رہ کر پورے نہیں ہورہے تھے۔ پاکستان میں مدارس کے پانچ وفاق قائم ہیں یعنی ہر مسلک کا الگ وفاق(اسے آپ یوں سمجھ لیں جیسے یونورسٹی جو امتحان لینے کی ذمہ دار ہو اور سلیبس وغیرہ بھی مہیا کرے ساتھ ہی سند بھی امتحان پاس کرنے کے بعد جاری کرے )۔ آپ میں بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اندازہ کیا جانتے ہیں کہ ان مدارس سےنکلنے والے طلبا دوسرے مسلک بارے کس قدر متعصب ہوتے ہیں۔ جہاں دو عالم اکٹھے ہوجائیں عام سے مسائل پر بحث شروع ہوجاتی ہے جن پرپہلے ہی ہر فرقے نے مخالفت اور موافقت میں درجنوں کتب تحریر کر رکھی ہیں۔ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہتا ہے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے آج کے دور میں جبکہ ہم دین کے پہلے سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کی وجہ میری ناقص عقل کے مطابق یہ ہے کہ ہم لوگ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دے ہے۔ بے شک تبدیلی کی مخالفت ہو رہی ہے تاہم تبدیلی ہونی چاہیے۔ دوسرے اس شعبے کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ماں باپ اپنے بچے کو صرف اسی صورت میں اس شعبے میں بھیجتے ہیں جب یقین ہوجائے کہ یہ اب کسی کام کا نہیں۔ تو سوچا جاتا ہے کہ آخرت ہی سنوار لیں۔ یا وہ بچے جو یتیم ہیں۔ دیانتداری سے بتایے اگر یہ شعبہ خیرات پر نہ چلے، یہ لوگ بھی فیس لیں ،ان سے فارغ التحصیل افراد کی معاشرے میں ویسی ہی مانگ ہو جو کسی ڈاکٹر یا انجینئیر کی ہے تو کیا اس کا معیار بہتر نہیں ہوگا۔ بالکل ہوگا۔ مگر اس شعبے کے حصے میں وہ طلبا آتے ہیں جو کچرا ہوتے ہیں کند ذہن ماں باپ کی نظر میں جن کی کھپت اور کہیں نہیں۔(یاد رہے میں عمومی بات کر رہا ہوں ایسے لوگ بے شک موجود ہیں جو اپنے بچوں کے دین کی تعلیم خصوصًا دلواتے ہیں۔) دیانتداری سے بتایے اس سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ہمارے دشمنوں کو ظاہر سی بات ہے۔ہم جو توانائیاں اس بات پر لگا رہے ہیں کہ فلانے کافر ہیں اپنے ہی بھائیوں کو ذلیل کر ہے ہیں کیا وہ ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہییں جو اسلام پر قدغن لگا رہے ہیں ۔ میری مراد جدید دنیا کے ان غیر مسلم نام نہاد مفکرین سے ہے جن کی کتابیں اس بنیاد پر بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کرتی ہیں کہ اسلام ایک غلط مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد۔(نیز نومسلموں کو بڑی دقت ہوتی ہے جب وہ مسلمان تو ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں اندر کے حالات کا پتا چلتاہے ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا مسلک کیا ہے۔ اس طرح اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔) علم کے محاذ پر،دلیل کے ساتھ میں یا میرے جیسے عام لوگ انھیں قائل نہیں کرسکتے انھیں شکست نہیں دے سکتے۔ انکے ساتھ بحث اور مناظرہ نہیں کرسکتے یہ کام علماء ہی کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں تقابل ادیان کا خصوصی علم سکھایا جاتا ہے انھیں منطق پر عبور حاصل ہوتاہے وہ دلیل دینا اور دی گئی دلیل کو رد کرنے کے قاعدے جانتے ہیں جو میں اور میرے جیسے جاہل نہیں جانتے۔ تو اس سب کاحل کیاہے۔ میری نظر میں اور میرے ناقص علم و عقل کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ +علماء اپنی توجہ فروعات سے ہٹا کر دین کے پھیلانے پر مرکوز کریں۔ بے شک ہر کوئی اپنے طریقے سے دین کو سمجھے اس پر عمل کرے مگر ایک دوسرے پر الزام دھرنا اب بند ہوجانا چاہیے۔ +دینی تعلیمی اداروں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طلباء دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم سے بھی مناسب حد تک لیس ہوکر نکلیں تاکہ انھیں معاشی زندگی میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ +انگریزی تعلیم کا بندوبست خاطر خواہ ہو کیونکہ اسی زبان میں اسلام کے خلاف زیادہ پروپیگنڈہ موجود ہے اور ہمارے سائیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تو فرمان ہے کہ جس نے دشن کی زبان سیکھ لی وہ اسکے شر سے محفوظ ہوگیا۔(یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دینی اداروں کو اس کا احساس ہونے لگاہے ایک اخبار میں کراچی کے ادارے میں پوسٹ گریجویشن کورس بارے اشتہار پڑھ کر خوشی ہوئی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لیے مبلغ تیار کیے جائیں اور اسکے لیے کم از کم تعلیم کی شرط گریجویشن،ساتھ انگریزی میں قابلیت بھی ضروری قرار دی گئی تھی۔) +علماء کو تقابل ادیان کی تعلیم دی جاتی ہے میں نہیں جانتا کہ اس میں اہم مذاہب کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں یا نہیں۔ میں اس سلسلے میں انڈیا کے معروف مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کی مثال دینا چاہوں گا جو اسلامی علوم کے ساتھ چاروں اناجیل اورہندوؤں کی کتب رامائن اور گیتا کے بھی عالم ہیں۔ اگر مدارس میں اس چیز کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو مسلم سکالرز دودھاری تلوار بن جائیں گے۔ +آج کل سائنس پسند ہونا فیشن میں ہے۔ مغربی لوگ ہر بات سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں دین کے بار ےخلاء بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر مدارس کے نصاب میں سائنس کا اس حد تک خصوصی علم شامل کر دیا جائے کہ فارغ التحصیل عالم لوگوں پر اللہ کی واحدانیت سائنس سے بھی ثابت کرسکے تو کیا کہنے۔ میں پہلے ہی ایک جگہ کہہ چکا ہوں کہ اللہ کی ذات سائنس سے ثبوت کی محتاج نہیں مگر یہ ان کی بہتری کے لیے اور انکو آسانی سے سمجھانے کے لیے ہوگا جو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔(اس سلسلے میں ترکی کے معروف سکالر ہارون یحیٰی جن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سائنس کی روشنی میں دلیلیں دے کر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں موجودہ ترکی کا معاشرہ جو سیکولر طرزوں پر استوارہے وہاں نوجوانوں میں اس طریقے سے اسلام کی تڑپ پیدا ہورہی ہے۔) +انتہا پسندی نے جتنا اسلام کو آج نقصان پہنچایاہے پہلے کبھی نہیں پہنچایا تھا۔ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ دوسرے کو دلیل دے کر قائل کیا جائے بم دھماکہ کرکے نہیں۔ اس لیے علماء کی تربیت میں یہ بات بھی شامل ہو کہ وہ جیو اور جینے دو کے اصول کو اہمیت دیں ۔ اپنی بات تمام سیاق و سباق کے ساتھ دوسرے کے سامنے رکھ کر پچھے ہو جائیں وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ آپ کا فرض پورا ہوگیا۔ ہمیں تو تعلیم ہی اس بات کی دی گئی ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا اختیار ہے ہمارا کام صرف بات پہنچا دینا ہے۔ +علماء کے ذہنوں میں یہ بات نہ بٹھا دی جائے کہ ٹی وی اور دوسرے جدید میڈیا گناہ ہیں۔آج کا دور پراپیگنڈہ کا دور ہے جس کا توڑ بھی پراپیگنڈہ ہے ۔ اسے مجبوری سمجھ کر ہی سہی مگر برداشت ضرورکریں اور استعمال بھی کریں ہمارا مطمع نظر اسلام کی اشاعت ہونا چاہیے اگر اسکے لیے ایک گناہ کرنا پڑتاہے تو کم از کم میں کر گزروں گا۔ (میرا ذہن اس سے آگے اس بارے میں کورا ہو رہا ہے تجاویز کئی ایک ہونگی جو کہ دوست اس تحریر کے جواب میں یقینًا پیش کریں گے اس لیے میں بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔) آج کے دور میں اگر ہم دیکھیں تو اہل مغرب جیسے اس بات کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ذہنی سکون کا کوئی ذریعہ نصیب ہوجائے۔ اسلام اس کا واحد حل ہے مگریہ ان تک ایسے پہنچے کہ وہ اس سے محبت محسوس کریں اور اپنا لیں نہ کہ نفرت محسوس کریں۔ آج کے دور کے معروف سکالرز جیسے احمد دیدات،ہندوستان کے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ترکی کے ہارون یحیٰی(پاکستان کے ایک معروف سکالر کا نام بھول رہا ہوں شاید ڈاکٹر حمید اللہ جن کے ہاتھ پر سینکڑوں فرانسیسیوں نے اسلام قبول کیا تھا) وغیرہ اسی لیے اسلام کے داعی اورنمائندوں کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ ان کی تمام توانائیاں اسلام کی حقانیت غیر مسلموں پر ثابت کرنے پر مرکوز ہیں نہ کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مزید مسلمان کرنے پر۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر متعصب مغربی میڈیا بھی انتہائی احترام سے کرتا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اپنے دین کو پھیلانے کی توفیق دے تاکہ یہ صدیوں سے نشاتہ ثانیہ کی منتظر نگاہیں قرار پاسکیں۔ آنے والا دور اسلام کا ہے یہ بات لکھ لیجیے مگر اس کے لیے عمل کی ضرورت ہے۔ تو آئیے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں ۔اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے۔

نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کوئی گاہک نا آیا تو ساتھ والے سے اخبار لے کرپڑھنے لگا۔ ابھی اخبار پڑھتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمعے کی نمازکا وقت قریب آگیا۔ تمام مساجد کے سپیکروں سے مولاناؤں نے وعظ نشر کرنے شروع کردیے۔ ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے “ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔ “اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“ اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔ “یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے: “واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“ اور ساتھ ہی پھر نعرے “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“ اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی “کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“ اور پھر وہی نعروں کی سیریز “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“ “حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“ وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔ “امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“ “روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“ “اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“ “بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“ اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔ دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔ “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ “نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ “نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“ “نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“ اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔ “نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک عام سا لڑکا تھا ۔ نہ خدو خال میں کوئی انوکھا پن تھا نہ باتوں میں۔ وہی لاابالی سا انداز جو ایک نوجوان کا خاصہ ہوتاہے۔ اپنی جوانی کا جوش بلکہ زعم دنیا جیسے کوئی حقیر ترین شے ہو۔ مگر دوسرے ہمجولیوں کی طرح ایک چیز کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا۔ وہ چیزتھی صنف مخالف۔ جب اپنے دوستوں کے منہ سے ان کے معاشقوں کی تفصیل سنتا۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش میں وہ کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر داستان سناتے جیسے راجہ اندر کے جانشین ہوں۔ اس کا دل یہ سن سن کر مچل اٹھتا۔ “آخر ایسا کیا ہے جو سب ایک ہی ڈگڈگی بجائے چلے جاتے ہیں ۔ لڑکی لڑکیاں لڑکی۔۔۔۔۔“ جب اس نے اپنی عمر سے ذرا بڑے اور بزعم خود پرانے پاپیوں سے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو پہلے تو وہ سب خوب ہنسے۔ پھر طنز سے ایک نے جواب دیا“نہ نہ یہ بچوں کے کرنے کا کام نہیں۔“ اسکے ساتھ ہی سب پھر قہقہے لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔ آخر عمر کچھ آگے بڑہی تو اسے آگاہی ہوئی یہ سب تو اس کی فطرت ہے۔ جیسے مقناطیس کے مخالف سرے کشش رکھتے ہیں ایسے ہی انسانوں میں بھی اپنی مخالف جنس کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ “اسی لیے یہ سب ہوتا ہے۔“ اس نے سوچا۔ پھر اس کے دل میں خواہش بیدار ہوئی کوئی ایسا ساتھ ہونا چاہیے جس کا اظہار وہ بھی اپنے دوستوں میں فخر سے کرسکے۔ مگر فطرتًا بزدل تھا۔ آسانی کا قائل۔ پکا پکایا کھانے کا عادی۔ چناچہ اس نے انٹرنیٹ سے یاری لگالی۔ اس وبا نے اسے صرف اتنا فائدہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک لڑکی آگئی۔ اب وہ بھی اپنی عمر اور اپنی عمر سے چھوٹوں میں یہ بات بڑی بے نیازی سے اپنی لمبی لمبی چیٹ کا تذکرہ کر جاتا۔ لڑکے اس کی طرف حیرت مسرت اور رشک سے دیکھتے تو جیسے نفس کے غبارے میں ہوا بھر جاتی اور وہ پھٹنے کے قریب ہوجاتا۔ شاید اس کی بنیادی خواہش یہ ہی تھی۔ کہ اپنے آُپ کو بھی نمایاں کیا جائے۔ “کیا بات کرتے ہو اس سے“ کسی نے ایک دن پوچھ ہی لیا تو اسی بے نیازی سے جواب دیا“بھائی دکھ سکھ کہہ لیتے ہیں کچھ وہ کچھ ہم ۔ دل کا غم ہلکا ہو جاتاہے۔“ وقت بھلا رکا ہے چناچہ وقت چلتا رہا۔اس کا تعلق دوستی سے محبت میں بدل گیا مگر وقت اس کو چلتے چلتے ایک داغ دے گیا۔ انٹرنیٹ پر بے وفائی عام سی بات تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چناچہ اب وہ اپنے تئیں مجنوں بن گیا۔ لیلی کے عشق میں پاگل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بکھرے بال،بے ترتیب ڈاڑہی اور لباس سے بے پرواہی۔ اسی دور میں شاید وہ ہمیشہ رہتا مگر ایک دن یوں ہی نہر کنارے بیٹھا جب بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا تو ایک اسی جیسا آدمی پاس آ کر بیٹھ گیا۔ بے ترتیب بال،چیتھڑوں میں ملبوس ناخن میل سے بھرے۔ “کیا ہے بے کیوں اتنا اداس ہے“ آنے والے کا لہجہ بھی اس کے لباس کی طرح تھا۔ “تمہیں کیا اپنا کام کرو جا کر“ وہ بے نیازی سے بولا اور اپنے پرانے شغل میں لگ گیا نہر کے پانی پر نظریں جما کر جیسے کچھ تلاشنے لگا۔ “سالے عاشق ہے۔ تبھی یہ حال کیا ہوا ہے“ اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ “تمہیں کیسے پتا چل گیا یہ سب بابا“ اب کے اس کا لہجہ عجز سے بھرا ہواتھا۔ “ہاہاہاہاہا ساری ہوا نکل گئی بس اتنا ہی دم تھا“ بابا اب ہنسا تھا۔ “چل بتا دے سنادےجوتیرے ساتھ ہوا“ پھوڑے پر نشتر لگے اوراوہ بہے نہ۔ وہ تو جیسے بھرا بیٹھا تھا۔ سب سنا چکا تو بابا بولا“بے تو نے اس سے رشتہ داری کیوں نکالی تھی“ “بابا ایک دوست کی ضرورت تھی کسی غم خوار کی“ “ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا“ بابا یہ سن کر بے اختیارہنسنے لگا بے تحاشا جب ہنس ہنس کر تھک گیا تو بولا “غم خوار کی ضرورت تھی۔ہاہاہاہا غم خوار ابے یوں کیوں نہیں کہتا کہ اندھا ہو گیا تھا۔“ اس کے بعد پھر وہ ہنسنے لگا تھا۔ “ابے اگر غم خوار کی ضرورت تھی تو جس نے پیدا کیا ہے کیا وہ مرگیا۔ اس کے کہتا وہ تیرا دکھ درد نہ سنتا۔ ہاہاہاہاہا پر تو نہیں مانے گا تیرے اندرتونفس نے ادھم مچایا ہوا تھانا تجھے غم خوار کی نہیں نمائش کی ضرورت تھی۔ ابے کبھی اس کی طرف بھی تو توجہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر دیکھ تیرے غم کیسے ہلکے کرتا ہے وہ۔ہاہاہاہاہاہا پاگل“ بابے پر پھر ہنسی کا دور پڑا تھا اور پھر وہ ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درخت گھاس اور آتی جاتی گاڑیاں لوگ سب قہقہے لگا رہے ہوں اور چیخ رہے ہوں پاگل پاگل پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔